نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈسٹرکٹ بار کے صدر کا نوٹس اور سماجی کارکن کے ساتھ پنجاب پولیس کی زیادتی؟||جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی رہنما ہیں، وہ مختلف موضوعات پر مختلف اشاعتی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈسٹرکٹ بار بہاول نگر کے صدر علی حسین سید ایڈوؤکیٹ نے17جنوری کو ایک نوٹس نمبری DBA no. 05/2023جاری کیا ہے. نوٹس سے جوڈیشری کے اندر ملازمین کی ایک انتہائی تلخ حقیقت سامنے آئی ہے.اداروں کے اندر اس طرح کے حالات اور رویے ہی دراصل بہت سارے مسائل و مشکلات اور لاقانونیت کی فیکٹریاں ہیں. جوڈیشری میں اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ اور پھر اسے برداشت کرنا سراسر زیادتی ہے.آئین و قانون اور ملک و عوام کے ساتھ ایسے حالات میں اداروں کی اصلاح اور بہتری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے. قانون کی بالادستی، ضابطوں اور اصولوں کی پاسداری، حق اور انصاف کی فراہمی کے نظام پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے. سیشن جج صاحب نے اس نوٹس کے بعد کوئی ایکشن لیا یا نہیں?. اس بارے ابھی تک کوئی اطلاعات نہیں.ہم سمجھتے ہیں ہیں کہ پٹورایوں کی طرح جوڈیشری کے ملازمین و سٹاف کا اپنے اپنےپرائیویٹ منشی رکھنا قانون کے منہ پر سرے عام زناٹے دار تھپڑ ہیں.اداروں کے اندر دکانداری کے مترادف ایک عمل ہے. آپ بھی وہ نوٹس ملاحظہ فرمائیں.
ُ ُ نوٹس بنام جملہ اہلکاران سیشن جج اینڈ سول کورٹ بہاول نگر. آپ جملہ اہلکاران سیش اینڈ سول کورٹس کو بذریعہ نوٹس ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ نے کام کرنے کے لیے پرائیویٹ آدمی رکھے ہوئے ہیں. اندر 7یوم پرائیویٹ آدمیوں کو فارغ کرکے اپنی اپنی سیٹ پر خود کام کریں. بصورت دیگر آپ کے خلاف ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن بہاول نگر سخت اقدامات اٹھانے پرمجبور ہوگی. اور اس بابت کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، بار کے صدر نے نشاندہی کرکے بہت اچھا کیا ہے. پرائیویٹ منشی رکھنے والے سٹاف کے خلاف ایکشن لینا سیشن جج صاحب کی اولین ذمہ داری بنتی ہے.انصاف کا تقاضا تو یہ ہے جوڈیشری کو اپنی دکان سمجھنے والے ایسے تمام ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دینا چاہئیے.لیکن مجھے یقین کہ ملازمین و سٹاف کی شارٹیج کی وجہ سے نظریہ ضرورت اور نرم گوشہ پالیسی کے تحت غیر اعلانیہ خاموش اجازت ملی ہوئی ہوگی.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہسپتالوں سمیت اکثر اداروں میں ملازمین کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے.ایک طرف تو ہمارے حکمرانوں کا یہ حال ہے تو دوسری طرف بہت سارے محکمہ جات میں اضافی بھرتیاں کرکے مخصوص لوگوں کو نوازا جاتا ہے.
محترم قارئین کرم،، ہمارے ضلع رحیم یارخان کے ساجد آرائیں ایک اچھے سماجی کارکن ہیں. میری ان سے کوئی ملاقات تو نہیں لیکن اس سال تباہ کن بارشوں اور روہی سیلاب کے دوران کی سیلاب زدگان کے لیے خدمات کو سوشل میڈیا پر واچ کرتا رہا. بعد ازاں مختلف نوعیت کی مستقل سماجی خدمات کو بھی دیکھا. بڑے متحرک اور ہمدرد انسان ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوا کرتے.بے سہارا اور غریب لوگوں کے لیے کسی سے مانگنا اور پھر باعزت طریقے سے انہیں گھر جا کر امداد فرام کرنا.سماجی حوالے سے ساجد آرائیں کی سوچ اور مخصوص ایجنڈے پر بھی پھر کسی وقت بات ہوگی.سرے دست ہم ان کے ساتھ ہونے والی پنجاب پولیس کی جانب سے زیادتی کے حوالے ڈی ایس پی ٹریفک اور ڈی پی او رحیم یارخان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ شہر اور ضلع کے سماجی کارکنان کوئی نوٹس اور ایکشن لیا، اس واقعہ کا نوٹس لیا جائے.پنجاب پولیس میں کاـی بھیڑوں کی موجودگی ہو یا پنجاب پولیس کے منفی رویوں اور عوام کے ساتھ زیادتیوں کی داستانیں یہ کوئی نئی بات ہرگز نہیں ہے.ساجد آرائیں کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ تو روزمرہ کی روٹین کا، واقعہ ہے یہاں تو بڑی بڑی زیادتی ہو جاتی ہیں اور ہو رہی ہیں. دراصل ہمارا نظام چھلنی چھلنی ہو چکا ہے.اصلاح ہر کوئی چاہتا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اصلاح کرنے والوں کا کوئی ساتھ نہیں دینا چاہتا. کہاں پر اور کیا ہوا ساجد آرائیں کی تحریری داستان آپ سب کے ساتھ من و عن شیئر کیے دیتے ہیں.
ُ ُ پولیس کی مایوس کن کارکردگی اور ان کے منفی رویوں سے معاشرے کے تقریباً تمام طبقات ہی شاکی رہتے ہیں۔ آج میرے ساتھ ایسا ہی افسوسناک واقعہ وائرلیس پل پر پیش آیا۔مجھے شیخ ذید ہسپتال سے ایک مریضہ جو لیاقت پور سے ہیں چیک اپ کے لیئے تشریف لائی تھیں، کے بھائی کا فون آیا کہ ذرا ہسپتال آئیں آپ کی ضرورت ہے۔
وائرلیس پل پر پہنچا تو زیر نظر تصاویر میں نظر آنے والے دو اہلکار اختر کانسٹیبل اور ابراہیم سب انسپکٹر نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ میرا شروع سے مزاج ہے کہ پولیس کے رکنے پر رک جاتا ہوں نہ کہ انسان بھاگنے کی کوشش کرے۔ قانون کا احترام بہر طور لازم ہے۔
مجھ سے اختر کانسٹیبل نے شناختی کارڈ اور آنر شپ کارڈ مانگا۔ میں نے دونوں چیک کروائے۔ اسی اثناء میں اختر کانسٹیبل نے مجھے پوچھا کہ کیا کاروبار کرتے ہیں تو میں نے بتایا کہ زعفران فروخت کرتا ہوں تو حیرانگی سے پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے۔ میرے احباب کو علم ہے کہ میری جیب میں دو تین ڈبیاں زعفران ہر وقت ہوتی ہے۔ میں نے زعفران نکال کر دکھائی تو اختر کانسٹیبل نے ابراہیم نامی سب انسپکٹر سے کہا سئیں موٹی پارٹی اے۔ زعفران وچیندے۔ ابراہیم سب انسپکٹر نے ایک ڈبیا جو پانچ گرام کی ہوتی ہے اور اسکی مالیت تین ہزار روپے سے زائد ہے پلکتے جھپکتے فوراً پکڑ کر اپنی جیب میں ڈال لی۔ اور ہیلمٹ نہ ہونے کا دو سو روپیہ بھی مجھ سے نقدی وہیں پر لیا اور آدھا گھنٹہ کھڑا کیئے رکھا۔
ڈی ایس پی ٹریفک جناب چوہدری اصغر صاحب سے صرف اتنی گزارش ہے کہ چالان پر مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ وہ میری غلطی ہے۔ حالانکہ ساری روڈ بغیر ہیلمٹ کے لوگوں سے بھری پڑی تھی اور یہ دونوں اہلکار بھی وہاں سے ڈیوٹی ختم کرکے بغیر ہیلمٹ ہی موٹر سائیکل پر گئے ہیں۔ بس اتنی گزارش ہے کہ روڈز پر کوئی خاندانی لوگ کھڑے کیا کریں۔ ایک سب انسپکٹر دو تین ہزار کا ٹیکہ لگائے تو یہ پنجاب پولیس کی بے عزتی ہے۔ کیونکہ پولیس تو ہمیشہ وڈے کام ڈالتی ہے۔ اور اس ایس آئی ابراہیم کا پیٹ چیک کریں اسکی پینٹ کا بٹن بند نہیں ہوسکتا۔ حرام کھا کھا کے پھٹنے والا ہے۔ یہ زعفران کہاں انڈیلے گا
باقی میں ان شاءاللہ سوموار کو قانونی کاروائی بھی ضرور کروں گا تاکہ ان دونوں سے ملاقات ہوتی رہے۔باقی عوام بھی ان دو اہلکاروں سے محتاط رہے کہ یہ فورا آپکے سامان پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔
مسٹر ساجد آرائیں آپ تو قسمت سے ٹریفک پولیس والوں کے ہاتھ لگے ہوں گے. رحیم یارخان ٹریفک پولیس تھلی روڈ، امین گڑھ روڈ، مئو مبارک روڈ یا منٹھار سائیڈ وغیرہ کے راستوں سے شہر میں داخل ہونے والے دیہاتیوں کے ساتھ یہ پولیس جو ناروا سلوک اور لوٹ مار کرتی ہے آپ کبھی صبح کے وقت جا کر وہاں صورت حال ملاحظہ فرمائیں.لوگ روزانہ کی بنیاد پر خاموشی سے لُٹتے ہیں.
مجھے یقین کہ ساجد آرائیں کی کسی کارروائی سے قبل ڈی پی او رحیم یارخان اختر فاروق جوکہ مثبت سوچ اور اچھی شہرت کے حامل پولیس آفیسر ہیں. وہ سماجی کارکن کو اپنے دفتر بلا کر ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا فوری ازالہ کردیں گے اور متعلقہ ذمہ دار پولیس ملازمین کے خلاف بھی ضرور محکمانہ کارروائی کریں گے.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author