محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں ہر سال کی ابتدا میں نیوائیر ریزولیوشن ضرور بنانا چاہیے۔ سال میں جو کرنے والے کام ہیں، ان کے حوالے سے عہد کیا جائے اور اپنی طرف سے عمل درآمد کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا کہ نئے سال میں دیکھیں کہ زندگی کے اہم ترین چار پانچ شعبوں میں کیا بہتر ہوسکتا ہے؟ کیرئر ، صحت اور ریلیشن شپ یعنی تعلقات(بیوی بچوں، خاندان)پر بات ہوچکی۔ آج دو مزید اہم شعبوں پر بات کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک دوست یا سماجی تعلقات ہیںجبکہ دوسرا اپنی اصل یعنی اخروی زندگی کے لئے تیاری کے حوالے سے ہے۔ جدید لائف سٹائل نے ایک ظلم یہ کیا ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگوں کو داخلیت پسند (Introvert) بنا دیا ہے حالانکہ ان میں سے بہت سے ایکسٹروورٹ Extrovertتھے، باہر گھومنے پھرنے، دوستوں سے گپ شپ کے لئے وقت نکالنے کے عادی۔ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کے کئی گھنٹے روزانہ کھا جاتا ہے اور وہ وقت جو دوستوں کے ساتھ گزارا جاتا تھا، اب اسی میں گزر جاتا ہے۔ اس کا حل نکالنا چاہیے ، یہ مگر آسان نہیں۔ ہم فیس بک ، واٹس ایپ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کل کو ان ایپ پر آنے کی کوئی قیمت رکھ دی جائے تو شائد وہ بھی ادا کر دیں گے۔ آئے دن سوشل میڈیا پر لوگوں کو یہ اعلان کرتے دیکھتا ہوں کہ آج سے فیس بک چھوڑ رہے ہیں یا ٹوئٹر استعمال نہیں کریں گے، چند ہفتوں بعد وہ سب ایک شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ویسے سوشل میڈیا کی اپنی افادیت بھی ہے۔ اس نے دورافتادہ جگہ پر رہنے والوں کو مین سٹریم شہروں بلکہ بیرون ملک موجود بے شمار لوگوں سے جوڑ دیا ہے۔ اپنی پسند کے، ہم مزاج لوگوں سے آپ رابطے میں رہتے اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ لکھنے والوں کے لئے سوشل میڈیا بہت اہم ہے کہ آپ کی تحریر پر مختلف حلقوں کا ردعمل مل جاتا ہے۔ سوشل میڈیا سے دور رہنا ممکن نہیں، ا س کے استعمال میں البتہ توازن کی کوشش کی جائے۔ اس کے لئے مختلف طریقے استعمال کرنے چاہئیں۔ میں ذاتی طور پر اب ہر فضول ، لایعنی ، غیر ضروری احتجاجی ، پنگے والی پوسٹ لکھنے والے کو ان فالو کر دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے فیس بک آئندہ اس کی تحریریں مجھے نہیں دکھاتا، زندگی پرسکون ہوجاتی ہے۔ہم چند ایک تحریریں ہی پڑھ پاتے ہیں تو ان کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔نئے سال میں آپ اس طرف توجہ دیں۔اپنی انرجی بچائیں ۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے فیملی کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ گھروں میں بھی سوشل میڈیا پرجتے رہتے ہیں۔ بیویوں کو اکثر یہ شکوہ رہتا ہے۔ اس حوالے سے اصول طے کر لینے چاہئیں۔ گھر والوں کو وقت دینا بہت اہم ہے۔اپنے دوستوں کو بھی نہ بھولیں۔ زندگی کی تیز رفتار اور سوشل میڈیا کے چکر میں آپ اپنے مخلص دوستوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ کئی کئی ماہ ملاقات نہیں ہو پاتی۔ ایک دوست نے یہ مشکل بیان کی اور پھر خود ہی اس کا حل بھی تجویز کیا۔ کہنے لگے کہ میں ہر روز کم از کم ایک اور ہو سکے تو دو دوستوں کو فون کرتا ہوں۔ یہ بات چونکہ پلان کر رکھی ہے، اپنی روزانہ کے کام والی فہرست (Things to do)میں ڈال رکھی ہے تو عمل درآمد ہوجاتا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی دوست سے بات ہوجاتی ہے ، یوں ہفتے دس دنوں میں ہر ایک سے اِن ٹچ رہتا ہوں۔ بعض لوگوں نے سوشل میڈیا ہی پر ا س کا حل نکال لیا ۔چند قریبی دوستوں پر مشتمل واٹس ایپ گروپ بنا دیا اور وہاں گپ شپ کرتے رہے۔ ایک پابندی لگا دیتے ہیں کہ مارننگ میسج، رسمی میسج یا کوئی باہر کا لنک نہیں لگانا۔ اس طرح جینوئن گپ لگ جاتی ہے۔طریقہ جو بھی استعمال کریں، مگر فوکس یہی رہے کہ اپنے دوست احباب سے رابطے ٹوٹنے نہ پائیں۔ ایک اور اہم کام اپنی معمول کی زندگی میں رہتے اور دنیاوی کام نمٹاتے ہوئے آخرت کا خیال دل میں رکھنا اور اس کے لئے اپنی ہمت کے مطابق تیاری کرتے رہنا۔ یہ بات کہنے میں آسان مگر ہے بہت مشکل۔ زندگی کا سفر کچھ ایسا ڈرامائی پیچ وخم اور نشیب وفراز والا ہے کہ آپ اپنے سرواوئیل ہی میں الجھے رہتے ہیں۔ روزانہ کی ڈیڈ لائن پوری کرتے دن رات ، ہفتے ، مہینے گزر جاتے ہیں۔ اگلا سال سر پر آ جاتا ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوگا، اگر ہم نے، آپ سب نے اچھا سا پلان نہ بنایا۔ اس حوالے سے دو تین چیزیں سمجھ آتی ہیں۔ اپنا کام ایمانداری اور فرض شناسی سے کیا جائے تو ملازمت یا کاروبار میں گزرے آٹھ دس بارہ گھنٹے عبادت میں شمار ہوں گے۔ اپنی آمدنی سے ایک مخصوص رقم نہایت باقاعدگی اور پابندی سے الگ کر لیں۔آسان طریقہ یہ کہ اپنی آمدنی کا دس فیصد الگ کر کے چیریٹی میں دیا کریں۔ نوے فیصد تنخواہ یا آمدنی میں گزارا کریں۔اگر دس فیصد زیادہ لگ رہا ہے تو پانچ فیصد کر لیں، تین، دو یا ایک فیصد ہی کر لیں، مگر کریں ضرور۔ معروف سماجی تنظیم اخوت نے قرض لینے والوں کو ترغیب دی کہ روز کسی فقیر یا پروفیشنل بھک منگے کوپانچ دس روپے دینے کے بجائے ایک گلک یا منی باکس میں اسے ڈال دیا کریں، مہینے بعد چند سو بن جائیں گے، انہیں اخوت کو عطیہ کر دیں یا کسی اور اچھے کام میں لگا لیں۔ یہ آئیڈیا برا نہیں، گھروں میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ سڑک کے سگنل پر کھڑے پیشہ ور بھکاریوں پر پیسے ضائع کرنے کے بجائے انہیں جمع کرتے رہیں اور کسی سفید پوش کو تھوڑا بہت راشن لے کر دے دیں۔ ہر محلے، علاقہ میں ایسے بہت سفید پوش ہیں جن کے پاس کچھ نہیں مگر وہ ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ہمارے ایک دوست کا طریقہ ہے کہ وہ اپنے گھر کام کرنے والے ڈرائیور یا ملازمہ کو مہینے میں ایک دو بار بازار سے گوشت وغیرہ لے کربطور ہدیہ (تحفہ)دے دیتے ہیں ، سردیوں میں وہ مچھلی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل اچھے بھلے سفید پوش بھی گوشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، انہیں بطور تحفہ گوشت یا گوشت کا پکا ہوا سالن بھجوا دیں تو وہ ایک وقت کا کھانا اچھا کھا لیں گے۔ اللہ کے نیک بندے ایک نصیحت ہمیشہ کرتے ہیں کہ خلق خدا کی زندگی میں آسانی لے آئو۔ اس کے لئے باقاعدہ سوچا اور پلان کیا کریں۔ اگر ایکسٹرا پیسے نہیں بچتے تو کوئی چھوٹی موٹی کمیٹی ڈال لیں، دو تین ہزار سے پانچ ہزار ماہانہ کی کمیٹی سے تیس چالیس، پچاس ہزار تک ملیں گے، انہیں چیریٹی میں خرچ کریں۔بہت سے لوگ کچھ کام کرنا چاہتے ہیں، اتنے پیسے ہی نہیں کہ سٹارٹ لے سکیں۔ان کی مدد کریں۔ کسی کو آن لائن کورس کرا دیں، اسے مناسب سے لیپ ٹاپ دلوا دیں تو ممکن ہے وہ ویڈیوایڈیٹنگ وغیرہ کے ذریعے مناسب کما سکے۔ صوفیانماز کی پابندی اورقرآن پاک کی تلاوت پر خاص زور دیتے ہیں۔ کسی وظیفے کے انداز میں پڑھنے کے بجائے الحمد سے الناس یعنی پورا قرآن پڑھیں۔ترجمہ سے پڑھ سکیں تو بہت اچھاہے، صرف تلاوت بھی افادیت سے خالی نہیں۔اس کے ساتھ کچھ ذکر ازکار بھی شروع کریں۔ درود پاک کی ایک تسبیح اپنے روزانہ کے معمولات میں شامل کریں، سبحان اللہ بحمدہ سبحان اللہ العظیم ، تیسرا کلمہ، استغفار وغیرہ باقاعدگی سے پڑھیں۔ ملازمت یا کام کی جگہ پر جاتے ہوئے پڑھنا آسان ہے ، بڑے شہروںمیں پندرہ بیس منٹ کی مسافت عام ہے، اس میں ایک دو تسبیحات پڑھی جا سکتی ہیں۔تجربہ کر کے دیکھیں، عادت بن جائے گی اور سفرباعث اجر بھی ہوگا۔ قرآن پاک کی تلاوت اور درود پاک کے ورد کرنے والے کئی گروپ فیس بک، واٹس ایپ پر ہیں، ان کے ساتھ جڑ جائیں، تھوڑا بہت وقت نیکی کے لئے نکل ہی آئے گا۔ اچھی صحبت ہو تو دل بھی نیکی کی طرف غالب رہتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کی مرحومہ والدہ کا طریقہ تھا کہ رات کو سونے سے پہلے باقاعدہ اپنے پورے دن کا محاسبہ کیا کرتیں اورتجزیہ کرتیں کہ آج دن بھر میں کیا نیکی کی ۔کھاتا کم ہوتا تو اگلے روز کچھ اہتمام کے ساتھ اچھا کرنے کی کوشش کرتیں۔ یہ سب ہرگز آسان نہیں ۔ آپ عہد کریں، چند دنوں میں بھول بھال سکتے ہیں۔ اس لئے اس پر فوکس کر کے انہیں اپنی مستقل عادات کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ اس سال کے عہد پختگی اور استقامت سے پورے کرنے کی پلاننگ اور حکمت عملی بنائیں۔ اچھی سوچ اور اس پر عمل درآمد کی کوشش اور پلاننگ کا بھی اپنا اجر ہے۔ لگے رہیں، ڈٹے رہیں، رب سے مدد اور توفیق مانگیں۔ ان شااللہ سال کے آخر میں بہت کچھ نیا اور عمدہ آپ کی زندگی میں شامل ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر