نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آٹے کا بحران ،مہنگائی کا طوفان۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے، آٹے کے بحران اور قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے، ظلم یہ ہے کہ نہ تو وزیر اعظم ذمہ داری لینے پر تیار ہیں اور نہ ہی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے غریب عوام کو مہنگائی سے بچانے کیلئے کوئی اقدامات کئے ہیں۔ روزنامہ 92 نیوز کے مطابق فلور ملز کی جانب سے گندم کی پسائی کم اور سبسڈائز آٹے کی بجائے 15 کلو کا پرائیویٹ آٹا تیار کر کے بھاری منافع کمایا جا رہا ہے، فلور ملز کا عملہ رشوت لے کر ان دکانداروں کو آٹا دیتا ہے جہاں سے رقم ملتی ہے، تمام لائسنس ہولڈر دکانداروں کو آٹا نہیں دیا جاتا،جس کی وجہ سے آٹے کا بحران پیدا ہوا ہے، سبسڈائز آٹے کی سپلائی چکیوں کو دینے کا بھی انکشاف ہوا ہے اس آٹے کو چکی آٹا میں مکس کر کے 150 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس وقت پنجاب میں گندم کی قیمت 5 ہزار روپے فی من سے زائد ہو چکی ہے جبکہ کہا جا رہا ہے کہ یہ 6 ہزار روپے تک چلی جائے گی، اس صورت میں کم آمدنی والے غریب کا کیا بنے گا؟ آٹے کے بحران اور مہنگائی کے طوفان کو روکنا ہوگا ورنہ آج ہلکا پھلکا احتجاج کا سلسلہ وسیع ہو سکتا ہے۔ آٹے کا بحران کیا ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ان عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ سستے آٹے کے نام پر جتنے بھی ریلیف دیئے جا رہے ہیں وہ سب غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ہیں جو کہ بالواسطہ طاقتور بیورو کریسی اور ارب پتی صنعت کاروں و سرمایہ داروں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ آٹے کا بحران ان سرمایہ دار مل مالکان کا پیدا کردہ ہے جن کو غریب عوام کا ’’خون چوسنے کے صلے‘‘ میں حکومت کی طرف سے سبسڈی اور ریلیف پیکیجز دیئے جاتے ہیں۔ بحران کی اصل وجہ دولت کی ہوس اور زیادہ سے زیادہ منافع کا لالچ ہے۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ فلور مل مالکان جو گندم ملے اس تمام کا ایک ہی طرح کا آٹا بنائیں مگر فلور مل مالکان اسی گندم سے میدہ اور سوجی بھی نکالتے ہیں اور سفید آٹا بھی بناتے ہیں۔ باقی پیچھے جو کچھ بچتا ہے وہ مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں مگر ستم یہ ہے کہ آٹے کے تمام خواص نکالنے کے باوجود جو ’’پھوگ‘‘ باقی بچ جاتا ہے‘ وہ بھی غریبوں کو نہیں مل رہا۔ فلور مل مالکان نے فوڈ انسپکٹروں سے مبینہ ملی بھگت کر کے اندھیر نگری چوپٹ راج قائم کرتے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کی دھجیاں بکھیر ی ہوئی ہیں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ گزشتہ روز سرائیکی جماعتوں کے اجلاس میں کہا گیا کہ وسیب سے 18 سو روپے فی من خرید کی گئی گندم وسیب کے لوگوں کو 5 سے 6 ہزار روپے فی من تک فروخت کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں میں وسیب کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے ، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے دوسری طرف وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج بھرتی کر رکھی ہے، وزیر خارجہ سمیت وزیروں مشیروں کے غیر ترقیاتی اخراجات کا حساب کون دے گا؟۔ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود گزشتہ مردم شماری کے نتائج کو بوگس قرار دے کر نتائج انائونس نہ کئے گئے ، اب پھر مردم شماری ہو گئی ہے ، وسیب کے لوگ بوگس نتائج تسلیم نہیں کریں گے، اجلاس میں وسیب کے سیلاب متاثرین کو ریلیف نہ دینے کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ سیلاب کے بعد مزید لاکھوں افراد خط غربت سے مزید نیچے چلے گئے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ رحیم یار خان میں پراسرار بیماری سے ایک ہی خاندان کے 12 افراد فوت اور مزید 9 افراد موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں مگر حکمرانوں کو پرواہ نہیں، وسیب کے لوگ مر رہے ہیں حکمران اور سیاستدان اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ حکمران اپنے وعدے کے مطابق صوبہ بنائیں۔ بات ہو رہی تھی آٹے بحران کی، فلور مل مالکان غیر معیاری آٹا تیار کر کے مارکیٹوں میں فروخت کر رہے ہیں جبکہ ملوں پر تعینات محکمہ فوڈ کے انسپکٹرز اپنی جیبیں گرم کر کے افسران کو سب اچھا کی رپورٹ دے کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ محکمہ فوڈ کے رولز کے برعکس مل مالکان راتو رات امیر ہونے کے چکر میں سرکاری کوٹہ پر ملنے والی گندم پر محکمہ فوڈ کے رولز کے برعکس گندم میں مکئی اور نکو ڈال کر اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ فلور ملز کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ پاکستان کے غریب لوگ ستائے ہوئے ضرور ہیں مگر بیوقوف نہیں۔ فلور ملز مالکان سے سوال ہے کہ جس سفید آٹے کو ’’فائن آٹا‘‘ کا نام دے کر مہنگا بیچا جاتا ہے ، کیا یہ اسی گندم کا نہیں جو آپ 18سو روپے فی من کے حساب سے لیتے خرید کرتے ہیں؟ اور بچ جانے والے روٹی کے ٹکڑے اور خراب گندم تک شامل کر دی جاتی ہے۔انسپکٹر فوڈ سے لیکر ڈی جی فوڈ تک سب فلور مل مالکان سے ملے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی ملی بھگت اور چشم پوشی سے ہی غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں خوراک کی کوئی کمی نہیں۔ 2022ء میں سیلاب آیا، وسیب کے بہت سے اضلاع متاثر ہوئے، اس سیلاب میں سرکاری گوداموں میں پڑی لاکھوں ٹن گندم ضائع ہوئی اور جب سیلاب کا پانی خشک ہوا تو اس کے تعفن سے بیماریاں پھیلیں اور حکومت نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے خراب ہونے والی گندم کے گودام صاف کرائے، ظلم یہ ہے کہ حکومت نے گندم ضائع کر دی غریبوں کو نہ دی، اس جرم کا کون حساب دیگا؟اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سرائیکی وسیب زرخیز ترین خطہ ہے، ملک کی مجموعی زرعی پیداوار کا 70 فیصد وسیب پیدا کرتا ہے، آج کا سوال یہ ہے کہ وسیب میں گندم موجود ہوتی ہے مگر غریبوں کے پیٹ خالی کیوں ہوتے ہیں؟ ۔ایک طرف آٹے کا بحران ہے تو دوسری طرف آئے روز مہنگائی نے عوام کا جینا حرام دشوار کر دیا ہے ،مہنگائی کی شرح میں اضافہ 30.60فیصد تک پہنچ چکا ہے ۔ وفاقی ادارہ شماریات کی تازہ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق 23 اشیائے ضروریہ مہنگی ہوئی ہیں۔ اگر انسان کو روٹی میسر نہیں تو ہر نظام ، ملک ، مذہب، قوم اور تہذیب کوئی معنی نہیں رکھتا ، پاکستان میں جس حساب سے بیروزگاری اورمہنگائی بڑھ رہی ہے اس سے روٹی کا سوال پیدا ہو گیا ہے، یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ حکمرانوں کو وقت سے پہلے آنکھیں کھول لینی چاہئیں ۔

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author