مئی 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پٹرول 500 روپے لیٹر، بجلی 100 روپے یونٹ۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے تو دوسری طرف آٹے کا بحران ہے اور سرکاری سیل پوائنٹس پر لمبی قطاریں ہیں۔ میر پور خاص سندھ میں ایک مزدور جاں بحق ہو چکا ، بلوچستان میں کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں، دوسری طرف حکمران جماعت پیپلز پارٹی وسیب کے صدر اورسابق گورنر مخدوم احمد محمود نے اپنی جماعت کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں تجویز دی ہے کہ پٹرول کی قیمت 500 روپے لیٹر اور بجلی 100 روپے یونٹ کر دی جائے۔ اُن کے اس بیان سے ملک کے بے حال غریب عوام کے زخموں پر نہ صرف نمک پاشی ہوئی ہے بلکہ مخدوم صاحب کے اس بیان نے غریبوں کے مصائب کی جلتی آگ پر پٹرول کا کام کیا ہے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو یہ علم نہیں کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا مقصد صرف پٹرول اور بجلی مہنگی ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس سے اشیاء ضرورت کی ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مخدوم صاحب کہتے ہیں کہ بہت عیاشیاں کر لیں، اب قربانی دینا چاہئے۔ نہ جانے غریبوں نے کون سی عیاشیاں کر لی ہیں، کیا قربانی صرف غریبوں نے دینی ہے؟ ۔ کیا مخادیم اور وزیروں ،مشیروں کا کام صرف قربانیاں لینا ہے؟ ، حالانکہ فارسی مقولہ ہے کہ ’’ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد‘‘۔ مہنگائی کا طوفان تھمنے میں نہیں آرہا، درسی کتب کی قیمتوں میں بھی 80 فیصد اضافہ کر دیاگیا ہے، غریب کہاں جائے؟ ایک طرف مہنگائی کا عذاب دوسری طرف دہشت گردی نے بھی عوام کو پریشان کر رکھا ہے، ہر آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں، لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں اچھے دن کب آئیں گے؟ ۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے الزام لگایا ہے کہ خیبر پختونخوا میں طالبان کو پیسہ دیا جارہا ہے، یہ الزام حساس نوعیت کا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے، دہشت گردی کی نئی لہر سے نئے خدشات جنم لے رہے ہیں، پچھلے ماہ کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی دہشت گردی کو ختم کرنے کا عزم کیا گیا اور چند دن پہلے قومی سلامتی کمیٹی نے بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی منظوری دی ہے۔ کتنے ظلم کی بات ہے کہ خیبرپختونخوا کے اضلاع ٹانک ، ڈی آئی خان میں بدترین سیلاب آیا ، خیبرپختونخواہ حکومت نے سیلاب متاثرین کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ ان الزامات کے بارے میں عمران خان کو جواب دینا چاہئے ، یہ قومی سلامتی کے حوالے سے معمولی الزامات نہیں ہیں۔ سیاسی مخالفین عمران خان کو طالبان خان کے نام سے بھی پکارتے آ رہے ہیں، اب بہت ضروری ہو گیا ہے کہ عمران خان اس بارے اپنا موقف واضح کریں کہ خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے پنجاب حکومت نے بھی وسیب کے سیلاب متاثرین کیلئے کچھ نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے پچھلے دنوں کہا کہ وفاقی حکومت کو سیلاب متاثرین کیلئے بھاری فنڈ ملا ہے مگر صوبائی حکومت کو اس کا حصہ نہیں دیا گیا۔ وفاقی حکومت کی بے توجہی اور غفلت اپنی جگہ قابل مذمت ہے مگر پنجاب حکومت نے گجرات میں قریباً ڈیڑھ سو ارب کے ترقیاتی منصوبے دے دئیے جبکہ سیلاب سے متاثرین اضلاع کیلئے صرف بارہ ارب کا اعلان ہوا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آنے والا یہ سیلاب ملکی تاریخ کا بہت بڑا سیلاب تھا ، آج تک سیلاب متاثرین مشکل میں ہیں، اقوام متحدہ سے لے کر شرم الشیخ تک پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ پاکسان سیلاب میں ڈوب گیا،کہیں مثال نہیں ہے کہ ایک تہائی ملک ڈوب گیا، وسیب ، سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں اب بھی پانی موجود ہے، جہاں سے پانی نکل چکا ہے وہاں پر تباہی کا خوفناک منظر ہے ، زراعت سمیت ہر شعبے میں بحران پیدا ہوچکا ہے، صحت کا انفرا اسٹرکچر بری طرح تباہ ہوا ہے، صرف وسیب میں ہی نہیں بلکہ سندھ اور بلوچستان میں بھی تعلیمی نقصان ہوا ہے۔ وسیب کی صورتحال پر توجہ کریں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے ترقیاتی کاموں میں وسیب کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ سول سیکرٹریٹ وسیب کیلئے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنا ہوا ہے کہ وسیب کے ترقیاتی فنڈز سیکرٹریٹ افسران کے اخراجات پر خرچ ہو رہے ہیں۔ سول سیکرٹریٹ کے پاس نہ تو فنڈز ہیں نہ اخراجات، سیکرٹریٹ دو حصوں میں تقسیم ہونے کے باعث وسیب کے لوگ تین جگہوں پر شٹل کاک بن کر رہ گئے ہیں۔ سائل اپنے کاموں کیلئے ملتان، بہاولپور کے چکر لگاتے ہیں اور آخر کا اُن کو کام کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ ملتان کارڈیالوجی فیز ٹو، خان پور کیڈٹ کالج اور ملتان انجینئرنگ یونیورسٹی کے منصوبے دس سال سے زیر التواء چلے آرہے ہیں مگر وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے گجرات کیلئے نئی انجینئرنگ یونیورسٹی کا اعلان کرکے آٹھ ارب روپے جاری بھی کر دیئے ہیں، گجرات یونیورسٹی پر اعتراض نہیں مگر وسیب کو محروم نہ رکھا جائے،پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ وسیب کیلئے 33 فیصد بجٹ اور 25 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ الگ رہے گا مگر یہ فیصلہ بھی نقش برآب ثابت ہوا ہے۔ وسیب میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل آج تک حل نہیں ہوئے، یہ ظلم بھی دیکھئے کہ رحیم یار خان میں پر اسرار بیماری سے 12 افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور مزید 9 افراد مو ت و حیات کی کشمش میں مبتلا ہیں،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو احساس نہیں ہوا تاہم عالمی ادارہ صحت کو جب اس کی اطلاع ملی تو وہاں سے ایک ٹیم رحیم یار خان پہنچ چکی ہے۔ ساتویں مردم شماری کا بھی آغاز ہو چکا ہے، وسیب کے لوگوں کو اس پر تحفظات ہیں ، گزشتہ مردم شماری کا اربوں روپیہ ضائع ہوا کہ مختلف صوبوں کے اعتراضات کے باعث اس کے نتائج ہی انائونس نہ ہوئے۔ اب اس طرح کے شفاف اقدامات کئے جائیں کہ کسی کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ بار دیگر عرض ہے کہ وسیب کے سیلاب متاثرین کی آج تک بحالی نہیں ہو سکی، متاثرین آج بھی کھلے آسمان کی چھت کے نیچے سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث وسیب کے مزید لاکھوں افراد خط غربت سے مزید نیچے چلے گئے ہیں، کم از کم اس مسئلے پر انسانی ہمدردی کے طور پر ہی غور کر لیا جائے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: