ارشادرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں کباب کلچر نے کتاب کلچر کو بری طرح کچل کے رکھ دیا ہے ، دلیل کی جگہ دھمکی کاراج ہے ، حکمت معدوم اور ہتھیار عام ہوچکا ۔ تدبر کی جگہ تکبر اور منطق کی جگہ مرضی کا غلبہ چھا چکا ہے مگر پھر بھی کئی شہروں میں کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں سیاسی بحث و مباحثے اور مکالمے کی ثقافت زندہ ہے اور لوگ کتاب سے وابسطہ ہیں ۔
اگر اہل لاہور عرب ہوٹل ، نگینہ بیکری اور پاک ٹی ہاؤس کی روایت کے آمین ہیں تو سندھ دھرتی کے دور افتادہ گاوں اور قصبوں میں کچہری ان کا معمول ہے خیبر پختون خواہ میں ایسی شعور وآگہی کی نشستوں کیلۓ حجرے کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور بلوچستان کوئٹہ میں بھی اہل دانش نے بابا جمال دینی کے لٹ خانہ کانام ضرور سنا ہوگا بندہ ناچیز کی راۓ میں ہماچوں ، چاۓ خانوں ، چوپالوں ، دیوان خانوں اور حجروں میں دانشوروں ، ادیبوں ، صحافیوں ، طالب علموں ، اساتذہ اور سیاستدانوں میں ہمہ قسم کے موضوعات پر گرم گرم دھواں دھار تبادلہ خیال سے تمدنی مکالمہ تشکیل پاتا ہے اس ضمن میں پنجاب کے دارلخلافہ سے دور افتادہ ضلع اور میرا اپنا شہر لیہ بھی کسی سے کم اور پیچھے نہیں لیہ شہر میں بھی ہماچوں تھڑوں اور چاۓ خانوں پر شام کے وقت رات گۓ تک مختلف محفلیں جمتی ہیں جہاں حالات حاضرہ ، سیاست، معیشت ، علم وادب پر مباحثے ہوتے ہیں ان میں قابل ذکر ،لب نیلم ہوٹل ، دفتر پاکستان پیپلز پارٹی پرانی سبزی منڈی ، ریلوے روڈ پر ہوٹل بالا شنا ناری ، اور سب سے قدیم اور مشہور ہماچہ ہوٹل طوطے گجر کا ہوٹل پرانا بلوچ اڈا اپنی ایک تاریخ رقم کیے ہوۓ ہیں لب نیلم ہوٹل پر دو محفلیں الگ الگ ہوتی ہیں ، ایک نشست میں شہر کے نامور لیجنڈری دانشور ادیب پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ ، پروفیسر اختر حسیںن بھٹی، سبحان خان چانڈیہ اور دیگر علمی وادبی شخصیات تشریف فرما ہوتی ہیں جبکہ دوسری محفل میں ڈاکٹر مزمل حسین پروفیسر سبطین خان ، پروفیسر ظہور عالم تھند ، خالد خان میرانی ، مہر سیف اللہ سمرا، سردار اکبر خاں اور دیگر دوست احباب چاۓ کے گرما گرم دھویں کے ساتھ ساتھ گرما گرم بحث میں مشغول ہوتے ہیں اس طرح پرانی سبزی منڈی دفتر پیپلز پارٹی کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ لیہ کے تمام سیاستدانوں کی سیاسی جنم کنڈلی اس دفتر سے نکلی ہے لیہ میں جو بھی سیاست میں وارد ہوا اس نے سیاسی تسبیح اسی دفتر سے پڑھنا سیکھی ہے تیسری اور سب سے قدیم نشست طوطے گجر کے ہوٹل پر ہوتی ہے جس کی تاریخ معلوم زرائع کے مطابق پچاس سال سے زیادہ ہے ایک بزرگ دوست جو اس نشست کا حصہ آ رہا ہے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں 1971 سے اس نشست کا حصہ ہوں ایک دہائی سے خاکسار بھی اسی ہماچے گروپ کا حصہ ہے بندہ ناچیز کے علاوہ پہاں سیاسی و سماجی شخصیت اور بزرگ رہنما مقصوداحمد خاں چانڈیہ ، چار بار کے ممبر پنجاب بار لالہ غلام مصطفی جونی ، صحافت کا بے تاج باد شاہ اور شاعر یوسف حسنین نقوی ، معروف سیاسی گھرانے کے چشم وچراغ دو بار کے صدر ڈسٹرکٹ بار سید غضنفر عباس عرف پیر گجو شاہ ، قانونی پیچیدگیوں کی گھتیاں سلجھانے میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے قانون دان میاں معظم علی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ، بار کی سیاسی رسہ کشی میں حریف کو چاروں شانے چت کرنے والے سابق سیکریٹری مہر مسرور حسین سمرا ایڈوکیٹ ہائی کورٹ ، قانون کا چڑھدا سورج دو مرتبہ کے سابق سیکریٹری ڈسٹرکٹ بار مہر سلیمان تھند ایڈووکیٹ ، اپنی عمر کے دنوں سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ رکھنے اور استدلال کے ساتھ گفتگو فرمانے والے راجہ عمر کیانی ایڈووکیٹ ، رانا محمد وسیم سکھیرا ایڈووکیٹ ، قانوں کے عبقری نسخے کشید کرنے والے اخلاق احمد ڈوگر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ، قانوں کے عقوبت خانوں میں راستہ تلاشنے والے ماہر قانون احمد عثمان ایڈوکیٹ ہائی کورٹ بار ، پاکستان پیلپلز پارٹی کے نفس ناطقہ اور نہر سویز سے اس طرف کا نابغہ روزگار عصر ، دانشور ، لکھاری ، شاعر اور فن خطابت کے ماؤنٹ ایورسٹ پر براجمان میر عبدالرحمان مانی ، سوشل ازم کے استاد کامریڈ سید ذیشان حیدر عرف شانی شریعتی ، علمی وادبی شخصیت ناصر حسین جعفری صاحب ، جماعت اسلامی کے سرکردہ رکن عامر مسعود انصاری صاحب ، آفتاب احمد ، لالہ امان اللہ کھوکھر ، ریٹائرڈ بینک آفیسر لالہ طارق عرف جگنو خان ، مشہور و معروف سیاسی اکٹیویسٹ جناب سرور بودلہ صاحب اور کئی دیگر دوست یہاں سرشام براجمان ہوتے ہیں اور رات دیر تک یہاں محفل جمی رہتی ہے لم یزل غریق رحمت کرے ڈاکٹر خیال امروہی ، نسیم لیہ ، چا چا واحد بخش بھٹی پروفیسر ڈاکٹر لالہ امیر محمد اعوان ، کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر نواز صدیقی بھی اپنی حیات میں اسی ہماچے کے سرکردہ اور بنیادی رکن رہے ہیں ، جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھ رکھا ہے
آج بھی اسی ہماچے پر ڈسٹرکٹ بار کے صدور اور جنرل سیکریٹری جیسے اہم فیصلے تشکیل پاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان چھوٹی چھوٹی نشتوں سے اٹھنے والی راۓ مجموعی سیاسی افق پر بھی اثر انداز ہوتی ہے لکھنے والے کو ان نشستوں سے استفادہ کرتے تقریباً ایک دہائی گذر چکی ہے جس سے میں نے ایک نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے ہماچے پر سیاسی ، ثقافتی ، تمدنی اور مذہبی مکالمے کی روایت ہمیشہ مضبوط رہی ہے یہاں پر جو بھی تشریف لاتا ہے ملکی حالات سے آپ ڈیٹ ہوتا ہے کسی نے کوئی نیا لکھنے والا دریافت کیا ہے تو اس کا تعارف کرانے کی فکر میں ہے کسی نے کوئی کالم یا مضمون یا کتاب پڑھی ہے تو اس کا خلاصہ اہل مجلس کے گوش گذار کرنا چاہتا ہے ، کوئی کورٹ کچہری اور قانون کی نئی نئی جہتیں بیان کر رہا ہے تو کوئی ملکی معیشت کا قضیہ بیان کر رہا ہے
کئی ایسے جہاندیدہ تجزیہ کار بھی موجود ہوتے ہیں جو موجودہ حالات کو ماضی کے واقعات سے جوڑ کر معاشرتی تفہیم کے خدوخال بیان کرتے ہیں ، اس محفل میں کچھ دوستوں کو ایسا ملکہ بھی حاصل ہے جو ہر بات اور ہر روایت کو رد کرنے سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں
جو بھی ہو مگر خاکسار کے خیال کے مطابق ایک بات تو طے ہے کہ ان ٹولیوں اور مجلسوں میں اپنی ذات سے ہٹ کر اجتماعی معاملات پر غورخوض کی تربیت ملتی ہے مخاطب کے مؤقف پر غور وفکر کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اپنی دلیل اور منطق مرتب کرنے کا ہنر سیکھا جاتا ہے اس سے قوم کے سیاسی ، سماجی اور تمدنی شعور کے درجات کا تعین بھی ہوتا ہے
اگر اہل لاہور عرب ہوٹل ، نگینہ بیکری اور پاک ٹی ہاؤس کی روایت کے آمین ہیں تو سندھ دھرتی کے دور افتادہ گاوں اور قصبوں میں کچہری ان کا معمول ہے خیبر پختون خواہ میں ایسی شعور وآگہی کی نشستوں کیلۓ حجرے کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور بلوچستان کوئٹہ میں بھی اہل دانش نے بابا جمال دینی کے لٹ خانہ کانام ضرور سنا ہوگا بندہ ناچیز کی راۓ میں ہماچوں ، چاۓ خانوں ، چوپالوں ، دیوان خانوں اور حجروں میں دانشوروں ، ادیبوں ، صحافیوں ، طالب علموں ، اساتذہ اور سیاستدانوں میں ہمہ قسم کے موضوعات پر گرم گرم دھواں دھار تبادلہ خیال سے تمدنی مکالمہ تشکیل پاتا ہے اس ضمن میں پنجاب کے دارلخلافہ سے دور افتادہ ضلع اور میرا اپنا شہر لیہ بھی کسی سے کم اور پیچھے نہیں لیہ شہر میں بھی ہماچوں تھڑوں اور چاۓ خانوں پر شام کے وقت رات گۓ تک مختلف محفلیں جمتی ہیں جہاں حالات حاضرہ ، سیاست، معیشت ، علم وادب پر مباحثے ہوتے ہیں ان میں قابل ذکر ،لب نیلم ہوٹل ، دفتر پاکستان پیپلز پارٹی پرانی سبزی منڈی ، ریلوے روڈ پر ہوٹل بالا شنا ناری ، اور سب سے قدیم اور مشہور ہماچہ ہوٹل طوطے گجر کا ہوٹل پرانا بلوچ اڈا اپنی ایک تاریخ رقم کیے ہوۓ ہیں لب نیلم ہوٹل پر دو محفلیں الگ الگ ہوتی ہیں ، ایک نشست میں شہر کے نامور لیجنڈری دانشور ادیب پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ ، پروفیسر اختر حسیںن بھٹی، سبحان خان چانڈیہ اور دیگر علمی وادبی شخصیات تشریف فرما ہوتی ہیں جبکہ دوسری محفل میں ڈاکٹر مزمل حسین پروفیسر سبطین خان ، پروفیسر ظہور عالم تھند ، خالد خان میرانی ، مہر سیف اللہ سمرا، سردار اکبر خاں اور دیگر دوست احباب چاۓ کے گرما گرم دھویں کے ساتھ ساتھ گرما گرم بحث میں مشغول ہوتے ہیں اس طرح پرانی سبزی منڈی دفتر پیپلز پارٹی کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ لیہ کے تمام سیاستدانوں کی سیاسی جنم کنڈلی اس دفتر سے نکلی ہے لیہ میں جو بھی سیاست میں وارد ہوا اس نے سیاسی تسبیح اسی دفتر سے پڑھنا سیکھی ہے تیسری اور سب سے قدیم نشست طوطے گجر کے ہوٹل پر ہوتی ہے جس کی تاریخ معلوم زرائع کے مطابق پچاس سال سے زیادہ ہے ایک بزرگ دوست جو اس نشست کا حصہ آ رہا ہے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں 1971 سے اس نشست کا حصہ ہوں ایک دہائی سے خاکسار بھی اسی ہماچے گروپ کا حصہ ہے بندہ ناچیز کے علاوہ پہاں سیاسی و سماجی شخصیت اور بزرگ رہنما مقصوداحمد خاں چانڈیہ ، چار بار کے ممبر پنجاب بار لالہ غلام مصطفی جونی ، صحافت کا بے تاج باد شاہ اور شاعر یوسف حسنین نقوی ، معروف سیاسی گھرانے کے چشم وچراغ دو بار کے صدر ڈسٹرکٹ بار سید غضنفر عباس عرف پیر گجو شاہ ، قانونی پیچیدگیوں کی گھتیاں سلجھانے میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے قانون دان میاں معظم علی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ، بار کی سیاسی رسہ کشی میں حریف کو چاروں شانے چت کرنے والے سابق سیکریٹری مہر مسرور حسین سمرا ایڈوکیٹ ہائی کورٹ ، قانون کا چڑھدا سورج دو مرتبہ کے سابق سیکریٹری ڈسٹرکٹ بار مہر سلیمان تھند ایڈووکیٹ ، اپنی عمر کے دنوں سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ رکھنے اور استدلال کے ساتھ گفتگو فرمانے والے راجہ عمر کیانی ایڈووکیٹ ، رانا محمد وسیم سکھیرا ایڈووکیٹ ، قانوں کے عبقری نسخے کشید کرنے والے اخلاق احمد ڈوگر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ، قانوں کے عقوبت خانوں میں راستہ تلاشنے والے ماہر قانون احمد عثمان ایڈوکیٹ ہائی کورٹ بار ، پاکستان پیلپلز پارٹی کے نفس ناطقہ اور نہر سویز سے اس طرف کا نابغہ روزگار عصر ، دانشور ، لکھاری ، شاعر اور فن خطابت کے ماؤنٹ ایورسٹ پر براجمان میر عبدالرحمان مانی ، سوشل ازم کے استاد کامریڈ سید ذیشان حیدر عرف شانی شریعتی ، علمی وادبی شخصیت ناصر حسین جعفری صاحب ، جماعت اسلامی کے سرکردہ رکن عامر مسعود انصاری صاحب ، آفتاب احمد ، لالہ امان اللہ کھوکھر ، ریٹائرڈ بینک آفیسر لالہ طارق عرف جگنو خان ، مشہور و معروف سیاسی اکٹیویسٹ جناب سرور بودلہ صاحب اور کئی دیگر دوست یہاں سرشام براجمان ہوتے ہیں اور رات دیر تک یہاں محفل جمی رہتی ہے لم یزل غریق رحمت کرے ڈاکٹر خیال امروہی ، نسیم لیہ ، چا چا واحد بخش بھٹی پروفیسر ڈاکٹر لالہ امیر محمد اعوان ، کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر نواز صدیقی بھی اپنی حیات میں اسی ہماچے کے سرکردہ اور بنیادی رکن رہے ہیں ، جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھ رکھا ہے
آج بھی اسی ہماچے پر ڈسٹرکٹ بار کے صدور اور جنرل سیکریٹری جیسے اہم فیصلے تشکیل پاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان چھوٹی چھوٹی نشتوں سے اٹھنے والی راۓ مجموعی سیاسی افق پر بھی اثر انداز ہوتی ہے لکھنے والے کو ان نشستوں سے استفادہ کرتے تقریباً ایک دہائی گذر چکی ہے جس سے میں نے ایک نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے ہماچے پر سیاسی ، ثقافتی ، تمدنی اور مذہبی مکالمے کی روایت ہمیشہ مضبوط رہی ہے یہاں پر جو بھی تشریف لاتا ہے ملکی حالات سے آپ ڈیٹ ہوتا ہے کسی نے کوئی نیا لکھنے والا دریافت کیا ہے تو اس کا تعارف کرانے کی فکر میں ہے کسی نے کوئی کالم یا مضمون یا کتاب پڑھی ہے تو اس کا خلاصہ اہل مجلس کے گوش گذار کرنا چاہتا ہے ، کوئی کورٹ کچہری اور قانون کی نئی نئی جہتیں بیان کر رہا ہے تو کوئی ملکی معیشت کا قضیہ بیان کر رہا ہے
کئی ایسے جہاندیدہ تجزیہ کار بھی موجود ہوتے ہیں جو موجودہ حالات کو ماضی کے واقعات سے جوڑ کر معاشرتی تفہیم کے خدوخال بیان کرتے ہیں ، اس محفل میں کچھ دوستوں کو ایسا ملکہ بھی حاصل ہے جو ہر بات اور ہر روایت کو رد کرنے سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں
جو بھی ہو مگر خاکسار کے خیال کے مطابق ایک بات تو طے ہے کہ ان ٹولیوں اور مجلسوں میں اپنی ذات سے ہٹ کر اجتماعی معاملات پر غورخوض کی تربیت ملتی ہے مخاطب کے مؤقف پر غور وفکر کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اپنی دلیل اور منطق مرتب کرنے کا ہنر سیکھا جاتا ہے اس سے قوم کے سیاسی ، سماجی اور تمدنی شعور کے درجات کا تعین بھی ہوتا ہے
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی