محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند دنوں سے ایک بھارتی ادبی رسالے کے مدیر اور فکشن نگار اشعر نجمی اور ہماری محترم لکھاری لینہ حاشر کے حوالے سے ایک کنٹراورسی فیس بک کے صفحات پر نظر آ رہی ہے۔
لینہ حاشر کی ایک تحریر چند سال پہلے بہت مشہور ہوئی، خواجہ سرا کا اپنی والدہ کے نام خط ۔ یہ تحریر مجھے یاد ہے چند سال پہلے غالباً ہم سب پر دو ہزار سولہ میں شائع ہوئی تھی اور اسے غیر معمولی پزیرائی ملی۔ تب کے حساب سے یہ سپرہٹ قسم کی تحریر تھی ، شائد اس نے چند دنوں میں ایک لاکھ ویوز حاصل کئے تھے جو مضامین کی ویب سائیٹ کے اعتبار سے بہت زیادہ ہیں۔
لینہ حاشر نے بعد میں مزید مضامین بھی لکھے، خاص کر خواجہ سرائوں کے مسائل کے حوالے سے ۔ تب میں روزنامہ دنیا میں میگزین ایڈیٹر تھا اور کالم لکھا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اخبار کے گروپ ایڈیٹر نذیر ناجی صاحب نے ان کے اسی خط سے متاثر ہو کر کالم لکھنے کی پیش کش بھی کی ، ان کے کالم کا لوگو بھی بنا، شائد ایک آدھ دنیا اخبار میں چھپا بھی ۔ پھر یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔
لینہ حاشر کی کتاب چند ہفتے قبل شائع ہوئی ہے، دھنک کا آٹھواں رنگ۔ بک کارنر جہلم نے اسے شائع کیا اور اس کا پہلا ایڈیشن ایک ماہ میں فروخت ہوگیا، اب دوسرا ایڈیشن بھی آ گیا ہے۔
اب کہیں سے سوشل میڈیا پر آیا کہ اشعر نجمی کے ناول میں جو شائد تین سال پہلے چھپا ہے، لینا حاشر کا وہی مضمون تقریباً لفظ بہ لفظ شامل ہے اور بغیر کسی حوالے کے، یعنی بھارتی مصنف نے اسے اپنی تخلیق کا حصہ بنا لیا ۔
یہ بات سامنے آئی تو لینہ حاشر اور ان کے شوہر نامدار حاشر بن ارشاد نے پوسٹیں لگائیں، اس پر اشعر نجمی نے جوابی طور پر الزام عائد کیا کہ لینہ حاشر نے ان کے ناول سے سرقہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
خیر جب انہیں ہم سب کی پرانی پوسٹ دکھائی گئی کہ یہ تو سات سال قبل شائع ہوچکا ہے اس ویب سائٹ پر۔ تب بھارتی مدیر اشعر نجمی پہلے تو چکرائے اور پھر کہنے لگے کہ میں اس کا جواب دوں گا۔
آج ان کی جانب سے ایک مجہول سا دعویٰ کیا گیا کہ ان کے ناول کا یہ حصہ دو ہزار چودہ ، پندرہ میں کسی فیس بک گروپ پر شائع ہوا تھا اور اس لحاظ سے یہ لینا حاشر کے مضمون سے دو سال پہلے شائع ہوا ہے ۔ اپنے مخصوص انداز میں ان صاحب نے تنقید کرنے والوں کو بھی بے بھاو کی سنائی ہیں۔
میں نے دونوں اطراف سے تحریریں اور پوسٹیں پڑھی ہیں، دونوں کے موقف سامنے آ چکے ہیں۔ ذاتی طور پر میری محترمہ لینہ حاشر سے کبھی ملاقات ہوئی ہے نہ ان کے شوہر نامدار حاشر بن ارشاد سے۔
حاشر صاحب کی بیشتر آرا اور ان کی مخصوص سوچ اور فکر سے شدید اختلاف رہا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر بسا اوقات بلاوجہ کے فکری پنگے لیتے رہتے ہیں، کئی متنازع پوسٹیں بھی کر دیتے ہیں۔ میں نے اسی وجہ سے انہیں خاصے عرصے سے ان فالو کر رکھا ہے کہ ان کی کوئی ایسی ویسی پوسٹ سامنے آنے پر خواہ مخواہ کی جھنجھلاہٹ نہ ہو۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ حاشر بن ارشاد سوچ اور فکر کے لحاظ سے میرے انتہائی مخالف کیمپ میں ہیں، ہماری سوچ یکسر مختلف ہے اور بعض اوقات کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کے خلاف ہی لکھا ہے۔
اس کے باوجود دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ گواہی ایمانداری سے دی جائے۔
میرے نزدیک وہ تحریر لینہ حاشر کی ہی ہے اور یہ ہمارے سامنے ہی شائع ہوئی، اس پر ریسپانس بھی ہمارے سامنے آیا اور لینہ نے اس کے بعد اسی انداز میں مزید بھی لکھا۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ، اس کا ایک ہی اسلوب، سیکوئنس اور ردھم ہے۔
صحافت میں مجھے تین عشرے ہونے کو آئے ہیں، بیس بائیس برسوں سے میں مختلف اخبارات کا میگزین ایڈیٹر رہا ہوں۔ بہت سے لکھاریوں کی بے شمار تحریریں شائع کی ہیں، اسلوب کی ہمیں پرکھ اور سمجھ ہے اور یہ اندازہ آسانی سے ہوجاتا ہے کہ یہ تحریر کس ادیب کی ہے۔
لینہ حاشر کی اب تو کتاب بھی چھپ چکی ہے۔ ان کی کتاب پڑھنے والا ہر سمجھدار قاری آسانی سے اندازہ لگا لے گا کہ خواجہ سرا کے خط کی مصنفہ لینہ ہی ہیں اور وہ مضمون ان کی کتاب کے دیگر مضامین سے اسلوب، فکر ، سوچ اور نثر میں مشابہہ ہے ۔
میں نے حاشر کی پوسٹ پر اشعر نجمی (اثبات کوارٹرلی )کے کمنٹس بھی پڑھے تھے، وہ جواب در جواب دیتے رہے۔ تب ان کا پورا زور اس پر تھا کہ لینہ حاشر کی کتاب تو ابھی دو ماہ پہلے چھپی ہے جبکہ میرا ناول تو تین سال پرانا ہے۔ اس وقت انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ہم سب میں سات سال پہلے چھپ چکا ہے۔
انہوں نے اپنے کمنٹس میں یہ نہیں کہا کہ یہ مضمون یا بقول ان کے ان کے ناول کا یہ ٹکڑا دو ہزار چودہ یا پندرہ میں فیس بک پر چھپ چکا ہے۔ یہ سکرین شاٹ ان کی تازہ اختراع ہے اور کسی طرح کی فوٹو شاپ وغیرہ ۔
اشعر نجمی نے اپنے ناول میں اسے شامل کرتے ہوئے دو تین الفاظ کو ہندی کر دیا تھا اور وہ صاف معلوم ہو رہا ہے کہ بے جوڑ ہیں ان کا پورے مضمون سے کوئی تعلق اور رشتہ ہی نہیں بن رہا۔ ایک مضمون جومکمل اردو میں ہے، پورا اظہار اردو کا اور صرف مہمان کو گوڑھی ہندو میں لکھ دینا تو بے تکی بات ہے ۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسے ہندی بنانے کی کوشش کی گئی، ناکام، کمزور کوشش۔
بہرحال میرے خیال میں بہتر ہوتا کہ اشعر نجمی اپنی اس غلطی یا سرقے پر معذرت کر لیتے۔ میرا گمان یہی ہے کہ انہیں وہ مضمون سوشل میڈیا پر کہیں ملا، ممکن ہے مصنف کے نام کے بغیر ہی ہو، چونکہ لینہ کا وہ مضمون وائرل ہوا تھا بے شمار جگہ شیئر ہوا ۔ اشعر نجمی نے غالباً چپکے سے اپنے ناول کا حصہ بنا لیا کہ کسی کو کیا پتہ چلنا ہے۔ یہ اور بات کہ اس کی مصنفہ موجود ہے اور وہ معروف بھی اور اب اس کی کتاب بھی چھپ گئی ۔ یوں معاملہ بگڑ گیا۔ بہرحال اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور سرقے سے ہر حال میں بچنا چاہیے کہ اکثر اوقات یہ بیچ چوراہے ہی شرمندہ کراتا ہے۔
لینہ حاشر ایک اوریجنل رائٹر ہیں، یہ ایک حقیقت ہے اور اشعر نجمی کا تمام تر پروپیگنڈہ اور لابنگ یہ بات نہیں چھپا سکتی۔ سرقہ ان کی جانب سے ہی ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر