نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

منی بجٹ اور مہنگائی کا طوفان۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے شدہ ایک کھرب 70ارب روپے کے منی بجٹ کے تحت نئے ٹیکسز نافذکر دیے ہیں جو کہ غریبوں کے ساتھ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف غریبوں پر ٹیکس لگانے کا تو ہر بار کہتا ہے یہ کیوں نہیں کہتا کہ لوٹی گئی دولت واپس لائی جائے۔ آئی ایم ایف یہ شرط کیوں عائد نہیں کرتا کہ کابینہ کا سائز چھوٹا رکھا جائے۔ آئی ایم ایف یہ کیوں نہیں کہتا کہ مالیاتی کرپشن پر قابو پایا جائے۔ یہ پوچھنا حق بنتا ہے کہ حکمرانوں کے گناہوں کا عذاب غریب کیوں بھگتیں ؟۔ ایف بی آر نے جی ایس ٹی کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کر دی ہے جبکہ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں بھی 150 فیصد سے زائد تک اضافہ کرنا اس بناء پر غلط ہے کہ سگریٹ کی قیمتیں جب بھی بڑھائی جاتی ہیں اس کا فائدہ صرف مافیاز اٹھاتے ہیں ۔ سمگلروں کی موج ہو جاتی ہے، پاکستانی سگریٹ کے مقابلے میں بیرون ممالک کے سگریٹ فروخت ہونے لگتے ہیں اور سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کا شرح منافع بھی اس بنا پر بڑھ جاتا ہے کہ کمپنیاں اپنی پوری پروڈکشن ظاہر نہیں کرتیں۔ اگر ان کی پیداواری لاگت چالیس فیصد ہے اور ٹیکس 60 فیصد ہیں تو وہ مقرر کی گئی قیمت پر اپنے برانڈ فروخت کر کے بڑے منافع لے جاتی ہیں ، مزید یہ کہ مہنگے برانڈ کی دو نمبر تیاری تو حساب کتاب میں نہیں آتی وہ باہر ہی باہر سے اپنا منافع لے جاتی ہیں۔ تو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافے کی بجائے ٹیکس سسٹم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کفایت شعاری کمیٹی نے تجویز دی کہ ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دیئے جائیں ۔ گزشتہ کئی سالوں سے بیورو کریسی ترقیاتی منصوبے مکمل کراتی آ رہی ہے، بلدیاتی اداروں کا چارج بھی بیورو کریسی کے پاس ہے مگر کرپشن بڑھ رہی ہے ۔ ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دینے کی تجویز کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ بیورو کریسی کے پاس چلا جائے۔ ترقیاتی فنڈ ز روکنا درست نہیں بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرف دور کے بلدیاتی نظام کے تحت بیورو کریسی کو عوامی نمائندوں کے ماتحت کیا جائے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے، مقامی ترقیاتی منصوبے بلدیاتی اداروں سے مکمل کرائے جائیں اور یونین کونسلوں کو بھی سسٹم کا حصہ سمجھا جائے۔ یہ تجویز کہ سرکاری خزانے سے کسی کو بھی 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے ، وضاحت طلب ہے کہ بڑے افسران جو صاحب حیثیت ہوں وہ اگر دو لاکھ پر ہی گزارہ کر لیں تو ملک و قوم کیلئے بہتر ہوگا۔ یہ تجویز کہ سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں نہ دی جائیں ، اس پر سو فیصد عمل کرنے کی ضرورت ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ ان لوگوں نے کرنا ہے جن کے پاس بڑی گاڑیاں موجود ہیں۔ غریب مرتا مر جائے ان کو کوئی پرواہ نہیں ، وہ اپنی سہولتوں سے دستبردار ہونے کیلئے کیسے تیار ہوں گے؟۔ سرائیکی میں ایک کہاوت ہے ’’کوئی جیوے تے بھانویں مرے، ساڈے پنج کھرے‘‘۔ کفایت شعاری کمیٹی کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری افسران سے تمام مراعات، سکیورٹی، معاون اسٹاف اور یوٹیلیٹیز واپس لی جائیں ، بظاہر یہ تجویز ایسے ہے کہ جیسے شیر کوکہا جائے کہ وہ بکری کو نہ کھائے ، مگر کوئی ایسی انہونی ہو جائے کہ مذکورہ افسران خودبخود پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت اور ناداری کا احساس کر لیں اور اپنی ان مراعات سے دستبردار ہو جائیں تو قوم پر ان کا بڑا احسان ہوگا۔ یہ تجویز کہ تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں 15 فیصد کم کی جائیں۔یہ تجویز صرف پارلیمنٹیرینز کیلئے ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سرکاری افسران کیلئے بھی ہونی چاہئے اور جہاں تک ارکان پارلیمنٹ کا تعلق ہے تو ان کی تنخواہوں میں کمی کیلئے قانون سازی کی ضرورت پیش آئے گی۔ ارکان پارلیمنٹ وہ مخلوق ہے جو اپنی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کرتی رہی ہے ، یہی انصاف عدلیہ بھی خود کو مہیا کرتی رہی ہے، ایک ہی ملک ہے مگر پیمانے الگ الگ ہیں، سکیل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عدلیہ اور دیگر محکموں کی تنخواہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے اور عدلیہ آئین کی تشریح کرتی ہے۔ کفایت شعاری کمیٹی کی تجاویز پر کون عمل کرے گا؟ حکومت کی طرف سے ٹیکس کی شرح وی باک سسٹم میں تبدیل کی گئی ہے جس نے خود بخود نئے ریٹ چارج کرنا شروع کر دیے ہیں،منی بجٹ کے لیے حکومت نے سیکڑوں پُرتعیش اشیاء پر 25 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی منظوری دی ہے۔ جبکہ پرتعیش کا لفظ اس بات کا غماز ہے کہ ایسی چیزوں کی درآمد بند کی جائے، مکمل پابندی ہونی چاہئے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ عیاشی کیلئے منگوائی گئی اشیاء کے ٹیکس بھی چوری ہو ہو کر کسٹم افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں یا پھر تاجر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جس ملک میں دس کلو آٹے کے تھیلے کیلئے لوگ لائنوں میں لگتے ہوں ، جس ملک میں غربت کے باعث لوگ خودکشیاں کر رہے ہوں ، جس ملک کا ہر انسان تو کیا ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والا بچہ بھی لاکھوں کا مقروض ہو تو اس ملک کیلئے پرتعیش اشیاء کی درآمد شرمناک ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے ، زراعت پر مبنی صنعتکاری کی ضرورت ہے، ہر چیز پاکستان میں بننی چاہئے اور خوشی تب ہو گی جب عالمی منڈی میں میڈ اِن پاکستان کے نام سے اشیاء موجود ہوں ۔ اس مقصد کیلئے صنعتی ماحول بنانا ضروری ہے ، صنعتوں پر بجلی اور گیس پر سبسڈی ختم کرنا درست نہیں، پیداواری لاگت بڑھنے سے فیکٹریاں بند اور بے روزگار ی بڑھنے کے خدشات ہیں۔ صنعتوں کیلئے سبسڈی ختم کرنے کی بجائے بجلی ، گیس چوری اور کرپشن پر قابو پانا ضروری ہے۔ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے۔ پٹرول 22 روپے اور ڈیزل 17روپے فی لیٹر مہنگا کیا گیا ہے۔ حکومت پہلے ہی یکم تا 15فروری تک پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 35 روپے فی لیٹر غیر معمولی اضافہ کر چکی تھی۔ منی بجٹ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے مہنگائی کا نہ تھمنے والا طوفان آئے گا۔ مہنگائی کی چکی میں پہلے سے پسی غریب عوام کا جو حال ہوگا اس کا تصور ہی لرزا دینے والا ہے۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author