دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹر کی ڈائری!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

آنول اکھڑ گئی پوری، جلدی سے سیزیرین کر کے بچہ نکالا۔ لیکن خون رک نہیں رہا تھا۔ دوسرے کمرے میں بھی سیزیرین چل رہا ہے۔ اُس بچے کی سی ٹی جی بہت خراب تھی۔ آج رات تو ساری ایسے ہی گزر گئی ۔ ۔ ۔ رینا تھکے ہوئے لہجے میں ہمیں بتا رہی تھیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روکیں روکیں، گاڑی روکیں ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر آپ کی گاڑی کی ٹکر ہونے والی تھی ۔ ۔ ۔ پارکنگ میں اپنی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے نرس ہاتھ ہلاتے ہوئے ہماری طرف دوڑی۔

کیسے روکیں؟ اوٹی میں مریض سیریس ہے، ڈاکٹر کی مخصوص پارکنگ پہ کوئی گاڑی کھڑی کر کے چلا گیا ہے۔ کیا کریں؟ کدھر جائیں؟ سامنے کھڑی گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کو کہا، میاں تم تو اپنی سواری کے انتظار میں ہو، کہیں بھی کھڑی کر لو گاڑی ۔ ۔ ۔ نہ جی کون دیتا ہے جگہ؟ کون پہنچانا چاہتا ہے کسی کو فائدہ؟ دل چاہ رہا تھا گاڑی پھینکیں کھڈے میں اور دوڑیں او ٹی کو۔ خیر کسی نہ کسی طرح گاڑی سے جان چھڑا کر او ٹی پہنچے۔

او ٹی نرس دوڑی ہماری طرف ۔ ۔ ۔ جلدی کرو ڈاکٹر۔ او ٹی کے کپڑے جلدی سے پہنے، ٹوپی چڑھائی، بازو ہاتھ دھو کر دستانے اور پھر چلو ہٹو بچو ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ سے لگتا ہے ایسے موقعوں پہ کہ ہمارے ہاتھ میں سوئی دھاگہ نہیں، سٹین گن ہے یا کلاشنکوف اور نامعلوم دشمن کو قابو کرنا ہے۔

میز پہ بے سدھ پڑی مریضہ، ڈلیوری کے بعد خون رک نہیں رہا، بچے دانی بنی تھیلا۔ ۔ ۔ تین ڈاکٹر پریشان حال ہاتھ میں اوزار تھامے، انیستھٹسٹ ہونق، بی پی گر رہا ہے۔ خون کی شدید کمی، لگتا ہے حمل میں کچھ کھانے کو نہیں ملا۔

خون کی دو بوتلیں، بچے دانی میں انجکشن، مقعد میں گولیاں اور سوئی دھاگے کا کمال ۔ ۔ ۔ کاک ٹیل تو چڑھا دی ہم نے مریض کو۔ معاملہ کچھ ہی دیر میں سدھر گیا تو سب کی سانس میں سانس آئی۔ اُڑتی ہوائیاں کہیں ادھر اُدھر ہو گئیں۔ کچھ تعریف شعریف بھی ہوئی وہ کیا اپنے منہ سے بتائیں ۔ ۔ ۔ آپ ہمارا نام میاں مٹھو ہی نہ رکھ دیں کہیں۔ نا بابا نا گھوٹکی والے میاں مٹھو نہیں جو دن رات ثواب کماتے ہیں چھوٹی بچیوں کو سیدھے راستے پر لا کر۔

او ٹی سے نکلے تو لیبر روم کی طرف چلے۔ آج ہم کنسلٹنٹ آن کال تھے۔ دن بھر او پی ڈی بھگتائی تھی اور وہیں سے بھاگ کر آئے تھے جب گاڑی ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ آج تو سر منڈاتے ہی اولے پڑے، ویسے کتنے زور کے لگے ہوں گے وہ اولے جو گنج پہ آ کے ٹکرائے ہوں گے اور ان صاحب نے محاورہ ایجاد کیا ہو گا، ہم دل ہی دل میں ہنسے۔

لیبر روم میں ایک گھنٹی زور زور سے بج رہی تھی اور سب نرسیں ڈاکٹر ایک کمرے کی طرف دوڑے جا رہے تھے۔
کیا ہوا؟ ایک سے پوچھا۔
کندھے اٹک گئے ڈاکٹر، نکل نہیں رہا۔

اوہ، دوڑو بھئی تم بھی دوڑو، اپنے آپ سے کہا۔ لیکن دوڑ میں تو پھسڈی تھے نا شروع سے، اوپر سے ہڈی تڑوا کر جڑا پاؤں ۔ ۔ ۔ خیر ساتھ دے ہی دیتا ہے کچھ لنگڑی پالا کھیل کر۔ کمرے میں پہنچنے والے آخری کھلاڑی ہم ہی تھے۔ مصر سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شیریں بچہ تو نکال چکی تھیں مگر منہ لٹکا ہوا تھا۔

خیریت؟
نہیں، بچے کا بازو فریکچر ہو گیا کھینچتے کھینچتے ۔ ۔ ۔ ۔ بچ تو گیا نا، ہم بولے۔ جی ہاں۔
بس شکر کرو پھر، باقی سب اس کھیل کا حصہ ہے جو ہم دن رات کھیلتے ہیں۔
پھر بھی۔ جی تو نہیں چاہتا کہ کچھ برا ہو۔
ارے نادان، بہت سوں کا جی تو دوسروں کو مسل کر کچلنے اور پھر سے مسل دینے سے کم پہ مانتا ہی نہیں۔

شیریں کے پلے ہماری بات نہیں پڑی۔ وہ تھکی تھکی ہنسی ہنس دی، جانتی ہے، فالتو باتیں کرنا ہماری عادت یا شاید فطرت؟

چلو جی ہن گھر نوں چلیے ۔ ۔ ۔ گنگناتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے۔
امی، آج دیر کیوں ہوئی آپ کو؟ میں سوچ رہی تھی آپ آئیں گی تو سمندر کو ہیلو ہائے کر آئیں گے۔
جان عزیز، وہ جو روگ لگا رکھے ہیں تمہاری ماں نے، بس اس میں ایسا تو ہوتا ہے۔
چلیں کچھ دیر آرام کر لیں، شام کو چلیں گے۔

شام ہوئی تو نسیم بیگم سر پہ کھڑی بڑبڑا رہی تھیں۔
سب ختم، گوشت سبزی، ٹماٹر پھل، کیا پکاؤں؟
دال چاول۔
تڑکا لگانے کے لیے تیل بھی تو چاہیے، وہ بھنا کر بولیں۔
اچھا بھئی، جاتے ہیں۔
امی مت جائیں، آن لائن منگواتی ہوں۔

ارے بٹیا رانی، آن لائن خشک راشن تو ٹھیک ہے، پر گوشت خور گوشت لیتے ہوئے جب تک آنکھ نہ سینکیں، کیسے مزا آئے۔

چلو جی، پھر چل پڑی گاڑی ۔ ۔ ۔ ۔ چل چلیے دنیا دے اس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔ ویسے کتنا مزا آئے اگر کبھی ایسا ہو جائے۔ کووڈ کے لاک ڈاؤن میں جب لق ودق سڑک پہ نکلتے تھے تو کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا تو تھا، زندگی آسان تھی ویسے ۔ ۔ ۔ توبہ کرو توبہ، بندہ بندے کا دارو۔ ۔ ۔ دماغ نے گھرکا۔

فون بجا ٹرن ٹرن ٹرن۔ ۔ ۔ کال پہ ہیں تو بجے گا ہی۔ فلور سینئر کی کال ۔ ۔ ۔ فلاں کمرے والی مریض کے بچے کی سی ٹی جی ٹھیک نہیں۔ سیزیرین کا کہا تو مان نہیں رہی، بچہ اتنا نیچے نہیں کہ اوزار لگ سکیں۔

بتا دو اسے کہ اگر بچے کو کچھ ہوا انتظار کرنے کی صورت میں تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
بتایا سب۔ ۔ ۔
فائل میں لکھ بھی دینا، بعد میں یہ لوگ عدالت پہنچ جاتے ہیں۔
لکھ دیا۔ بس آپ کو انفارم کرنا تھا۔
او کے، شکریہ۔

پہلے گئے گوشت کی دکان پہ ۔ ۔ ۔ ہاں میاں پاکستانی گوشت آیا کیا؟ تازہ ہے؟ اچھا ہے؟
سانس لیے بغیر سوال داغنا بھی پرانی عادت ہے۔
جی باجی، ایک دم فس کلاس۔ ۔ ۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے جاوید نے دانت نکوسے۔
بڑے دن بعد آئے آپ، پہلے تو صاحب اور چھوٹے میاں آرہے تھے۔
ہاں بھئی، دونوں چلے گئے اپنے اپنے کام۔
ران بنا دیتا ہوں آپ کو، اچھی ہے۔ قیمہ بھی چاہیے کیا؟
چاہیے تو لیکن اگر دیر نہ لگے ۔ ۔ ۔ ۔
نہیں ابھی لیجیے ۔ ۔ ۔ ٹک ٹکا ٹک، ٹک ٹکا ٹک۔

جاوید کے ہاتھ میں بڑا سا چھرا ۔ ۔ ۔ ویسے جب ہم چاقو تھام کر ہاتھ چلاتے ہوں گے تو کچھ ایسا ہی منظر ہوتا ہو گا۔ ایک جیسا کام ہی تو ہے ہم دونوں کا۔ ۔ ۔ بس دل دھڑکتا ہے ان کا جو ہمارے چاقو تلے ہوتے ہیں اور یہاں میاں بکرے صاحب دل سے فارغ ہو کر یہاں تک پہنچے۔ افوہ کیا اول فول سوچتی ہو تم ۔ ۔ ۔ دماغ پھر کود پڑا ہمیں سمجھانے۔

تم نہیں جانتے میاں یہ تو غیب کے مضامین ہیں جو اترتے ہیں ہم پہ۔
لیجیے ہو گیا تیار آپ کا گوشت اور قیمہ۔
ہائیں، کیا بن گیا ہمارا قیمہ؟ نہیں کچھ دیر باقی ہے ابھی تو ۔ ۔ ۔

باہر نکلے تو سوچا چکن بھی لے لیا جائے، ورنہ کل کو نسیم بیگم پھر سر پہ کھڑی ہوں گی۔
چکن تو فلاں مارٹ سے اچھا ملتا ہے چلو بھئی گاڑی صاحبہ ادھر چلو۔

فون پھر بج اٹھا، ٹرن ٹرن ٹرن۔
ایک مریض ہے کسی اور ملک کی، پاس میں کوئی کاغذ نہیں، کوئی دستاویز نہیں۔ پورے دنوں سے ہے۔
بچہ چیک کر لو احتیاطاً، اور پی آر او سے پوچھو کہ قوانین کے مطابق کیا کر سکتے ہیں ہم؟
دوسری مارکیٹ پہنچے، چکن لیا، کٹوایا۔ شکر ہے دیسی بندے نہیں تھے ورنہ پھر حال چال بتانا پڑتا۔

اب گھوم ہی رہے ہیں تو بچی کے لیے کچھ کھانے کو ہی لے لیں ۔ ۔ ۔ پردیس سے چھٹی گزارنے آئی ہے، ماں کچھ خاطر خدمت ہی کر دے۔ کیا لیں؟
راوی ریسٹورینٹ سے سیخ کباب؟ سلائڈر سٹیشن سے برگر؟
بابا سالم سے شوارما؟

بابا سالم پہنچے تو لگا پورا شہر یہیں موجود ۔ ۔ ۔ بڑی مشکل سے گاڑی پارک کی۔ ہانپتے کانپتے آرڈر دینے اندر داخل ہونے لگے تو گورا چٹا سمارٹ سا لڑکا دوڑ کر آیا۔

کیا چاہیے؟ آپ بتا دیں اور گاڑی میں بیٹھیں۔
آہ ہا، شاید بڑھیا دیکھ کر سوچتا ہو گا کہ اس کو کہاں کھڑا رکھوں اتنی دیر؟
اچھا بھئی یہ وقت بھی آنا تھا۔

آرڈر دے کر گاڑی میں جا بیٹھے۔ پانچ منٹ، دس منٹ، پندرہ منٹ ۔ ۔ ۔ پیمانہ چھلکنے کو تھا سوچا پھر جائیں۔ اترنے کو تھے کہ پاس سے گزرا پھرتی سے۔
ارے سنو کیا بھول گئے۔
تین چکن شوارما۔ ۔ ۔ یاد ہے، رش بہت ہے۔
خیر تھوڑی دیر بعد لے ہی آیا۔ پوچھتا ہے ایرانی؟
لا لا، پاکستانی۔

فون پھر بج اٹھا۔ ٹرن ٹرن ٹرن۔
ڈاکٹر رینا تھیں ۔ ۔ ۔ ایک مریض کا بتانا ہے۔
بتاؤ بھئی بتاؤ ۔ ۔ ۔ ۔

مسئلہ حل کیا اور گاڑی چلی۔ گھر پہنچے۔ یہ اتنا سامان اٹھا کر سیڑھیاں کون چڑھے گا؟ بیٹی کو آواز دیں یا نسیم بیگم کو؟

چھوڑو بی بی خود ہی ہمت کرو۔ ۔ ۔ چار لفافے ایک ہاتھ میں چار دوسرے میں تھامے سیڑھیاں چڑھے، سانس غائب۔ کچن میں رکھا۔ بیٹی دوڑ کر آئی، کیا کرتی ہیں آ پ؟ خود کو ہلکان کرنا ضروری تھا کیا؟

بس میں نے سوچا کہ آج نبٹا ہی دوں سب کچھ ۔ ۔ ۔
بس آپ کی وہی عادتیں جائیں گی نہیں۔ نکلیں گی گھر سے تو شہر گھوم کر آئیں گی۔
ارے بٹیا رانی ہم تو تمہارے لیے اتنا خوار ہوئے۔
نسیم بیگم کی طرف جھانکا تو خراٹوں کی آواز آئی۔
اب کیا جگائیں ان کو؟ چھوڑو فریج میں رکھ دیتے ہیں، اٹھ کر دیکھ لیں گی خود ہی۔

فون کی گھنٹی، ٹرن ٹرن ٹرن۔
اے لو یہ تو چھوٹی نور نظر ہیں ۔ ۔ ۔ وڈیو کال شروع ہوئی اور کلیجہ منہ کو آیا۔ بچی ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے نظر آئی۔ کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ ارے کچھ تو بتاؤ؟ دل بند ہو جائے گا میرا۔

ہماری آواز سن کر بڑی دوڑ کر آئی، لپک کر ہاتھ سے فون لیا۔
کیا ہوا؟

گلا شدید خراب اور بخار، نگلنے میں شدید تکلیف۔
اوہ روؤ نہیں، ایمرجنسی میں جاؤ کوئی نہ کوئی دیکھ لے گا۔
باہر مائینس بیس درجہ حرارت، بہت سردی، جانے کی ہمت نہیں۔
کچھ نہیں ہوتا، چلو کوٹ پہنو اور اوبر کال کرو۔
بڑی صورت حال سنبھال رہی تھی اور ہم ہول رہے تھے۔

امی آپ کی کال، اٹینڈ کریں، میں اپنے فون سے کال کرتی ہوں اسے۔
جی، ہیلو ڈاکٹر، ایک ایمرجنسی کے بارے میں بتانا تھا۔
جی بتائیے، ہم مری ہوئی آواز میں بولے۔
امی اب آپ سو جائیے رات کا ڈیڑھ بج رہا ہے۔ صبح پھر ہسپتال ہو گا سات بجے۔
پریشانی تو تھی لیکن بستر پہ تو جانا تھا، ورنہ اگلے دن کام کیسے چلتا۔

فون کی گھنٹی، ٹرن ٹرن ٹرن۔
لیمپ آن کیا، وقت صبح کے چار بجے۔ فون دیکھا، او ٹی کالنگ۔
ہیلو ڈاکٹر، او ٹی نرس بول رہی ہوں۔ تمہاری ضرورت ہے او ٹی میں۔

لیجیے جناب، بستر سے کو دے باہر، کوٹ پہنا، عینک لگائی، گاڑی کی چابی پکڑی اور سیڑھیوں سے دھڑا دھڑ نیچے۔ پاؤں بولا، آہستہ بی بی، ابھی ابھی ٹوٹ کر جڑا ہوں۔

ہٹ باؤلے، تجھے اپنی پڑی ہے وہاں کوئی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔

تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے ہسپتال پہنچے۔ شکر ہے اس وقت کوئی ایسا موجود نہیں تھا جو پارکنگ میں ہماری جگہ کھڑا فون کے مزے لے رہا ہو۔
او ٹی کی طرف دوڑے۔ مریض میز پہ۔ ڈاکٹر سوئی دھاگہ ہاتھ میں پکڑے جدوجہد کرتے ہوئے، انیستھٹسٹ پریشان حال۔

آنول اکھڑ گئی پوری، جلدی سے سیزیرین کر کے بچہ نکالا۔ لیکن خون رک نہیں رہا تھا۔ دوسرے کمرے میں بھی سیزیرین چل رہا ہے۔ اُس بچے کی سی ٹی جی بہت خراب تھی۔ آج رات تو ساری ایسے ہی گزر گئی ۔ ۔ ۔ رینا تھکے ہوئے لہجے میں ہمیں بتا رہی تھیں۔
ہم نے اپنی کاک ٹیل کا نسخہ مریض کو چڑھایا۔ کچھ ہی دیر میں حالات قابو میں آنے شروع ہو گئے۔

چلو دوسرے او ٹی میں شیریں کو بھی دیکھ لیتے ہیں وہ کس حال میں ہیں؟
ہو گیا ڈاکٹر، مریض اور بچہ دونوں ٹھیک ہیں۔

صبح کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے، اجالا پھیل رہا تھا۔ ایک اور دن، ایک اور صبح۔ گھر پہنچے۔ صبح کے لیے تیاری کرنی تھی۔ بچی کی پریشانی بھی جی کو لگی تھی۔

نسیم بیگم جاگ چکی تھیں۔ چائے بناؤں؟
ہاں، بناؤ۔ میں شاور لے لوں اتنی دیر میں۔ تھکے ہوئے جسم کو گرم پانی ہی سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
ساڑھے سات مارننگ میٹنگ میں پہنچنا ہے۔ رات والی ٹیم تو گھر چلی جائے گی لیکن ہم نہیں۔
چل چلیے دنیا دے اس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author