نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1938 کا دور تھا سر شاہنواز خان بھٹو بمبئی میں وزیر تھے ایک دن برطانوی راج کے گورنر لارڈ برابورن نے سر شاہنواز خان بھٹو کو اپنے صاحبزادوں کے ہمراہ مدعو کیا، سکندر علی خان بھٹو سب سے بڑے صاحبزادہ تھے۔
گورنر لارڈ برابورن نے سکندر علی بھٹو سے مصافحہ کرتے وقت کہا سر شاہنواز خان آپ کا صاحبزادہ بہت خوبصورت نوجوان ہے ،جواب میں سکندر علی خان بھٹو نے کہا ہمارے گورنر صاحب بھی خوبصورت ہیں، اس دوران قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جس کی عمر 8 سال تھی کہنے لگے کہ گورنر صاحب اس لیئے خوبصورت ہیں کیونکہ انہوں نے ہمارے خوبصورت ملک کا خون چوسا ہے۔ کہا جاتا ہے گورنر لارڈ برابورن کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بولنے لگے سر شاہنواز خان آپ کا یہ بیٹا شاعر اور انقلابی ہوگا ۔
40 سال قبل جب بھٹو اسٹیٹ کے ہاریوں سے ملاقات ہوئی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب جب چھوٹی عمر میں اپنے والد کے ساتھ زمینوں پر آتے تو ہمارے ہاتھ دیکھ کر بہت دکھی ہوجاتے اور کہتے کہ اتنی محنت کے باوجود آپ کو اس کا معاوضہ نہیں ملتا جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو آپ کو زمین کا مالک بناؤں گا ، ان کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب جب بھی آتے ہمارے بچوں کے لیے چیزیں لیکر آتے ویسے بھی سر شاہنواز خان بھٹو ہمارا بہت جیال رکھتے تھے۔
اگر ضرورت کے وقت اسٹیٹ کے مینیجر سے قرضے لیتے تو فصل کی تقسیم سے قبل سر شاہنواز خان ہمارے قرضے معاف کر دیتے تھے ،یہ واحد خاندان تھا جس نے ہمارے بچوں کی تعلیم کیلئے مدرسے بنائے ،صحت کیلئے مفت صحت خانے قائم کیئے جو اس زمانے میں انسانوں کی بہت بڑی خدمت تھی، آکسفورڈ یونیورسٹی میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے کلاس فیلو اور قریبی دوست پیلو مودی جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں کا تعلق ہندوستان سے تھا کا کہنا ہے کہ میں نے بھٹو صاحب کو قریب سے دیکھا وہ آزادی پسند تھے وہ دنیا بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے بہت بڑے حامی اور طرفدار تھے، جب کبھی مذاق میں انہیں چھیڑتے تو وہ ایک دم جذباتی ہو جاتے اور کہتے کہ غلامی سے نجات ان لوگوں کا حق ہے جب مجھے موقع ملا تو میں ان کی آواز میں آواز بلند کروں گا ۔ پیلو مودی کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو قائد اعظم کے بہت بڑے حامی تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا ملک آزاد ہوگا۔ حقیقت بھی یہ ہی کہ قائد عوام بھٹو شہید دنیا پر طاقت کے بل بوطے پر قبضہ کرنے والوں کے صرف مخالف ہی نہیں سخت نفرت کرتے تھے۔
قدرت نے انہیں سر انگیز شخصیت سے نوازا تھا وہ تاریخ کے طالب علم بننے کے بعد تاریخ ساز بن چکے تھے ۔ ایک بات کرکے انہوں نے دنیا بھر کے دانشوروں کو حیران کر دیا تھا کہ جس گھر کی چھت بارش سے ٹپکتی ہے اس گھر میں میری روح موجود ہوتی ہے ۔ معروف صحافی اور دانشور سید عباس اطہر کا ماننا تھا کہ بھٹو ایک آسمانی راز ہے ، حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ بھٹو شہید نے اقتدار کی سیاست کو عوام کے قدموں میں لاکر کھڑا کردیا تھا ۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے جہاں مشرق وسطہ کے ممالک کو تیل کی افادیت کی اہمیت کا شعور دینا وہاں اپنے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی ٹھان لی انہوں نے گھاس کھا کر بھی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا تہیہ کر رکھا تھا، مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اقتدار کے لالچی ٹولے نے اغیار کے ٹٹو بن کر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو تختہ دار پر لے گئے اور باور کرایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں گھاس نہیں اگتی ۔
ہم 5 جنوری کو اس شاعر اور انقلابی کی سالگرہ منا رہے ہیں جو عدلیہ کے ہاتھوں قتل ہوا ،انہوں نے تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے فوج کے ہاتھوں مرنا پسند کیا۔ آج ان کا مزار صاحب مراد ہے مرنے کے بعد بھی زندہ ہے ان کے آخری آرام گاہ سے جمہوریت کا سورج خون کی لالی لیکر طلوع ہوتا ہے۔
۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر