نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

معاشی بحران کے چند سنجیدہ حقائق|| راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایران پاکستان گیس پائپ لائن معاہدے پر مارچ 2013 میں دستخط ہوۓ تھے, جس کیلئے صدرآصف زرداری (صحافیوں کے ہمراہ) چاہ بہار,ایران گئے تھے۔ معاہدے کے مطابق پاکستان نے 31دسمبر2014 تک ایران سے brent کے 5% پر 780 ارب مکعب فٹ سالانہ گیس کی خریداری شروع کرنا تھی (جو بعد میں 1900 ارب مکعب فٹ سالانہ تک پہنچتی), ورنہ پاکستان 3 لاکھ ڈالریومیہ کے حساب سے پنلٹی دے گا۔ معاہدے کے مطابق پاکستان نے 50% ادائیگی ڈالر میں کرنا تھی جبکہ 50% فیصد ادائیگی بارٹر ٹریڈ (گیس کے بدلے اشیا) کی صورت میں یا پھر مقامی کرنسی میں کرنا تھی۔
ایرانی حکومت نے مقررہ مدت میں اپنے ایریا میں بارڈر تک پائپ لائن بچھا دی جبکہ حکومت پاکستان کو پائپ لائن بچھانے کیلئے 50 کروڑ ڈالر قرضے کی پیشکش بھی کی گئی۔
اس کے برعکس جون 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایران کی اس پیشکس سے فائدہ اٹھانے کی بجاۓ امریکہ کہنے پر نہ تو اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھائی اور نہ ہی گیس کی خریداری شروع کی۔
بلکہ ن لیگ کی حکومت نے قطر کے ساتھ مہنگی ایل این جی کی خریداری کا معاہدہ کرلیا۔ معاہدے کے مطابق قطر سے پاکستان Brent مارکیٹ کے خام تیل کے نرخ کا 12% پر سالانہ 8 کنٹینر خرید رہا ہے اور ڈالروں میں سوفیصد ادائیگی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اوپن مارکیٹ سے ایل این جی کے 4 سے 7 ایل این جی کنٹینرز FOB کے تحت خریدتی ہے جبکہ عام طور پر اس کی قیمت Brent کا 15% سے لیکر 35% فیصد تک ہوتی ہے۔ جبکہ قطر اور اوپن مارکیٹ سے ایل این جی کی مجموعی خریداری 427 ارب مکعب فٹ سالانہ ہے۔
اسطرح پاکستان نے ایران سے Brent کے 5% پر سالانہ 1900 ارب مکعب فٹ سستی گیس کو رد کرکے Brent کے 12% سے لیکر 35% تک مہنگی ایل این جی کی خریداری کو ترجیح دی۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں گیس کی سالانہ طلب ورسد میں 2000 ارب مکعب فٹ کا فرق پایاجاتا ہے, جبکہ سالانہ 427 ارب مکعب فٹ مہنگی ایل این جی کی خریداری کے باوجود حکومت کو گیس کی لوڈشیڈنگ کرنا پڑتی ہے۔ لہٰذاکبھی سی این جی سٹیشنوں کوگیس کی فراہمی روک دی جاتی ہے توکبھی انڈسٹری کو, یا پھر گھریلو صارفین کو گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ آجکل شہریوں کو قدرتی گیس کی شدید کمی سامنا ہے۔
مارچ 2013 میں جب صدرمملکت آصف زرداری نے ایران کے ساتھ 1900 ارب مکعب فٹ سالانہ گیس خریداری کا معاہدہ کیا تو اس وقت پاکستان میں گیس کمی 700 سے 800 ارب مکعب فٹ سالانہ تھی جو اب بڑھ کر 2000 ارب مکعب فٹ سالانہ ہوچکی ہے۔ اگر یکم جنوری 2014 سے ایران سے (50 فیصد ڈالر ادائیگی پر) 780 ارب مکعب فٹ سالانہ گیس کی خریداری شروع ہوجاتی تو وہ آج 1900 ارب مکعب فٹ سالانہ تک پہنچ چکی ہوتی, نہ صرف یہ کہ پاکستان میں گیس کی قلت کا بحران پیدا نہ ہوتا, انڈسٹری اور سی این جی سٹیشن چلتے رہتے بلکہ اس دوران ایل این جی کی خریداری کیلئے خرچ کیاجانے والا اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی پاکستان بچالیتا۔
مگر 2014 میں جب پاکستان کا ایران کے ساتھ گیس خریداری کا معاہدہ ہوا تو اچانک پرنٹ والیکٹرانک میڈیاکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ایک انتہائی گھٹیا پروپیگنڈا شروع ہوگیا اور نام نہاد میڈیائی دانشوروں نے اس کو "شیعہ گیس” کانام دیکر مسترد کردیا, دراصل وہ سب ایل این جی مافیا کے ایجنٹ تھے اور معمولی کمیشن لیکر ملکی معیشت کو داؤ پر لگانے کیلئے تُلے ہوۓ تھے۔
دوسری جانب ایران کی عظمت دیکھیں کہ انہوں نے عالمی عدالت انصاف میں تاحال پاکستان کیخلاف پنلٹی کلیم نہیں کی, حالانکہ معاہدے کی رُو سے ایران 3 لاکھ ڈالر یومیہ کے حساب سے عالمی عدالت انصاف میں پنلٹی کلیم کرسکتاہے۔
ذرائع کے مطابق ایران سے 1900 ارب مکعب فٹ سالانہ گیس کی خریداری شروع ہونے کے ساتھ ہی اپاک ایران فری ٹریڈ ایگریمنٹ بھی ہونا تھا, جس پر دوطرفہ مذاکرات 2012 میں شروع ہوگئے تھے, جبکہ ایف ٹی اے میں میں ایران سے بذریعہ پائپ لائن تیل کی خریداری کی تجویزبھی شامل تھی۔ ماہرین کے مطابق اب تک پاکستان نے چین سمیت جن ممالک سے فری ٹریڈ اور ترجیحی تجارت کے معاہدے کررکھے ہیں وہ خسارے کے معاہدے ہیں, اس کے برعکس پاک ایران فری ٹریڈ ایگریمنٹ درحقیقت پہلا FTA ہوتا جو پاکستان کیلئے خسارے کا نہیں بلکہ منافع کا معاہدہ ثابت ہوتا, کیونکہ اس میں 80% ادائیگیاں مقامی کرنسی کے ذریعے ہونا تھیں۔
مگر اتنی بڑی پاک ایران پیشرفت سعودی عرب سمیت دیگر بڑے ممالک کے معاشی مفادات کیلئے نقصان دہ ہوسکتی۔ اس لیے عالمی طاقتوں نے 2013 میں ٹھیک اسی طرح پاک ایران معاشی پیشرفت کو سبوتاژ کیا, جسطرح 2018 میں عالمی طاقتوں نے عمران خان کو پرسراقتدار لاکے پاکستان کیلئے ترقی کا گیٹ وے بننے والے سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کیاگیا۔
عمران خان نے تو, نہ صرف سی پیک کو سبوتاژ کیا بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک ایسا بدترین معاہدہ بھی کیا جو درحقیقت imf vs imf معاہدہ تھا, ایسا معاہدہ کسی مغل بادشاہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی نہیں کیا ہوگا۔
اس معاہدے کے بعد یہ بات نشچِنت ہوچکی ہے کہ موجودہ معاشی بحران میں یا تو آئی ایم ایف کا معاہدہ رہے گا یا پھر پاکستان!
کیونکہ دونوں کا ایک ساتھ چلنا مشکل ہے۔
قطع نظر اس کے, اپریل 2022 میں جب رجیم چینج ہوئی تو 16 ستمبر 2022 کو وزیراعظم شہبازشریف نے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ تہران (ایران) کا دورہ کیا جہاں ان کی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور سپریم لیڈرعلی خامنہ ای سے ملاقاتیں ہوئیں, جن میں دوطرفہ معاشی تعاون کے فروغ کیلئے پاک ایران جوائنٹ اکنامک کمیشن کو دوبارہ فعال کرنے کااعلامیہ جاری کیا گیا۔
مستند ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سپریم لیڈرعلی خامنہ ای سے ملاقاتوں میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی بحالی اور مجوزہ آئل پائپ لائن منصوبے کا معاملہ بھی زیرغور آیا تھا, نہ صرف یہ بلکہ ایرانی اعلی قیادت کی طرف سے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ایک بھاری رقم رکھوانے کی پیشکش بھی کی گئی تھی, جسطرح کہ 2013 میں ایران نے 3 ارب ڈالر انتہائی کم شرح منافع پر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھواۓ تھے, تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا جاسکے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد میں شامل وزارت خزانہ کے ایک سینئربیوروکریٹ نے ایران کی طرف سے کیش ڈیپازٹ کی پیشکش پر اعتراض اٹھاتے ہوۓ امریکی پابندیوں کا حوالہ دیا۔ جس پر دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت نے متبادل طریقہ تلاش کرنے پر اتفاق کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں پاکستانی وفد کی وطن واپسی کے بعد بھی پاک ایران روابط قائم رہے اور کیش ڈیپازٹ کے حوالے سے پاکستان اور ایران کے معاشی ماہرین نے مل بیٹھ کے ایک متبادل طریقہ کار وضع کیا, جس کے مطابق بیرون ملک مقیم ایرانی وپاکستانی بزنس مینوں کے ذریعے سنگاپور, ملائشیا اور چند دیگر ممالک میں ایکویٹی کمپنیاں قائم کی جانی تھیں جبکہ ایرانی حکومت خفیہ طریقے سے (تھرڈ پارٹی کے ذریعے) ان کمپنیوں کو اربوں ڈالر کی ایکویٹی فراہم کرتی, جبکہ اس بعد پاکستان تین مراحل میں بین الاقوامی فنانشل مارکیٹ میں 5, 5 ارب ڈالر مالیت کے (دس سالہ مدت کے حامل) پاک یورو بانڈ جاری کرتا اور یہ کمپنیاں 3 فیصد مارک اپ پر آفر دیتی اور اسطرح 2022 میں تین مرحلوں میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 15 ارب ڈالر کی بڑی رقم آ جاتی, جبکہ 2023 میں بھی مجوزہ طریقہ کار کے تحت مزید 15 ارب ڈالر پاکستان آنے تھے۔
تاہم (ذرائع کے مطابق) سٹیبلشمنٹ نے مذکورہ بالا معاشی پیشرفت سے اتفاق نہیں کیا, بلکہ اس وقت کی سٹیبلشمنٹ کے سربراہ 2 اکتوبر 2022 کے امریکہ کے ایک ہفتے کے دورے پر چلے گئے, جہاں ان کی سٹیٹ آفس سے لیکر پینٹاگون تک میں اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں ہوئیں۔
نتیجتاً سعودی عرب نے اکتوبر 2022 میں وزیراعظم شہبازشریف کو دورہ ریاض کی دعوت دیدی جبکہ 24 اکتوبر کو پاکستانی وفد سے ملاقات میں سعودی اعلیٰ قیادت نے 7.4 ارب ڈالر کے مالیاتی پیکیج کا عندیہ دیدیا جس میں موخر ادائیگی پر تیل کی خریداری کی تجویز بھی شامل تھی۔ لہٰذا ایک مرتبہ پھر (بوجوہ) پاک ایران مالیاتی تعاون پر پیشرفت وہیں رک گئی, مگر بعدازاں سعودی حکومت نے 7.4 ارب ڈالر کے مالیاتی پیکیج کو آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی سے مشروط کردیا حالانکہ سعودی حکام بخوبی جانتے تھے کہ پاکستانی حکومت نے نومبر,دسمبر2022 میں 6 سے 7 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
لہٰذا سعودی عرب کا مجوزہ مالیاتی پیکیج ایک ایسا سراب بن گیا ہے جو ریت پر پانی کے عکس کی طرح مسلسل آگے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے, جبکہ دوسری جانب due بیرونی ادائیگیوں کی بدولت ملکی معیشت مسلسل ڈیفالٹ کی جانب سرک رہی ہے۔
مگر اس بات کی پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بحال ہونے کے بعد بھی سعودی عرب سمیت دیگر دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے وعدے اور اعلانات پورے ہونگے یانہیں!!
دوسری جانب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یکم جنوری 2023 کو شروع ہونے والے جائزہ مذاکرات خدانخواستہ اگر ناکام ہوۓ تو ڈیفالٹ نِشچت ہے, جبکہ اگر جائزہ مذاکرات کامیاب ہوۓ تو جولائی 2023 تک ڈیفالٹ کا خطرہ تو ٹل جاۓ گا, مگر اندرون ملک مہنگائی کا اتنا بڑا ریلا آۓ گا کہ لوگ 2022 کی مہنگائی بھول جائیں گے۔ پیٹرول وڈیزل کی قیمتوں 35 روپے فی لیٹر حالیہ اضافہ کچھ بھی نہیں بلکہ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ برسبیل تذکرہ جو لوگ روپے کی ویلیو پر کیپ (cap) لگانے پر وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے تھے, کیپ ہٹتے ہی پیٹرول وڈیزل کی قیمتوں 35 روپے فی لیٹر اضافے کے بعد انہیں اچھی طرح سمجھ آگئی ہوگی کہ روپے کی ناقدری پہ قدغن کیوں لگائی گئی تھی۔
تاہم یہ سوال زیادہ اہم ہے, کیا پاکستان کے 80 فیصد لوگ اشیاۓ خوردونوش کی قیمتوں میں (دسمبر 2022 کے مقابلے میں) دوگنا اضافہ آسانی سے برداشت کرپائیں گے؟
دوسرا اہم ترین سوال یہ کہ کیا ڈیفالٹ کا خطرہ ہمیشہ کیلئے ٹل جاۓ گا یا پھر جولائی میں دوبارہ ایسی صورتحال بلکہ اس سے بھی بدترین صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا؟؟

About The Author