ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں بولی کی اہمیت پر دنیا بھر میں ہزاروں کتابیں وجود میں آ چکی ہیں، صرف پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ماں بولیوں کی اہمیت سے مسلسل انکار کیا جا تا ہے۔ مادری زبان سے مراد ماں بولی ہے ،یعنی یہ وہ زبان ہے جس میں ایک ماں اپنے بچے کو لوری دیتی ہے اور اسے بولنا سکھاتی ہے۔ مادری زبان جوکہ بچہ اپنے گھر میں بچپن سے سنتا ہے اور وہ اس زبان کو پہلے پہل بولنا سیکھتا ہے اور یہ زبان بچے کو سکھائی نہیں جاتی بلکہ اس زبان کوبچہ اپنے ماں باپ ، بھائی بہن کی گفتگو کو سن کر خود ہی سیکھ جاتا ہے ۔ بچہ کو ہر ماں اپنی زبان میں بات کرنا سکھاتی ہے ، اچھی اور بری باتوں سے واقف کرواتی ہے۔ تہذیب اور اخلاق مادری زبان میں بچہ کو سکھائے جاتے ہیں اور اپنے اپنے مذاہب کی باتوں کو بتایاجاتاہے جس کے ذریعہ بچہ آہستہ آہستہ اس زبان کو سیکھتا ہے اور اسی زبان میں سوچتا اور سمجھتا بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے جذبات اور خیالات اپنی مادری زبان میں ادا کرتا ہے۔ اگربچے کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ زبان سیکھ جاتاہے اور باتیں بھی آسانی سے اس کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس لئے ماہرین تعلیم اور دانشور وں کا کہنا ہے کہ بچہ کی ابتدائی تعلیم مادری زبان ہی میں ہونی چاہئے تاکہ بچہ آسانی سے علم سیکھ سکے ، باقی جہاں تک دیگر زبانوں کا تعلق ہے تو وہ خود بخود آگے جا کر وہ زبانیں لکھنا پڑھنا اور بولنا سیکھ جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ حافظہ اور یادداشت تک رسائی زبان کے وسیلے سے ہوتی ہے اور یہ زبان یقینامادری زبان ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ شعور، تحت الشعورکا سفر کرنے والا ذولسان، سنہ لسان یا ہمہ لسان ہو مگر اس کا یہ ذہنی سفر مادری زبان کی قیادت میں ہی ہوتاہے کیونکہ مادری زبان انسان کی فطرت و جبلت کا جزو لانیفک ہوتی ہے البتہ انسان مصلحتاً یا ضرورتاً مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانوں کا بھی استعمال ترسیل و اظہار کے لئے کرتا ہے۔ماہرین لسانیات بجا طور پر کہتے ہیں کہ مادری زبان سے انسان کی فطرت کھلتی بھی ہے اور نکھرتی بھی ہے ، دنیا کے تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک نے بچے کی ابتدائی تعلیم کے لئے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم لازمی قرار دے رکھاہے۔ دراصل ماں کی گود بچے کا پہلا مکتب ہوتی ہے اور بچہ اس مکتب کے ذریعے وہی کچھ سیکھتا ہے جو ایک ماں اپنے بچے کو سکھاتی ہے ، اس لئے کہایہ جاتاہے کہ مادری زبان انسان کی جبلت کا جز ہوا کرتی ہے۔ انسانی سماج میں مادری زبان کی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ، وہ فرد واحد سماج کا ایک حصہ ہوتاہے ، فرد کے لئے مادری زبان ناگزیر ہے۔ مادری زبان سے متعلق انعام اللہ خاں شروانی لکھتے ہیں: ’’مادری زبان وہ زبان ہے جس سے انسان جذباتی طورپر منسلک ہوتا ہے ، یہ وہ زبان ہے کہ اگر کوئی شخص اس زبان کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان کو مادری زبان بنالے تو اس صورت میں وہ ذہنی طورپر تو زندہ رہ سکتاہے مگر جذباتی لحاظ سے مفلوج، بنجر اور سپاٹ ہوجائے گا۔‘‘ (مادری زبان کی اہمیت، ناشر، انجلی گھوش ،کلکتہ، ص24) ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ انڈیا میں ہمارے اردو دان انگریزی ، ہندی یا دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو کی ترویج کا درس دیتے ہیں مگر ماں بولی کے حوالے سے یہی بات پاکستان میں کی جاتی ہے تو اسے تعصب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بچہ کی تعلیم و تربیت اور دیگر علوم سائنس وحکمت، فلسفہ، منطق، علوم، سماجیات ومذہبیات کے معاملے میں بھی مادری زبان زیادہ معاون اور کارگر ثابت ہوگی۔ مادری زبان صرف تعلیم ہی کا ذریعہ نہیں بلکہ بچہ کی زندگی اور اس کا مستقبل ہے ۔ ایک انسان اپنی مادری زبان سے ہی سماجی، قومی اور انفرادی زندگی کے تقاضوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ کہایہ جاتاہے کہ بچہ کا تعلیم حاصل کرنے کیلئے مادری زبان کی حیثیت مسلم ہے۔ لکھنا پڑھنا، سوچنا اور تخلیقی کام انجام دینا دراصل بچہ یہ سب کام اپنی مادری زبان میں آسانی سے کرتاہے۔ ذہنی نشو و نما کے حوالے سے بھی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دور حاضر میں انسان کی ذہنی نشوونما کیلئے مادری زبان ایک لازمی عنصر ہے۔ آج نہ صرف امریکہ بلکہ تقریباً تمام ہی ترقی یافتہ ممالک کا نعرہ مادری زبان میں تعلیم دینے کا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اپنی اولاد کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دلوانے کے بجائے بدیسی زبانوں میں تعلیم کو ہی بچے کامستقبل قرار دیتے ہیں ۔بچہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے تمام علوم کو بڑی آسانی سے سمجھتے ہوئے حاصل کرتاہے۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی مددسے ماہرین تعلیم اور دانشور اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ انسان کی ذہنی نشوونما صرف اور صرف مادری زبان کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور مادری زبان میں تعلیم بچے کو بے شمار ذہنی اور جسمانی امراض سے بچاتی ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو ذہنی اور خصوصی طورپر کسی فن کا ماہر بنانا چاہتے ہیں تو مادری زبان کو اختیار کرتے ہوئے بے شمار فائدے حاصل کرتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں گے۔ انسان کی سب سے پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے بچہ اپنی ماں سے گود میں جو بھی باتیں سیکھتا ہے وہ عمر بھر اس کے ذہن میں پختہ رہتی ہیں اور اس کے اثرات بچے کے ذہن پر نقش ہوکر پختہ ہوجاتے ہیں ۔ مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ حالات، پس منظر ، تہذیب اور ثقافت اور ان کی روایات پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتا ہے۔ زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے ، مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندازہ لگانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ عالمی سطح پر بچہ کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیئے جانے کا انتظام ہوتاہے جس کی اہم وجہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اس کے اور نظام تعلیم کے درمیان ایک آسان عام فہم اور زود اثر تفہیم کاتعلق پیدا کردیتے ہیں۔ مادری زبان اگر بچے کا ذریعہ تعلیم ہوتو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پذیر رہتی ہے اور اس کا ارتقاء پذیر رہنا نہایت ہی ضروری ہے کہ یہ نہ صرف اس علاقے بلکہ ملک و قوم کی اصل اساس ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر