ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق ریاست بہاولپور آج ڈویژن ہے، رقبہ لگ بھگ ملک ڈنمارک کے برابر ہے ۔15918 مربع میل رقبہ ہے ۔ ڈویژن میں تین اضلاع بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یارخان شامل ہیں ۔ تین اضلاع کی مجموعی آبادی 46 لاکھ سے زائدہے۔ اس ڈویژن میں شمالی سرحد کے ساتھ دریائے ستلج، پھر پنجنداور آخر میں دریائے سندھ بہتے ہیں ۔جنوب مشرقی پٹی چولستان کا صحرا ہے، جس کی دوسری جانب بھارت کے صوبے راجھستان کی ریاستیں بیکانیر اور جیسلمیر واقع ہیں ۔ضلع بہاولپور کی شمالی سرحد کے ساتھ ساتھ دریائے ستلج بہتا ہے جس کے پار ضلع ملتان اور ضلع وہاڑی ہیں ، مشرق میں ضلع بہاولنگر ہے ، جنوب میں بھارت کا علاقہ ہے اور مغرب میں رحیم یارخان ۔ ضلع بہاولپور چار تحصیلوں احمد پور شرقیہ ،یزمان ، بہاولپور اور حاصل پور پر مشتمل ہے۔ شہر بہاولپور دریائے ستلج کے کنارے ریلوے لائن پر لاہور سے 271میل اور ملتان سے 60میل کے فاصلے پر ہے ۔ نواب بہاول خان عباسی اول نے اس کی بنیاد رکھی تو شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کرائی ۔ فصیل باقی نہیں رہی پر شہر میں داخل ہونے کے جو چھے دروازے بنائے گئے ہیں ان کے نام اور آثار اب بھی باقی ہیں ، ان میں شکار پوری گیٹ ،بوہڑ گیٹ ، ملتانی گیٹ، بیکانیری گیٹ ( اب یہ فرید گیٹ کے نام سے مشہورہے ) ، احمد پوری گیٹ اور ڈیراوری گیٹ شامل ہیں۔ نواب بہاولپور نے 1200 ایکڑ رقبے پر مشتمل بر صغیر جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول ، دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری ، جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ ، بہاولپور میں بہت بڑا سٹیڈیم ، سب سے بڑا چڑیا گھر اور 1906ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا ۔ بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے ۔ بہاولپور کا شاہی بازار سب سے اہم اور خوبصورت ہے، مچھلی بازار اور گری گنج قابل ذکر ہیں ،اندرون شہر چوک کے نزدیک جامع مسجد ہے جو بہاولپور کی سب سے قدیم اور عظیم مسجد ہے ۔بہاولپور کی جامعہ اسلامیہ ، صادق پبلک سکول ، صادق ایجرٹن کالج ،قائد اعظم میڈیکل کالج ، وکٹوریہ ہسپتال ، انجینئر نگ کالج ، ہائی ، مڈل پرائمری اور فنی تعلیم کے سکول موجود ہیں ۔ پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز اور ادارے ہیں ، ریڈیو اسٹیشن بھی موجود ہے، کئی مقامی اور قومی اخباروں کے دفاتر بھی موجود ہیں ،فوجی چھاونی بھی بنائی گئی ۔ صنعتی مراکز بھی ہیں ۔ گھی ، ٹیکسٹائل ، ہوزری اور پلاسٹک کی مصنوعات کے کئی کارخانے ہیں ۔ شوگر ملز بھی اِدھر ہی ہے ۔ بین الاقوامی معیار کا اسپورٹس سٹیڈیم ہے، عجائب گھر اور چڑیا گھر بھی ہیں ۔بہاولپور کو ڈویژن کا صدر مقام ہونے کے باعث تمام محکموں کے ڈویژنل دفاتر بھی ہیں ، لاہور ہائی کورٹ کا بینچ بھی موجود ہے ، سیشن کورٹ اور زیریں عدالتیں بھی موجود ہیں ، نور محل ، گلزار محل ، دوست خانہ اور قدیم طرز رہائشی والی دو آبادیاں ماڈل ٹاؤن اور سٹیلائٹ ٹاؤن ہیں، سرائیکی قوم کی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ وسیب کے لوگوں نے طلے والا کھسہ یعنی سونے کی تاروں والے جوتے پہنے ۔ بہاولپور کا قلعہ ڈیراور عظیم الشان قلعہ ہے جو کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دریائے ہاکڑہ کے کنارے ایک قلعہ ہے جس کو بھاٹیہ قوم کے راجہ دیوا سدھ نے جودیوراول کے نام سے مشہورہے تعمیر کرایا ۔ پہلے قلعے کا نام دیوراول ہی تھا لیکن پھر بعد میں ڈیراور بن گیا ۔د ریائے ہاکڑہ کے خشک ہو جانے کے بعد اس قلعے تک حملہ آوروں کی رسائی مشکل ہو گئی تھی کیونکہ اس کے اطراف میں پانی کا کہیں بھی نشان نہیں ملتا۔ اس بناء پر امرائے بہاولپور نے اپنے ابتدائی دور میں اس قلعے کو شاہی خزانے کیلئے منتخب کیا ۔ 1737ء میں نواب آف بہاولپور صادق محمد خان عباسی اول نے اس قلعے کو راول رائے سنگھ سے چھین لیا۔ بہاولپور اور احمد پور شرقیہ آباد ہونے سے پہلے یہ قلعہ والیان ریاست کے محل کا کام دیتا تھا ، اس میں بڑے بڑے تہہ خانے ہیں ۔ سنگ مر مر کے ایک چبوتے پر جو شیشے کی چھت سے ڈھکا ہوا ہے شاہی خاندان کی قبریں ہیں۔ قلعے کے مقابل ایک بہت خوبصورت مسجد بھی ہے جس کی بناوٹ دہلی جامع مسجد سے ملتی جلتی ہے،مسجد کے سامنے تالاب ہے جس میں مسجد کا سایہ آتا ہے۔ ریاست بہاولپور کے قیام سے پہلے یہ علاقے صوبہ ملتان کا حصہ تھے۔ 1728ء میں صادق خان اول جو کہ داؤد پوتہ تھے اور سندھ سے ہجرت کر کے صوبہ ملتان کے علاقے میں آئے تو ملتان کے گورنر حیات اللہ خان نے موجودہ لیاقت پور کے علاقے میں جاگیر عطا کی تھی ۔ انہوںنے اس جاگیر پر نیا شہر آباد کیا جس کا نام اللہ آباد رکھا۔ صادق محمد اول سندھ سے اپنی برادری کی جنگ اور دنگا فساد سے بچ کر اس علاقے میں آئے تھے ، اس جاگیر کو وسعت دے کر آہستہ آہستہ اپنی ریاست قائم کی ، آغاز میں اللہ آباد ریاست کا مرکز تھا ۔اس تاریخی حقیقت سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ملتان بہاولپور الگ نہیں بلکہ ایک ہی ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ انتظامی تقسیم ہوتی رہتی ہے، البتہ قوموں کے وطن ، تہذیب ، ثقافت اور زبان ایک ہی رہتی ہے۔ ریاست بہاولپور کے قیام کی 275 سالہ تقریبات کو تزک و احتشام کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر انور نے بتایا کہ یہ تقریبات فروری میں ہو رہی ہیں ،اس سلسلے میں مختلف انتظامی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، کہا گیا ہے کہ بہاولپور ڈویژن کا گزیٹر، تاریخی بروشراور دستاویزاتی فلم اور دیگر دستاویزات مرتب کی جائیں گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نواب سر صادق خان عباسی کی فلاحی ریاست کے تناظر میں خدمات کو اجاگر کیا جائے گا۔ سابق ریاست بہاولپور کے قیام کی 275 سالہ تقریبات منانے کا فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ کل کی خوشحال ریاست بہاولپور آج ایک پسماندہ ڈویژن تک محدود ہے۔ نہ صرف یہ کہ سابق ریاست بہاولپور بلکہ وسیب کے لوگ اس فیصلے کو استحسان کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بھی ضروری ہے کہ فلاحی ریاست کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے لئے ریاست بہاولپور کی خدمات کو اجاگر کیا جائے اور اس بات کو بھی اجاگر کیا جائے کہ ریاست بہاولپور پاکستان میں ضم ہونے کے بعد آج پسماندہ ڈویژن کیوں ہے؟ ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر سچائی کے ساتھ کسی بات کو آگے بڑھایا جائے تو اس کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر