ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریجنل ہسپتال کی گائنی ہیڈ کا فون تھا۔ کئی برس پہلے ہماری شاگرد بھی رہ چکی ہیں سو آغاز ادھر ادھر کی باتوں سے ہوا، پھر کام کی بات۔
ہمارے پاس ایک مریضہ آئی ہے جس کے پچھلے تین سیزیرین ہیں اور اب الٹرا ساؤنڈ بتا رہا ہے کہ آنول بچے دانی سے نہ صرف چپکی بلکہ مقام پہ دھنس چکی ہے جہاں پچھلے آپریشنز میں بچے دانی کو کاٹا گیا تھا۔ مشکل کیس ہے، آپ کو بھیجنا چاہتی ہوں۔
بھیجو بھئی بھیجو۔ کیا یاد کرو گی کس شہنشاہ سے پالا پڑا تھا، ہم نے ہنستے ہوئے کہا۔
مریض پہنچی، MRI کے مطابق تشخیص وہی تھی جو الٹرا ساؤنڈ پہ تھی۔ ( placenta Accreta)
مریض بہت فکرمند نظر آتی تھی۔ آٹھ مہینے کا حمل تھا اور ایک بار شدید بلیڈنگ ہو چکی تھی۔ جب اسے علم ہوا کہ ڈلیوری تک ہسپتال میں ہی رہنا ہو گا تو چہرہ اتر گیا۔
دیکھو، تمہارا کیس ایسا ہے کہ تمہیں مسلسل زیر نگرانی رکھنا پڑے گا۔ آنول بچے دانی کے منہ یعنی سروکس کو ڈھانپتے ہوئے پچھلے آپریشن کے cut میں دھنس چکی ہے۔
فکر والی باتیں دو ہیں۔ پہلی یہ کہ سروکس ڈھانپنے والی جگہ سے آنول پھٹ کر خون بہانا شروع کر سکتی ہے جیسے ایک بار پہلے ہو چکا۔ ہو سکتا ہے کہ اگلی بار خون اتنا زیادہ بہے کہ تم وقت پہ ہسپتال ہی نہ پہنچ سکو۔ اس لیے ضروری ہے کہ تم وارڈ میں رہو، اگر بلیڈنگ شروع ہو تو دس منٹ کے اندر تمہارا آپریشن کیا جا سکے۔
اور دوسری بات؟
دوسری بات پہلی سے زیادہ مشکل بھی ہے اور خطرناک بھی۔
وہ کیا؟ اس نے گھبرا کر کہا۔
آنول بچے دانی کی دیوار کے اندر دھنس چکی ہے۔ بچے کے پیدا ہونے کے بعد اس کا جدا ہونا تقریباً ناممکن۔ اگر کھینچ تان کر نکال بھی دیں تو بلیڈنگ نہیں رک سکتی کہ بچے دانی کی دیوار کا وہ حصہ شدید زخمی ہو کر سکڑ نہیں سکتا۔
حل کیا ہے اس کا؟
سادہ حل تو یہ ہے کہ بچے کے ساتھ ساتھ بچے دانی بھی نکال دی جائے۔
بچے دانی بھی نکل جائے گی؟ وہ گھبرا کر بولی
بالکل، اس لیے کہ تمہاری جان زیادہ قیمتی ہے، تمہارے اپنے لیے بھی اور تمہارے بچوں کے لیے بھی۔ بچے دانی کا نکلنا ایسا ہی ہے جیسا اپنڈکس نکال دیا جائے یا گردہ۔
کوئی اور حل ہے کیا؟
ہاں ہے لیکن تکنیکی طور پہ مشکل اور کامیاب کبھی کبھار۔ بچے دانی کو خون پہنچانے والی شریانوں کو باندھ کر سیزیرین کرنے کے بعد بچے دانی کا آنول والا حصہ کاٹ دیا جائے لیکن اس میں بھی کامیابی کا انحصار اس بات پہ ہو گا کہ بلیڈنگ رکی کہ نہیں؟ اگر نہ رکے تو واحد حل بچے دانی کو نکالنا ہی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب، کیا یہ سب کچھ میرے اپنے ہسپتال میں ممکن نہیں تھا؟
دیکھو اس آپریشن کے لیے ایسی ٹیم چاہیے جسے اس میں بہت مہارت ہو۔ چھوٹے ہسپتالوں میں بہت سے کام ممکن نہیں ہوتے۔ ہم نے تفصیل سے سمجھایا۔
ڈاکٹر صاحب، آنول اس طرح چپک کیوں جاتی ہے؟ مریض کا اگلا سوال۔
ایک بڑی وجہ تو پچھلے آپریشنز کی وجہ سے پیدا ہونے والا شگاف ہے جو سلائی سے جوڑ تو دیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے اصل جیسا نہیں ہوتا۔ اس جگہ سے نہ صرف آنول چپکتی ہے بلکہ اس میں اندر تک دھنس بھی جاتی ہے۔
وارڈ سے باہر نکلے تو ٹرینی ڈاکٹرز کے سوال تیار تھے۔
ڈاکٹر، اگر پچھلے آپریشنز کا شگاف ہی وجہ ہے تو ایسا ان سب مریضوں میں کیوں نہیں ہوتا جن کے چار پانچ آپریشنز ہوئے ہوتے ہیں۔
اس کا جواب تمہیں ہم نہیں، کمپیوٹر دے گا، ہم نے ہنس کر کہا۔
وہ کچھ حیران ہوئے لیکن چپ رہے، پھر ہنس دیے۔ واقف حال تھے نا۔
کمپیوٹر پہ خاتون کی پچھلی ہسٹری لکھی تھی۔
پہلا حمل۔ اسقاط کے بعد صفائی۔ سرجن۔ جونئیر ترین ڈاکٹر۔
دوسرا حمل۔ سیزیرین۔ سرجن۔ جونئیر ڈاکٹر۔
تیسرا حمل۔ سیزیرین۔ سرجن۔ جونئیر تو نہیں لیکن انتہائی بری سلائی کرنے والی ڈاکٹر۔
چوتھا حمل۔ سیزیرین۔ سرجن۔ جونئیر نہیں لیکن بہت رف ہاتھ۔
کچھ سمجھ آیا؟ ہم نے ہنس کر کہا۔
ٹرینی ڈاکٹرز کچھ ناسمجھی سے ہماری طرف دیکھتے رہے۔
دیکھو اس کی مثال درزی ہیں۔ بازار میں اناڑی درزی بھی بیٹھا ہے اور ایسا بھی کہ سلائی دیکھ کر بندہ عش عش کر اٹھے گو کہ کپڑا تو دونوں ہی سی لیتے ہیں۔
یہی حساب سرجری کا۔ کر سب لیتے ہیں لیکن کوئی ایسے کرتا ہے کہ آپریشن کے بعد بھی محسوس نہ ہو کہ کسی نے کاٹ کر سیا ہے اور کوئی ایسے کہ دیکھ کر پناہ مانگنے کو جی چاہے۔
جس آنول کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ placenta Accreta کہلاتی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی عزیزی سیدہ نے ہماری کسی تحریر کے نیچے لکھا کہ نشتر ہسپتال میں accreta کے ساتھ آنے والے مریضوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ سیدہ نشتر کے زمانے میں ہماری لائق فائق شاگرد تھیں سو ان کی صلاحیتوں پہ تو کوئی شبہ نہیں لیکن کیا کریں کہ جونئیر ڈاکٹرز جو سیزیرین کرتے ہیں ان کا ہاتھ اناڑی۔ سو سلائی بھی ویسی ہی۔ ساتھ میں ناقص دھاگے۔ کون دیکھتا ہے کوالٹی فارما کمپنیوں کی؟ بڑے بڑوں کا علاج تو لندن امریکہ سے ہوتا ہے سو غریب غربا کو جو بھی دے دیا جائے۔
چھوٹے شہروں میں پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کا بھی یہی عالم۔ تھوڑا سا کام سیکھا اور اپنی ہٹی ڈال لی۔ وہ بھی مجبور کہ نوکریاں تو ہیں نہیں پھر کمائی کا سلسلہ کیا ہو؟ لیکن ہاتھ میں مہارت تو آئی نہیں۔ سوال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کیا پیٹ کی پکار اتنی شدید ہے کہ لوگوں کی جان سے کھیلا جائے؟
کیا کیا جائے پھر؟ سوال آیا۔
محبت۔ محبت کرو اپنے شعبے سے، اپنے فن سے، اپنے ہاتھ سے، اور اپنے مریض سے۔ پیسے تو ملیں گے ہی لیکن جو مزا خود کو آئے گا اپنا شاہکار تعمیر ہوا دیکھ کے، وہ بیان سے باہر۔ بھئی مزا بھی تو لو اپنے کام سے ورنہ کاٹ پیٹ تو قصائی بھی کر لیتے ہیں۔
ایک بات مریضوں سے بھی۔ خدارا یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ زچگی میں کیا مشکل؟ صدیوں سے ہوتی چلی آئی ہے۔
سن لیجیے، زچگی کا ہر مرحلہ اذیت سے بھرپور اور پیچیدگیوں سے اٹا ہوا۔ عورت بتا نہیں پاتی کہ کیسے اس کے جسم کا ہر ریشہ زچگی کا خراج دیتا ہے، اگر موت گلے نہ بھی لگائے تو۔
خراج کے کچھ مرحلوں کی باری برسوں بعد آتی ہے جب عورت ادھیڑ عمری میں لاٹھی ٹیکتی ہوئی ہسپتال آئے اور بچے دانی جسم سے باہر لٹک رہی ہوتی ہے۔
زندگی کے ساتھی کے جسم سے اتنا ہی کام لیں، جتنا ضروری ہو۔ بچوں کی قطار لگانا قطعی ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر