نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رب العالمین کا رحمت للعالمینؐ!||نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

نور الہدیٰ شاہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعثت نبوت کو ابھی چھ سال ہوئے تھے اور ابھی مکہ کے گنے چنے افراد مسلمان ہوئے تھے۔

ابوجہل کعبہ کی حدود میں بیٹھا محمدﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ بول رہا تھا۔ آپﷺ اس وقت کعبہ میں تنہا تھے اور ارد گرد کوئی نہیں تھا جو آپﷺ کی طرف سے ابوجہل کو روکے۔ ابوجہل حدیں پار کرتا جا رہا تھا۔ کسی کی باندی یہ منظر دیکھ رہی تھی اور محمدﷺ کا صبر دیکھ کر حیران ہو رہی تھی۔ برداشت نہ کر سکی اور محمدﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب تک پہنچ گئی، جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے۔ باندی نے اپنے طور ایک قبائلی عرب کی غیرت کو جگانے کے لیے للکارا اور بولی۔ اے ابو عمارہ، تم سارا دن شکار میں مصروف رہتے ہو۔ لیکن تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ لوگ تمھارے خاندان والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ کاش تمہیں، تمہاری بہادری کا کچھ پاس ہوتا۔

دریافت کرنے پر باندی نے بتایا کہ ابوجہل نے تمہارے بھتیجے محمدﷺ کو ایسے ایسے الفاظ کہے ہیں کہ اگر میں تمہیں بتا دوں تو تم مجھے ہی قتل کر دو گے۔ لیکن تمہیں اس سے کیا؟ تم اپنا شکار کرو، عیش کرو، سیر کرو۔

حضرت حمزہؓ غصے میں بپھرے ہوئے سیدھے بیت اللہ پہنچے۔
چچا اور بھتیجاﷺ تقریباً ہم عمر تھے۔ ساتھ کھیلے بڑھے تھے۔ دونوں میں بڑا پیار تھا۔
حمزہؓ بھتیجے کا دین قبول نہ کرنے کے باوجود ابوطالب کی طرح بھتیجے کو بہت چاہتے تھے۔

حمزہؓ غصے کی حالت میں جب بیت اللہ پہنچے تو ابوجہل لوگوں کے درمیان بیٹھا اونچی آواز میں مزے لے لے کر لوگوں کو اپنی آج کی کارروائی سنا رہا تھا۔ حمزہؓ غصے سے کھولتے سیدھے ابوجہل کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور کمان کھینچ کر اس کے سر پر دے ماری اور گریبان سے پکڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ اور للکارا کہ سن آج سے میں نے بھی محمدﷺ کا دین قبول کیا۔ ابوجہل کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ لوگوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ابوجہل اپنے قبیلے کا بڑا آدمی تھا۔ اس کے لوگ بھی بھڑک اٹھے۔ حمزہؓ بنو ہاشم کے معزز فرد تھے، ان کے حامیوں نے بھی تلواریں کھینچ لیں۔ لوگ اس بات پر بھی پریشان تھے کہ حمزہؓ جیسا اثر و رسوخ والا شخص غصے میں آ کر اپنے آبا و اجداد کے مذہب سے مکر گیا ہے۔

باندی جس نے حمزہؓ کو یہ ساری بات بتائی تھی یہ منظر دیکھ رہی تھی، وہ فوراً وہاں سے دوڑی اور جس سے بھی ملتی اعلان کر دیتی کہ حمزہؓ نے ابوجہل کا سر پھاڑ دیا ہے اور اسلام قبول کر لیا ہے۔

حمزہؓ بھی جب محمدﷺ کے پاس پہنچے تو ابھی ابوجہل کے ساتھ ہونے والے واقعے کی آپﷺ کو اطلاع نہیں ملی تھی۔ حضرت حمزہؓ نے محمدﷺ کو بتایا کہ انہوں نے ابوجہل کو سبق سکھا دیا ہے۔ اور اسے سبق سکھانے کے لیے آپﷺ کا دین بھی قبول کر لیا ہے۔

مگر جواب میں محمدﷺ نے کچھ عجیب کیفیت سے فرمایا۔ کہ۔ چچا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں اور وہ تنہا عبادت کے لائق ہے۔

حضرت حمزہؓ نے بھتیجے ﷺ کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ ٹھیک ہے اگر تمہاری یہی خوشی ہے تو میں یہ اعلان کر دیتا ہوں۔

آپﷺ نے فرمایا۔ نہیں چچا، آپ یہ اعلان مجھے نہیں، بلکہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے کریں۔

اب حضرت حمزہؓ نے اللہ کی خوشنودی کے لیے کلمہ ادا کیا کہ میں شہادت دیتا ہوں۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں اور وہ تنہا عبادت کے لائق ہے اور بھتیجے میں تمہیں اس کا پیغمبر مانتا ہوں۔

حضرت حمزہؓ کا مکہ میں وہ دبدبہ تھا کہ انہوں نے مدینہ کی طرف علی الاعلان ہجرت کی مگر کسی کو جرات نہ ہوئی کہ ان کا راستہ روک سکے۔

جنگ بدر میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ کا چچا اور بھائی بھی حضرت حمزہؓ کی تلوار کی زد میں آئے اور پھر جنگ بدر میں حضرت حمزہؓ کا جو کردار تھا اس پر بھی مکہ والوں میں ان سے انتقام کی آگ سلگ اٹھی تھی۔

جبیر بن مطعم کا ایک حبشی غلام تھا۔ وحشی بن حرب۔ جبیر نے ایک دن وحشی سے کہا کہ کیا تم آزاد ہونا چاہتے ہو؟ اگر تم نے حمزہؓ بن عبدالمطلب کو قتل کر دیا تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔ آزادی کی لالچ میں وحشی نے کلہاڑی اور برچھی چلانے کی خصوصی مشق شروع کر دی۔ ہندہ کا بھی بھائی اور چچا کا انتقام رہتا تھا۔ اس نے بھی وحشی کی ہمت بندھائی کہ اگر تم نے یہ شکار کر لیا تو وہ انعام پاؤ گے کہ کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہو گا۔ وحشی بن حرب اپنی تیاری میں اس قدر طاق ہو گیا کہ اب اس کا نشانہ چوکتا نہ تھا۔ جنگ احد میں اسے موقع مل گیا۔ حضرت حمزہؓ اس کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

ہندہ نے حضرت حمزہؓ کی لاش کا پیٹ چاک کیا۔ کلیجہ باہر نکالا اور اس سے ایک حصہ کاٹ کر منہ میں لے لیا مگر اس سے نگلا نہ گیا اور اسے قے ہو گئی۔ اس کے بعد بھی اس کی تسلی نہ ہوئی۔ اس نے حضرت حمزہؓ کے چہرے کے اعضاء کاٹے اور ان کا ہار پہن کر وحشی کی طرف متوجہ ہوئی جو اس وقت اپنا انعام پانے کا منتظر ایک طرف بیٹھا تھا۔ ہندہ نے اپنا سونے کا ہار اور بالیاں انعام کے طور پر اس کے حوالے کیں۔

نبی کریمﷺ نے جب حضرت حمزہؓ کی لاش دیکھی تو انہیں سخت صدمہ پہنچا۔ جب حضرت حمزہؓ کی بہن حضرت صفیہؓ بھائی کو دیکھنے آئیں تو آپﷺ نے کہلا بھیجا کہ صفیہؓ بھائی کی لاش کو نہ دیکھیں کیونکہ وہ دیکھ نہ سکیں گی۔

حضرت حمزہؓ کی تدفین کے دوران رسول کریمﷺ روتے رہے۔ ایک صحابی عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو ساری زندگی اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپﷺ کبھی بلند آواز سے نہ روئے تھے۔ بس آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔ مگر حضرت حمزہؓ کے جنازے پر کھڑے ہو کر اس طرح روئے کہ ان کی آواز سنائی دی۔ یہ آپﷺ کی زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ ہوا تھا۔

وحشی جب اس جنگ کے بعد مکہ واپس آیا تو جبیر نے اسے وعدہ کے مطابق آزاد کر دیا۔ آزادی کے بعد وحشی پر یہ خوف طاری ہو گیا کہ جب وہ غلام تھا تو اس کی ذمہ داری اس کے مالک پر تھی، مگر آزاد ہونے کے بعد اب اس کی زندگی کی ذمہ داری کسی پر نہ تھی۔ اس لیے وہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہنے لگا کہ حضرت حمزہؓ کے قبیلے کا کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اسے قتل کر سکتا ہے۔

اور جب مکہ فتح ہوا اور اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہوا، اسے یہ سننے میں آیا کہ جن لوگوں کو بطور خاص قتل کرنے کی اجازت ہے اس میں اس کا نام بھی شامل ہے۔ یہ سن کر وہ خوف کے مارے مکہ سے بھاگ نکلا اور طائف جا کر رہنے لگا۔

طائف میں وحشی نے سنا کہ رسول اللہﷺ نے عفو و درگزر سے کام لے کر بڑے بڑے دشمنوں اور مجرموں کو معاف کر دیا ہے اور ان میں ہندہ بھی شامل ہے جس نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا۔

یہ سن کر وہ مدینہ پہنچا اور خاموشی سے مسجد نبوی میں داخل ہو گیا۔ سامنے ہی رسول اللہﷺ لوگوں کے درمیان بیٹھے نظر آئے۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور بلند آواز سے پکارا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

آواز سن کر محمدﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے ایسی نظروں سے اسے دیکھا کہ وحشی کو معلوم ہو گیا کہ اسے پہچان لیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا، تم وحشی بن حرب ہو؟

اس نے کہاں ہاں۔

یہ سن کر آپﷺ نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ پھر کچھ لمحوں بعد آپﷺ نے فرمایا۔ بیٹھو اور مجھے بتاؤ کہ حمزہؓ کو تم نے کیسے قتل کیا؟

وحشی بیٹھ گیا اور پورا واقعہ بیان کر دیا۔ وحشی خاموش ہوا تو آپﷺ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا اور آپﷺ نے صرف اتنا کہا کہ وحشی تم پر افسوس ہوا۔ پھر کچھ لمحوں کے بعد فرمایا کہ میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔ تم مجھے نظر نہ آیا کرو۔

وحشی کے لیے دور ہونے کے یہ الفاظ گویا زندگی کا پروانہ تھے۔ اس کے معنی یہی تھے کہ اس کے قتل کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے اور اسے ناپسندیدہ شخص کے طور پر سہی، بہر حال جینے کی آزادی اور حق ہے۔

اس کے بعد وحشی اس کیفیت سے دوچار رہنے لگا کہ معلوم نہیں اس کا جرم معاف ہوا ہے کہ نہیں۔ وہ مسلسل اس سوچ میں رہنے لگا کہ رسول اللہﷺ کو کیسے خوش کرے اور اپنے جرم کا کفارہ کیسے ادا کرے؟

وہ مسجد نبوی میں رسول اللہﷺ کی محفلوں میں برابر حاضری دیا کرتا مگر اس طرح محفل میں بیٹھتا کہ رسول اللہﷺ اسے دیکھ نہ سکیں۔ گو کہ آپﷺ بھی اس کی موجودگی سے باخبر ہی تھے مگر کبھی اپنی محفل سے نکل جانے کو نہ کہا۔ نبی کریمﷺ کی بقیہ زندگی وہ اسی کیفیت میں موجود رہا۔ آپﷺ کے بعد بھی وہ اسلام پر ثابت قدم رہا۔

فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ محمدﷺ ایک عظیم الشان لشکر کے ہمراہ مکہ کے قریب آ پہنچے ہیں، اس لئے تین آدمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے مکہ سے نکلے، ان میں ایک ابوسفیان تھا۔ تینوں گرفتار ہوئے۔ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت عمر نے تلوار میان سے نکال لی اور بولے۔ یا رسول اللہﷺ، اللہ تعالیٰ نے دشمن خدا ابوسفیان کو ہمارے ہاتھ میں دے دیا ہے، اس لئے مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کا سر قلم کر دوں۔

حضرت عباسؓ نے کہا۔ یا رسول اللہﷺ میں اس کو پناہ دے چکا ہوں۔ آپﷺ نے حضرت عباس کو پناہ کی منظوری دے دی۔ اب ابوسفیان مفتوح تھا۔ اس بے بسی کے موقع پر اس نے اسلام قبول کیا۔

اسلام لانے کے بعد ابوسفیان نے پوچھا۔ یا رسول اللہﷺ۔ اگر قریش آپﷺ کے مقابل نہ آئیں اور کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں تو ان کو امان مل جائے گی؟

آپﷺ نے فرمایا۔ ہاں، جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لئے بھی امان ہے۔
اگلے دن مسلمانوں کا لشکر بغیر کسی مزاحمت اور جنگ کے مکہ میں داخل ہوا۔

حضرت سعد ؓ بن عبادہ جب مکے میں داخل ہوئے تو انہوں نے بے اختیار یہ اعلان کیا کہ آج کا دن حملے کا دن ہے اور آج حرام ختم ہوا۔

جب یہ فاتحانہ الفاظ آپﷺ تک پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا کہ سعد ؓبن عبادہ نے غلط کہا ہے۔ آج کا دن کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔ آج کعبہ کو لباس پہنانے کا دن ہے۔

اس کے بعد آپﷺ نے تمام لشکر کو حکم دیا کہ اشد ضرورت کے بغیر قطعاً کسی کا خون نہ بہایا جائے۔
ان سب کے لیے امان ہے۔
جو لوگ دروازے بند کر کے گھروں میں بیٹھ جائیں۔
یا مسجد حرام میں داخل ہوجائیں۔
یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لیں۔
اور سامنے نہ آئیں۔
یا سامنے آئیں مگر غیر مسلح ہوں اور کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں۔
ان سب کے لئے امان ہے۔

فتح مکہ کے موقع پر مکہ کی عورتیں بھی نبی کریمﷺ کے پاس بیعت کے لئے حاضر ہوئیں۔ ان میں ہندہ بھی کچھ اس طرح آئی تھی کہ پہچانی نہ جائے۔ ہندہ ابوسفیان کی بیوی بھی تھی۔ دونوں میاں بیوی کا گھر تھا جس میں امان دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ وہی ہندہ تھی جو حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبا چکی تھی۔ جس واقعے پر مسلمانوں نے پہلی بار اور آخری بار آپﷺ کے رونے کی آواز سنی تھی۔

آپﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ وہ ان عورتوں سے کہیں کہ رسول اللہﷺ تم سے اس بات پر بیعت لیتے ہیں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ہندہ نے جب آپﷺ کا فرمان سنا تو ساتھ آئی عورتوں کو کہنے لگی کہ میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ لیکن اگر بولوں گی تو محمدﷺ مجھے پہچان لیں گے اور میرے قتل کا حکم دے دیں گے۔ میں اسی وجہ سے اس طرح آئی ہوں کہ پہچانی نہ جاؤں۔ مگر عورتوں نے ہندہ کی بات اپنی زبان سے آگے پہنچانے سے انکار کر دیا۔ آخر وہ خود ہی بول پڑی کہ ٹھیک ہے، جب شرک سے ممانعت مردوں کو ہے تو عورتوں کو بھی ہوگی۔ اس کی آواز پر نبی کریمﷺ نے اس کی طرف دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ پھر حضرت عمر سے مخاطب ہوئے کہ ان عورتوں سے کہو کہ دوسری بات یہ ہے کہ چوری نہ کریں۔ اس پر ہندہ بول پڑی کہ میں ابوسفیانؓ کی معمولی سی چیز کبھی کبھی لے لیا کرتی ہوں۔ یہ چوری میں شامل ہو گا یا نہیں؟ اور میرے لئے یہ حلال ہے یا نہیں؟ ابوسفیانؓ بھی وہیں موجود تھا۔ یہ سنتے ہی کہنے لگا میرے گھر میں سے جو کچھ بھی تم نے لیا ہے وہ سب میں تمہارے لئے حلال کرتا ہوں۔ اب نبی کریمﷺ نے اس کو پہچان لیا اور اس کی یہ حالت دیکھ کر مسکرا دیے اور اسے اپنے پاس بلا لیا۔ اس نے سامنے آ کر رحمت للعالمینﷺ سے اپنے جرم کی معافی مانگی تو رحمت للعالمینﷺ نے فرمایا تم وہی ہندہ ہو؟ ہندہ بولی، جی ہاں میں وہی ہندہ ہوں۔ فرمایا، جاؤ آج میں نے تمہیں معاف کیا۔

ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ اسی ابوسفیان کی بیٹی تھیں۔ پہلی شادی کے بعد تاجر شوہر کے ساتھ ایتھوپیا چلی گئیں۔ وہاں مسلمان شوہر دوبارہ عیسائی ہو گیا اور عیش و عشرت میں مبتلا ہو گیا۔ محترمہ ام حبیبہؓ نے اسلام چھوڑنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے شوہر نے ان پر زندگی تنگ کردی۔ دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ بعد میں شوہر کا انتقال ہو گیا اور ام حبیبہؓ بیٹی کے ساتھ ایتھوپیا میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے لگیں۔

ابھی ابوسفیان کی آپﷺ اور مسلمانوں سے دشمنی اپنے عروج پر تھی۔ آپﷺ تک ام حبیبہؓ کے حالات کی خبر پہنچی۔ آپﷺ نے ایتھوپیا کے حکمران نجاشی کے ذریعے ام حبیبہ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ ام حبیبہؓ نے قبول کیا اور بیٹی سمیت مدینہ میں محمدﷺ کی حفاظت میں آ گئیں۔

فتح مکہ سے قبل ایک مرتبہ ابوسفیان ام حبیبہؓ سے ملنے مدینہ آیا مگر اسے رسول اللہﷺ کے گھر کے اندر جانے سے کسی نے بھی نہ روکا۔ نہ مسلمانوں نے اور نہ رسول اللہﷺ نے۔

بیٹی کے گھر میں جب وہ رسول اللہﷺ کے بستر پر بیٹھنے لگا تو حضرت ام حبیبہ نے بستر الٹ دیا۔ ابو سفیان کو ناگوار گزرا۔ بولا۔ تمہیں اس بستر پر اپنے باپ کا بھی بیٹھنا پسند نہیں؟ حضرت ام حبیبہؓ نے جواب دیا۔ مجھے پسند نہیں کہ رسول اللہﷺ کے بستر مبارک پر ایک مشرک بیٹھے۔

دو باپ بیٹے تھے، حکم اور مروان۔ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان تو ہوئے تھے مگر محفلوں میں بیٹھ کر دونوں باپ بیٹا گستاخانہ انداز میں نبی کریمﷺ کی نقلیں اتارتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست اور بھی طاقت ور ہو چکی تھی۔ معاملہ نبی کریمﷺ کے سامنے آیا۔ آپﷺ نے دونوں باپ بیٹے کے قتل کا حکم نہیں دیا، بلکہ شہر بدری کا حکم دیا اور دونوں باپ بیٹا اس حکم کے بعد مدینہ چھوڑ گئے۔ نبی کریمﷺ کے بعد وہ تب تک مدینہ میں داخل نہ ہوئے جب تک حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں انہیں مدینہ بلا لیا اور مروان کو اپنا سیکریٹری مقرر کیا اور اس پر اپنے اعتبار کی وجہ سے خلافت کی مہر تک اس کے حوالے کر دی۔ جس کے بعد اسلامی تاریخ کے وہ اندوہناک موڑ آئے جس پر تاریخ اور انسانیت خون کے آنسو بہاتی رہی ہے۔ مگر جب وہ گستاخ باپ بیٹا حضرت عثمانؓ کی اجازت کے ساتھ مدینہ لوٹے تو اہل مدینہ جو ابھی نبی کریمﷺ اور ان کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے زیر تربیت رہے تھے۔ انہوں نے پتھر نہیں اٹھائے۔

مسلمانوں میں تب سے آج تک اس سوچ کے لوگ اور علماء بھی موجود رہے ہیں جو ابو سفیان، ہندہ، حکم اور مروان کے ناموں کے ساتھ حضرت اور رضی اللہ عنہ یہ کہہ کر لگاتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی تھی اور مسلمان ہوئے تھے۔ کس دل اور نیت سے ہوئے، ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔ اس کا فیصلہ روز محشر اللہ اور اس کے نبی ﷺ کریں گے۔

نور الہدیٰ شاہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author