یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چودہ پندرہ سال کی ایک بچی کیمرہ سیٹ کر کے دوپٹہ اُتار کر ایک طرف پھینکتی، پھر قمیض کا دامن پکڑ کر اوپر اُٹھاتی اور پسلیوں تک اونچا کرتی ہے۔ آٹھ دس سیکنڈ کے اِس کلپ میں نہ فحاشی ہے، نہ شہوت، نہ کچھ دلچسپ، نہ سیکس نہ بیہودگی۔ اِس میں صرف اور صرف ہمارا معاشرہ اور اُس کا بے پتوار سفر ہے۔
اوریائی ٹیلی وژن اب بھی ایتھلیٹ خواتین کی ریس تک دکھاتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔ ہر بڑی سڑک پر رومی اور اقبال کے معنوی پرستار اونگھتے ملتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ہیروئن کا نشہ کرنا قابلِ گرفت جرم ہے۔
موجودہ بے راہرو ’مغربی‘ معاشرہ ہمارے والی بے راہرویوں سے تو آشنا ہی نہیں۔ اُنھیں کیا معلوم کہ دباؤ نے ہمیں ہر لحاظ سے کتنا متشدد بنا دیا ہے۔ جب آزادیوں کی حدود متعین نہ ہوں تو وہ بے معنی ہو جاتی ہیں۔ آخر ہماری آزادی کا تعین ’’ہم کیا کر سکتے ہیں‘‘ کی بجائے اِس چیز سے ہوتا ہے کہ ’’ہم کیا نہیں کر سکتے۔‘‘
ذرا غور کریں کہ ایسا کیا ہے جو ہم نہیں کر سکتے! ہمارے لیے سب کچھ ممکن ہے، بشرطیکہ دولت و اختیار ہو۔ یہ اختیار کسی کی سطح کا ہو، ہماری ’’آزادی‘‘ کا سمندر رواں ہو جاتا ہے۔ ہم چنگ میں بیٹھی طالبات پر جھپٹ پڑتے ہیں، عورتوں پر تشدد کرتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر ہم کلپ بناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر