مطیع اللہ جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل مشرف مر گیا مگر آمریت ابھی زندہ ہے، با لکل اسی طرح جس طرح فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاءالحق جیسے آمروں کی موت کے بعد بھی جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کی شکل میں آمریت کا گھناؤنا وجود باقی رہا، بے پردہ آمریت کے ان باپردہ وارثوں نے جو گل کِھلائے وہ ننگی آمریت کو بھی شرما دیں، آمریت کے باجوئے نے صحافت کے چودھری کے ذریعے اپنے جن گناہوں کے اعتراف کا سلسلہ شروع کیا ہے اس میں شرمساری اور افسوس کا عنصر شامل نہیں، اپنی اسی ڈھٹائی اور بے خوفی کے باعث ان لوگوں نے مغربی پاکستان کی نسل ضرور تبدیل کر دی ہے، باجوائی اعترافات سے ”جنگی بہادری“ کے ان قصوں کی یاد تازہ ہوتی ہے جس کا مظاہرہ مشرقی پاکستان میں ”سیکینڈ جنریشن وار فئیر“ کے ذریعے”ہائبرڈ نسل“ کی افزائش کے لئے کیا گیا، وہاں تو نسل نہیں بدلی اور برقرار رہی یہاں مغربی پاکستان میں بدل گئی، یہ وہ نسل ہے جس کا آئین اور جمہوریت سے کوئی واسطہ نہیں، یہاں کا نِکا اپنے ابّے کو بھی پہچاننے سے انکاری ہے بلکہ اس پر پہلی گرل فرینڈ چھوڑ کر دوسری بنانے کا دوش دے رہا ہے، اس نسل کو 2018 الیکشن کے لئے کی گئی سیاسی اور عدالتی انجینئرنگ سے کوئی سروکار نہیں، آئین سے زیادتی کی نتیجے میں پیدا ہونے والی اس نسل کو اب الیکشن چاہئیں، عدم اعتماد تحریک کے جمع ہونے سے پہلے تک اس نسل کو الیکشن کے نام پر ”متلی“ آتی تھی، مگر پھر”امریکی سازش“ کے تعویز نے کام کر دکھایا-یہ نسل پچھلے 53 سال میں تیار ہوئی ہے جس کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی مانند چند سیاستدانوں کے رحم سے پیدا کیا گیا، اس کو آٹھویں ہو یا سترہویں آئینی ترمیم، نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ کہیں یا ظفر علی شاہ کیس کا، جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کہیں یا جنرل باجوہ کی، مشرقی پاکستان سانحے کی کمیشن رپورٹ پر سویلین قیادت کی بزدلی کہیں یا کارگل واقعے پر، ایبٹ آباد آپریشن پر سویلین بزدلی کہیں یا آرمی پبلک سکول پشاور سانحے پر، آج کی اس ٹیسٹ ٹیوب نسل کا ماخذ آمریت کا نطفہ اور ہماری تمام سیاسی قیادت کا وہ بطن ہے جو ابھی بھی بانجھ نہیں ہوا۔
جنرل مشرف مر گیا مگر جنرل اسلم بیگ اپنے تمغہ جمہوریت سمیت زندہ ہے باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ نے اسے 1990 کا الیکشن چرانے کا مجرم قرار دیا، جس کا مینڈیٹ چوری ہواس نے احتساب کی بجائے اصولوں پر سمجھوتا کیا اور پھر وہی ہوا جو اصولوں پر سمجھوتا کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، جنرل مشرف 21 اکتوبر کی فوجی بغاوت پر نہیں ججوں کی برطرفی پر آئین کا مجرم ٹھہرا، جنرل کیانی کی ایبٹ آباد میں امریکی حملے کو روکنے میں ناکامی اور پھر میمو کمیشن کے ڈرامے کے ذریعے حکومت کی بلیک میلنگ، جنرل راحیل شریف کی نواز آرمی پبلک سکول سانحے میں غفلت اور نواز حکومت کیخلاف دھرنا سازش میں کردار اور پھر جنرل باجوہ کی سیاسی انجینئرنگ اور اس کے باعث عمران خان کی گدّی نشینی یہ سب ثابت کرتے ہیں کہ بزدل اور اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے باری باری اس ملک کے آئین کو نوچا ہے یہ جان کر کے اس ملک میں نہ تو فوجی آمروں کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ ہی ان کا کوئی کچھ بگاڑ سکتا ہے، اگر زرداری نے جنرل مشرف پر 21 اکتوبر کی بغاوت کا مقدمہ بنا دیا ہوتا اور بے نظیر کے قاتلوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہوتا تو جنرل راحیل جیسے ٹرک آرٹ کے ہیرو بنے زرداری اور شریف خاندان کی لینڈ کروزروں کا منہ نہ چڑا رہے ہوتے اور جنرل باجوہ جیسے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی ٹیریان وائٹ ثابت کرنے کے حیلے بہانے نہ ڈھونڈ رہے ہوتے۔ مگر اس کا باقاعدہ اعلان اور اس پر ندامت کا اظہار شاید کبھی نہ ہو گا کیونکہ اس پر اسٹیبلشمنٹ کی بھی تاحیات نا اہلی ہو سکے گی۔
سوالات سے عاری چند سینئر صحافیوں کے ذریعے جنرل باجوہ کے انکشافات پر قانونی کارروائی کی بجائے حکمرانوں اتحاد کے فاخرانہ و فاتحانہ ٹھمکے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بیوں کی نسل کی آئندہ کھیپ بھی جلد تیار ہو گی، اور ہم میں سے کچھ صحافی گندے ھوٹل کی چائے کی پیالی میں تیرتی گندی مکھی کو بھی چائے کی خوبصورتی ثابت کرتے رہینگے، اسی ہائبرڈ نسل کے کچھ صحافیوں نے حکمران اتحاد میں مشاورت کا قلمدان بھی سنبھال رکھا ہے، چند دوسروں نے ”اندر کی خبروں“ کی لالچ میں گاو¿ں کے ”سانڈ کی سرگرمیوں“ کو بڑھا چڑھا کر پشن کرنے کا کام پکڑ رکھا ہے۔ ایسے صحافی نوجوان نسل کے لاشعور میں اسٹیبلشمنٹ کی غیر آئینی سرگرمیوں کی ایسے تشہیر کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ انہیں آئین سے غداری نہیں بلکہ معمول کی بات لکھنا شروع ہو جاتی ہے، مگر ایسے لاشعور کی تشکیل میں خود عمران خان اور ن لیگ کے قائدین کا سب سے زیادہ کردار ہے جو بے شرموں کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے اپنے رابطوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے- جنرل مشرف کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین محدود ضرور تھی مگر خصوصی عدالت کے اس فیصلے کی توہین بھی تھی جس میں اس کو آئین سے غداری کے جرم میں پانچ بار سزائے موت سنائی گئی تھی، ا±س فیصلے کو جس جج نے تختِ لاہور میں بیٹھ کر کالعدم قرار دیا تھا اس کو ترقی دے کر سپریم کورٹ میں تعینات کر دیا گیا، ان دونوں فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی آج تک کسی کو ہمت ہی نہ پڑی۔
سیاسی اور جمہوری سوچ کی اس سطح پر الیکشن ہو یا نہ ہو اس سے کیا بدلے گا، 57 سال سے ہم الیکشن الیکشن اور کرپشن کرپشن ہی تو کھیل رہے ہیں، اب لاہور ہائی کورٹ کا حکم ہو یا سپریم کورٹ کی نیب ترامیم کیس میں کارروائی اس سے کچھ نہیں بدلے گا جب تک جرنیل، جج، سیاستدان اور صحافی برملا اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کرتے یا ان کو کٹہرے میں نہیں لایا جاتا- اقتدار کا قلم دان عمران خان کے ہاتھ میں ضرور دکھائی دیتا ہے مگر تاریخ کا قلم دان ن لیگ اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے پاس ہے- الیکشن کی تاریخ سے پہلے کچھ تاریخ رقم کرنے کا حکمران اتحاد کے پاس سنہری موقع ہے، ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ تو دفن ہو چکا مگر اس نعرے پر عمل کر کے اسے دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے، ن لیگ فوری طور پر اعلان کرے کہ جنرل باجوہ، جنرل فیض، اور ان کے ساتھی سازشی جرنیلوں پر2018 کے الیکشن میں سیاسی و عدالتی انجینئرنگ کرنے پر بغاوت کے مقدمات درج
کئے جائینگے، پھر دیکھیں عمران خان کس جرنیل کیخلاف مقدمے کی حمایت کرتے ہیں اور کس پر مقدمے کی مخالفت، ایسا کرنے یا نہ کرنے کی دونوں صورتوں میں عمران خان کی منافقت واضح ہو جائیگی، آئی ایم ایف اور چند دوست ممالک کے ساتھ ڈیل شاید ایسا نہ کرنے سے مشروط ہے، تو اگر عمران خان اور نواز شریف دونوں ہی ایسا نہیں کر سکتے تو الیکشن کس بات کے؟ عوام سے ووٹ لیکر اس ووٹ کو دوست ممالک کے آگے گروی ہی رکھو انا ہے تو پھر عدالتوں میں وکیلوں کی دلیلوں اور ججوں کے بھاشن کس بات کے؟ کسی ایک جماعت کو اقتدار کی قربانی دیکر بھی اپنے آئین اور جمہوریت کا حلف کے مطابق دفاع کرنا پڑے تو اسے کرنا چاہئے۔ وگرنہ پھر آئینی اور جمہوری محاذ پر ہتھیار پھینکنے کا عمل کہاں جا کر رکے گا یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ جغرافیائی سلامتی کے ضامنوں کی ڈکٹیٹرشپ سے نکلتے نکلتے ہم اپنے معاشی وجود کے ضامنوں کی ڈکٹیٹرشپ میں پھنس گئے ہیں، اس کی بڑی وجہ عوام کو جوابدہ ہونے والی سیاسی قیادت کا فقدان رہا ہے جس کی نسل کشی کسی اور نے نہیں فوجی حکمرانوں نے ہی کی ہے، اگر جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو شیخ رشید کی طرح ہتھکڑیوں میں نہ جکڑا گیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب آئندہ کی ٹیسٹ ٹیوب نسل عمران خان کو ریاست پنجابستان کا وزیر اعظم بنانے پر بھی راضی ہو گی اور مریم نواز جنرل باجوہ کے اعترافِ جرم پر نازاں تنظیمی جلسوں میں عمران خان پر ملک توڑنے کا الزام لگا رہی ہونگی۔ بے شک مشرف تھا اور نواز شریف ہے مگر ایسے ہونے کا کیا فائدہ کہ اپنی حکومت میں ایک سزائے موت پانے والے مجرم فوجی ڈکٹیٹر کو فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا جائے۔
بشکریہ نئی بات
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر