دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بچہ ہے یا ماں باپ کی خواہشات کا جھنڈا! ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بچے بڑے ہو رہے تھے اور ہم مزید بڑے۔ سب ساتھی ڈاکٹر اپنے بچوں کو میڈیکل کالج بھیجنے کی کوشش میں۔ ڈاکٹر کا بچہ ڈاکٹر، کچھ اور نہیں بننا۔ نوکری اچھی، رعب داب، پیسہ، عزت۔ دفع کرو آرٹ کالج کو۔ بچوں کو خواب دیکھنے کی اجازت ہی نہ ملی۔ ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، بننے کی راہ پہ سب بچے دھکیلے گئے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کیوں بن رہے ہو؟
شوق ہے کیا؟ خوشی حاصل کرنی ہے یا دولت کمانی ہے؟
ہمارا پسندیدہ سوال۔

میڈیکل سٹوڈنٹس کو پڑھاتے پڑھاتے کبھی محسوس ہو کہ سامنے بیٹھے ہوؤں کو جمائیاں آئیں اور آنکھیں موندی جانے لگیں، نظر فون پہ گڑنے لگی، خاموشی بڑھنے لگی، اشارہ ہے جی یہ اشارہ۔ بوریت کمرے میں داخل ہو چکی، دلچسپی بھاگ چکی۔ خیر ہماری زنبیل میں بھی نسخے بہت۔ ان سب مرحلوں سے گزر کر ہی گھاگ استاد بنے ہیں۔

چلو بھئی لیکچر بند، آؤ بات کریں۔ کوئی اچھوتا خیال، دنیا کی تازہ ترین، اردو کا خوبصورت شعر یا پھر کوئی سوال۔ لیجیے جناب بوریت یہ گئی وہ گئی۔ سب جاگ اٹھے، آنکھیں کھل گئیں، استاد پھر سے نظر آنے لگا۔ جوش و خروش اور گپ شپ۔

پسندیدہ سوال کے مختلف جواب۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
ممی کہتی ہیں، ڈاکٹر بنو، ویسے میرا جی تو چاہتا تھا کہ پینٹر بنوں۔
ابا کہتے ہیں بھوکے مرو گے، اگر ڈاکٹر نہ بنے تو۔
ڈیڈی کہتے ہیں، خاندان کی عزت اسی میں ہے۔
ممی کہتی ہیں، ٹیچری گھسا پٹا پیشہ ہے۔
بابا کہتے ہیں، پیسہ اہم ہے بہت اور ڈاکٹر بہت پیسے کماتے ہیں۔

امی کہتی ہیں، ڈاکٹر کو ہر وقت ہر جگہ نوکری مل جاتی ہے۔ اگر میں رائٹر بن گیا اور کتاب ہی نہ بکی تو کھاؤں گا کہاں سے؟
میرا جی چاہتا تھا سنگر بنوں مگر اماں ابا نہیں مانتے۔ کہتے ہیں جو سائنس نہیں پڑھتا، نالائق ہوتا ہے۔
ہنسی آتی ہے پہلے اور پھر اداسی۔ چلیں گھیرتے ہیں انہیں عزت، شوق اور دولت کی بحث میں۔

بیٹے، اگر مریض سے بات کرتے ہوئے مزاج کڑوا رہا، مریض کی کہانی سننے میں بوریت ہوئی، مریض کے جسم کو ہاتھ لگانے سے کراہت محسوس ہوئی، مریض کا علاج کرتے وقت غائب دماغ رہے، موت کے سفر پہ روانہ مریض کا ہاتھ نہ تھاما تو؟

دولت بھی کما لو گے، ماں باپ کی آرزوؤں پہ اپنی خواہش کو راکھ بنا دو گے لیکن کیا سچی خوشی حاصل کر سکو گے؟
وہ وقت جب تمہارا ہاتھ رنگوں سے کینوس پہ کھیلتا، وہ لمحہ جب سر تمہارے گلے میں آ کر بھگوان بن جاتے، وہ خوشی جو تمہیں میچ کھیل کر ملتی؟
چپ، خاموشی، سناٹا۔ وقت تھم جاتا ہے۔

پر کیا ہوا ایک دن، بازی الٹ گئی جب ایک تیز و طرار لڑکے نے یہی تیر ہماری طرف اچھال دیے۔ آپ کیوں بنیں ڈاکٹر؟

ابا نے کہا یا اماں نے؟ شوق یا پیسہ؟
بچوں کو کیا کیرئیر سجھایا؟ نوکری ملنی آسان اور بہت سا پیسہ؟
ڈاکٹر کے بچے ڈاکٹر؟
جواب تو ڈھونڈنا تھا۔ ایلس کو کھوئے ہوئے ونڈر لینڈ میں لوٹنا پڑا۔

ننھیال، ددھیال کے بزرگوں میں کوئی نام کو ڈاکٹر نہیں، آبائی پیشہ زراعت۔ پر ابا نکلے علم اور کتاب کے شیدائی، شہر کی طرف کی ہجرت اور بچوں کو پڑھانے کا شوق، چھ بچے۔

ابا کیا پڑھوں؟
جو مرضی۔
کیا مضمون لوں؟
جو دل کرے۔
کون سا شعبہ اچھا ہے؟

جس میں جانے کو دل کرے، زندگی تمہاری، اسے اپنے کندھوں پہ اٹھا کر چلنا ہے۔ ایسی بناؤ زندگی کہ پھولوں کا سا وزن ہو، تتلی کی طرح اڑتے پھرو۔ علم کے اصلی قدر دان ابا، بچوں کو اولین سبق سکھاتے ہوئے کہ وہ کرو جو من چاہے، پھر تن من کی بازی لگاؤ من کے پیچھے۔

یاد نہیں کہ کس عمر میں ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر بننا ہے۔ جب کہا تو ابا اماں کو کوئی اعتراض نہیں، انکار نامی لفظ ہی نہیں تھا شاید ہمارے چھوٹے سے گھر میں۔ بچپن کی اولین یادوں میں سے ایک یہ کہ گھر آنے والے ہر مہمان کو فخر سے کہتے کہ ہم ہیں مستقبل کے ڈاکٹر۔ اور وہ کتابیں تو بہت عرصہ ہماری اماں نے سنبھال رکھیں، جن پہ ننھے منے ہاتھوں نے شکستہ رسم الخط میں جگہ جگہ لکھا تھا۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی۔

یاد نہیں کہ اس فیصلے کی بنیاد شوق تھا یا خوشی یا ایک لڑکی ہونے کے ناتے اپنا آسمان خود تخلیق کرنا۔ لیکن ایک بات تب بھی تھی کہ پیسہ کمانے کی اندھی خواہش نہ اس وقت تھی نہ اب حالانکہ پدرم سلطان بود تو تھے نہیں۔

لیجیے ڈاکٹر بن گئے، ملنے شروع ہوئے دوست احباب کے مشورے۔ کلینک ایسی جگہ پہ کہ خوب چلے، ذاتی ہسپتال بھی برا نہیں۔ ان دنوں سپیشلائزیشن کی طرف کم کم رجحان تھا کہ کون اتنا لمبا کشٹ کاٹے، شارٹ کٹ لگاؤ، کلینک بناؤ، پیسہ کماؤ۔ یہ ہی رواج تھا۔ سب مشورے ایک کان سے سنے اور دوسرے سے باہر کہ من میں کچھ اور ہی تھا۔

شادی کے فوراً بعد جہاں گئے وہاں پاس میں ہی پرائیویٹ ہسپتال میں عارضی کام شروع کر دیا کہ فارغ رہنے کی عادت نہ تھی۔ مالکان کو کام اس قدر بھایا کہ ہسپتال میں پارٹنر شپ کی پیشکش آ گئی۔ پچیس سال عمر اور ایک ہسپتال کے مالکانہ حقوق۔ اللہ اللہ۔ سننے والوں کی رال ٹپک پڑی مگر ہم کہاں رکنے والے تھے، پیسہ آڑے نہیں آ سکتا تھا شوق اور خوشی کے راستے میں۔

پھر ایک طویل سفر شروع ہوا جس کا راستہ مختلف امتحانوں، رات کی ڈیوٹیوں، بے تحاشا پڑھائی، ریسرچ، تھیسس، کانفرنسوں اور ورکشاپوں سے ہو کے گزرتا تھا۔ ساتھ میں بچے اور گھر بھی۔ ہمہ وقت زندگی پنجوں کے بل گزر رہی تھی۔ تنخواہ اس قدر مختصر کہ ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟

سات سال کی جان توڑ محنت کے بعد ہمارے ہاتھ میں دو اعلی ڈگریاں اور گود میں دو بچے۔ خوشی سے نہال کہ خواب پورے ہوئے۔ پیسہ ابھی بھی خانہ خیال سے دور۔

ان دنوں ایک چھوٹے شہر میں رہائش تھی کہ ڈائریکٹر ہیلتھ کو سن گن ہوئی کہ ان کے علاقے میں ایک ایسی ڈاکٹر، اپنے شعبے کی اعلیٰ ترین ڈگری کے ساتھ ایک ہیلتھ سنٹر پہ میڈیکل افسر کے طور پہ بیٹھی ہے۔ پروانہ آیا ملنے کا، خوشخبری دی گئی کہ پورے ڈسٹرکٹ میں ایسی کوالیفیکیشن کسی کی نہیں سو اب بنایا جائے گا تمہیں ڈسٹرکٹ گائناکالوجسٹ۔

جیسے ڈسٹرکٹ میں ڈپٹی کمشنر کا راج ویسے ڈسٹرکٹ گائناکولوجسٹ کا تام جھام۔ سرکاری نوکری کے لوازمات بے شمار، پرائیویٹ پریکٹس بھی آسمان کو چھوتی ہوئی، پیسے کی بارش، الامان۔

عرض کی، مانا کہ بڑی کرسی پہ بیٹھنے کے قابل ہیں ہم اور چھپر پھاڑ کے آنے والی دولت کے بھی۔ لیکن پہلی بات تو یہ کہ ہیلتھ سنٹر میں کام کر نے کا اپنا مزہ، ہر روز بیسیوں عورتوں سے ملو، تلخ و شیریں کہانیاں سنو، مسائل کا حل ڈھونڈو۔ ایسی جگہ پہ رہنے اور زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع روز روز تو نہیں ملتا۔ مال کا کیا ہے زندگی پڑی ہے کمانے کو۔

ڈائریکٹر صاحب نے عجیب سی نظروں سے گھورا، سوچتے ہوں گے ذہنی طور پہ پسماندہ بے وقوف عورت، گھر آئی لکشمی ٹھکراتی ہے۔

پھر زندگی کا وہ دور ختم ہوا، سینئر ڈاکٹر کی کرسی پر جا بیٹھے۔ سرکاری تنخواہ مختصر، پر بات کرنے کا شوق باقی۔ کچھ وقت گزرا۔ یار لوگوں کے اکسانے پہ پرائیویٹ پریکٹس کا سوچا اور دل کڑا کر کے اس دلدل میں پاؤں رکھ ہی دیا۔ کچھ ہی مدت بعد معلوم ہوا کہ پرائیویٹ پریکٹس نامی آزار کو ہم نہیں بھائے اور ہم ان سے عاجز۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں مال بیچا اور خریدا جا تا ہے، بولی لگائی جاتی ہے، یہ اہل دل کی کہانی نہیں۔

بچے بڑے ہو رہے تھے اور ہم مزید بڑے۔ سب ساتھی ڈاکٹر اپنے بچوں کو میڈیکل کالج بھیجنے کی کوشش میں۔ ڈاکٹر کا بچہ ڈاکٹر، کچھ اور نہیں بننا۔ نوکری اچھی، رعب داب، پیسہ، عزت۔ دفع کرو آرٹ کالج کو۔ بچوں کو خواب دیکھنے کی اجازت ہی نہ ملی۔ ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، بننے کی راہ پہ سب بچے دھکیلے گئے۔

پر ہم نے وہ کیا جو ہمارے اماں ابا نے کیا۔ خواب دیکھو، اڑو، اور اپنا آسمان ڈھونڈو، دل میں جلتا دیا بجھنے نہ دو۔
جاگتی آنکھوں سپنے دیکھے، خود فیصلہ کیا کہ شوق کا تعاقب خوش رکھے گا یا دولت کا انبار۔ قہقہہ یا سسکی۔
وہی فیصلہ کودتا پھاندتا باہر نکل آیا جو ماں کا ہمراہی بنا تھا۔

باتوں باتوں میں چھوٹی بیٹی سے پوچھا، بیٹا رانی، شوق والا کیرئیر تو تم بنا لو گی لیکن پیسہ نہ کما سکی تو؟ جواب نے ماں کے رگ و پے میں سرخوشی دوڑا دی۔
مجھے زندہ رہنے کے لیے بہت کم چاہیے۔ برینڈز نہیں پہننے مجھے، مرضی کی زندگی گزارنی ہے۔

آخری بات۔ مال و متاع کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں، زندگی کے ساتھ ساتھ سب ضروریات، لیکن چاہیے اتنا ہی جو زمین پہ رہنے والوں سے جدا نہ کرے، نمرود و فرعون نہ بنائے۔

جان لو کہ ہر وہ کام جس میں شوق اور خلوص دل شامل ہو، خوشی تو ملے گی، پیسہ بھی بائی پروڈکٹ کے طور پہ پیچھے پیچھے۔ سو ماں باپ اگر بچوں کے دل کی مان لیں، اپنے ادھورے خوابوں کے پیچھے بچوں کو نہ دوڑائیں تو بچوں کے لیے جینا سہل، زندگی کے نئے رنگ۔
کیا جگر کے ٹکڑوں کے لیے یہ نقصان کا سودا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author