نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گمنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟||عاصمہ شیرازی

سنگین معاشی بحران میں ایک طرف آئی ایم ایف کی سخت شرائط ہیں تو دوسری جانب ڈیڈ لاک، ایک جانب عوام کا اضطراب ہے تو دوسری جانب ردعمل کا خوف، عمران خان دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کو تیار ہیں، باوجود اس کے کہ گزشتہ تحریک میں عوامی پذیرائی حاصل نہیں رہی تاہم اب کی بار وہ معاشی ہیجان کو سیاسی مظاہرے میں بدلنے کی کوشش پھر سے کریں گے۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں، نہیں، کیوں، کیوں کر، کیسے اور پھر مگر۔۔۔ موجودہ حالات چونکہ چنانچہ کی لایعنی بحث میں اُلجھ گئے ہیں۔ بند گلی ہے، راستہ ہو تو منزل کا تعین ممکن ہو، حالات یہ ہیں کہ دماغ خوف اور خواہش کے مابین مکالمے میں اُلجھ گیا ہے۔

موجودہ حالات غیر متوقع، ناگزیر اور غیر معمولی اقدامات کی نشاندہی کر رہے ہیں جبکہ جمہوری اور آئینی تقاضے کسی صورت کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ تحریر موجودہ حالات میں محض ایک مکالمہ ہے اس سے آگے کچھ نہیں، یہ خود کلامی ہے موضوع تقریر نہیں۔۔۔ خواہش ہے کہ جمہوریت برقرار رہے اور خوف کہ ایسا ہونا بھی معجزہ ہے۔

خواہش ہے کہ معیشت کے لیے ضروری سیاسی استحکام ملے، خوف ہے کہ انتشار بڑھے گا، خواہش ہے کہ بحران کا حل ڈھونڈا جائے، خوف ہے کہ انتخابات بھی اس کا حل نہ ہوئے تو کیا ہو گا۔

خواہش ہے کہ آئین کی سربُلندی ہو خوف ہے کہ آئین کی عملداری ناممکن نہ ہو جائے، خواہش ہے کہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ نہ ہو، خوف ہے کہ سخت ترین معاشی فیصلے نظام نادہندہ نہ کر دیں، خواہش ہے کہ جمہور زندہ باد ہو، خوف کہ فسطائیت جمہوریت نہ نگل لے، خواہش ہے کہ پارلیمان پائندہ ہو، خوف ہے کہ اجتماعی دانش کی مدفن گاہ نہ بن جائے۔

کون ہے جو جمہوریت کو جمہور کی ضد اور آئین کو نظام میں گرہ کے طور پر متعارف کروا رہا ہے۔

ذمہ داری کا تعین کرنے کا وقت ہی کسی کے پاس کہاں مگر یہ بُنیادی سوال تو اُٹھایا جا سکتا ہے کہ ہم معاشی، سیاسی اور آئینی بریک ڈاؤن کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

الطاف حسن قریشی صاحب کی تحاریر کے مجموعے ’مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا‘ پر نظر پڑی تو جا بجا مشرقی پاکستان اور 1971 کے انتخابات سے قبل کا خاکہ بکھرا پڑا تھا اور ٹی وی سکرین پر نگاہ پڑی تو عمران خان صاحب کا مجیب الرحمن پر کاٹا لگانے کا بیان۔

خان صاحب یوں تو مقبول ہیں مگر مقبولیت کے گراف کا پیمانہ صرف اُن کے ہاتھ ہے، اس پیمانے کی ابتداء سادہ اور انتہا دو تہائی اکثریت ہے لہذا اس سے کم پر نہ آئین کام آئے گا اور نہ ہی قانون۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ تاثر مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے کہ موجودہ سیاسی جمود کا حل جس مکالمے میں ہے اُس پر ایک فریق یعنی تحریک انصاف یقین نہیں رکھتی۔

سنگین معاشی بحران میں ایک طرف آئی ایم ایف کی سخت شرائط ہیں تو دوسری جانب ڈیڈ لاک، ایک جانب عوام کا اضطراب ہے تو دوسری جانب ردعمل کا خوف، عمران خان دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کو تیار ہیں، باوجود اس کے کہ گزشتہ تحریک میں عوامی پذیرائی حاصل نہیں رہی تاہم اب کی بار وہ معاشی ہیجان کو سیاسی مظاہرے میں بدلنے کی کوشش پھر سے کریں گے۔

پارلیمان کے دروازے تحریک انصاف کے لیے بند ہو چکے ہیں تو دو صوبائی حکومتیں عمران خان صاحب اپنے ہاتھوں ختم کر چکے ہیں۔

اس فیصلے سے قبل چند خیرخواہوں نے عمران خان کو ممکنہ سیاسی نتائج سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تاہم وقتی عوامی مقبولیت کی خواہش فرد واحد کی خواہش کی بھینٹ چڑھ گئی۔

نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب بظاہر اپنے سیاسی پتے اور حربے آزما چُکے ہیں اور ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی تیاری میں ہیں جبکہ معیشت کسی طور سیاسی عدم استحکام کی متحمل نہیں۔

سیاسی اُفق پر چھائی دُھند دو اسمبلیوں کے بروقت انتخابات سے چھٹ پائے گی یا عام انتخابات کے انعقاد تک بے یقینی کو بڑھاوا دے گی؟

یہ وہ سوال ہے جو بطور سیاست کے طالبعلم ہر طور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ متوقع صورت حال معاشی پیش منظر سے جُڑی نظر آتی ہے۔

انتخابات کے لیے مناسب سیاسی ماحول کون بنائے گا؟ چیف الیکشن کمشنرکے متعین کردہ وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کو چیلنج کرنے والی تحریک انصاف انتخابات کے نتائج کو کیسے تسلیم کرے گی؟

استعفے دے کر واپس لینے والی جماعت قومی سطح پر راجہ ریاض کے ساتھ مشاورت سے لگائے نگران سیٹ کو کیسے مانے گی؟

اگر نگران وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن نے لگایا تو کیا تحریک انصاف تسلیم کر لے گی اور اگر تسلیم کر بھی لیا تو ’خواہش‘ سے کم کامیابی کی صورت نتائج تسلیم کرے گی یا پھر 2014 کی صورت دوبارہ سڑکوں پر ہو گی؟

زمینی حقائق کی ایک جھلک بہر حال سندھ بلدیاتی انتخابات میں دکھائی دی جہاں 2018 میں کلین سویپ کرنے والی جماعت اب تیسرے نمبر پر ہے۔

بہر حال آئندہ انتخابات سے پہلے نہ تو سیاسی پارہ کم ہو گا اور نہ ہی معاشی دھارا درست اور وجود برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ریاست کس حد تک اس اندرونی تقسیم سے نمٹ پائے گی یہ ایک الگ سوال ہے۔

پھر حل کیا ہے اور کس کے پاس ہے؟ میں نہ مانوں کی ضد اور رَٹ آئین کی رِٹ چیلنج کر رہی ہے اور جو راستہ بچتا ہے وہ خود بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ خوف ہے کہ نظام بند گلی میں داخل نہ ہو جائے؟

انتخابات ہوئے تو بحران، نہ ہوئے تو بحران، معاشی فیصلے ہوئے تو بحران مگر نہ ہوئے تو سنگین بحران جس کی ایک جھلک بجلی کے بریک ڈاؤن کی صورت دیکھ لی ہے، عوام سخت فیصلے قبول کر سکتے ہیں مگر تیل، بجلی اور گیس کے بریک ڈاؤن کسی طور تسلیم نہیں کر سکتے۔

خوف اور خواہش کے اس مکالمے میں یہ حقیقت اٹل ہے کہ کوئی بھی غیر آئینی حل بحران ختم نہیں کر سکے گا جبکہ وسیع ہوتی خلیج غیر معمولی حالات کی نشاندہی کر رہی ہے۔ خواہش ہے کہ جمہوریت جیسی بھی ہے چلتی رہے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author