ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز یوم کشمیر پاکستان کے علاوہ آزاد کشمیر ، مقبوضہ جموں وکشمیر میں منایا گیا، ملک بھر میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ریلیاں نکالی گئیں، کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنمائوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ 75 سال بیت گئے کشمیری آج بھی مشکلات کا شکار ہیں، ایک لحاظ سے ان کی نسل کشی بھی ہو رہی ہے ، عالمی اداروں خصوصاً اقوام متحدہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ یہ اس کی ذمہ داری اور فرائض میں بھی شامل ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 5جنوری 1949 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک تاریخی قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کیساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔ تصفیہ طلب مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کی 5 جنوری 1949 ء کی قرارداد اس تنازعہ کے حل کی بنیاد فراہم کرتی ہے لیکن بھارت کا ہٹ دھرمی کا رویہ گزشتہ سات دہائیوں سے اس تنازعہ کے حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے عالمی ادارہ اقوام متحدہ کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام مسلسل مصائب و مشکلات کا شکار ہیں،کشمیری حق خود ارادیت کے لئے عرصہ 75 سال سے جدو جہد کر رہے ہیں ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 74سال قبل کیے گئے وعدوں کو پورا کرے اور کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کرے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس خان نے مسئلہ کشمیر کو لاکھوں کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تنازے کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ مظفر آباد میں برطانوی ہائو س آف لارڈز کے اراکین، برطانوی اور یورپی اراکین پارلیمنٹ کے نمائندوں پر مشتمل وفد سے ملاقات کے دوران وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ دنیا مقبوضہ کشمیر میں جاری خونریزی اور تشدد کو سنگ دلی سے دیکھ رہی ہے اور بھارتی حکومت کے خلاف کوئی ایسی کارروائی نہیں کی جا رہی جو بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کا قتل عام کرنے سے باز رکھے۔ کشمیریوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، سردار تنویر الیاس نے سوال کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا؟۔ یہ بدقسمتی ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے، اقوام متحدہ کشمیر میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے جو وہاں کی صورتحال کا جائزہ لے۔کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اپنا کردار ادا کریں اور بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ کشمیر کے پس منظر پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست جس کا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے، 1947ء کے بعد ریاست جموں کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت بھارت 39102 مربع میل پر قابض ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر کہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت سری نگر ہے،بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو کہ 25 ہزار مربع میل رقبہ پر پھیلا ہو اہے ا س کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے جس میں سے 25 لاکھ آزاد کشمیر میں ہے۔ ہندو راجائوں نے تقریباً چار ہزار سال تک اس علاقہ پر حکومت کی۔ 1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجہ گلاب سنگ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، ہندو راجہ نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنائے رکھا، تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا، اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہو گیا۔ سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949ء کو جنگ بندی ہو ئی، سلامتی کونسل نے 1948ء میں منظور شدہ دو قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کروانے کیلئے کہا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کر لیا مگر بعد ازاں اس سے منحرف ہو گیا۔ پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقہ میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کر دی۔ کشمیر کا تنازعہ اب تک جاری ہے، پاکستان مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کیلئے کوشاں جبکہ بھارت ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹیں پیدا کرتا آ رہا ہے، جسے عالمی برادری کو حل کرانا چاہئے۔ جموں اور کشمیر کا علاقہ پہاڑوں اور خوبصورت وادیوں پر مشتمل ہے، یہ جنت نظیر وادی سیاحوں کی کشش کا باعث ہے، مسئلہ کشمیر دراصل انگریز وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن اور سیکولر ازم کی علمبردار انڈین نیشنل کانگریس کی ملی بھگت کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس منافقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ریاست جو نا گڑھ کے مسلمان نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، مائونٹ بیٹن اور نہرو نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جونا گڑھ کی آبادی میں ہندو اکثریت ہے۔ قائد اعظم نے شیخ عبداللہ سے کہا تھا کہ میرا کانگریس سے تمام عمر واسطہ رہا ہے، میں ان کی ذہنیت جانتا ہوں ، یہ تمہیں دھوکہ دیں گے،شیخ عبداللہ نے قائداعظم سے کہا کہ جس طرح کانگریس ہندوستان میں مسلمانوں کو دھوکہ دے رہی ہے میں کشمیر میں ہندوئوں کو دھوکہ دے رہا ہوں۔ 17 جون 1944ء کو قائداعظم نے سرینگر کی جامع مسجد سے متصل مسلم پارک میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ عبداللہ کی منافقت کو بے نقاب کر دیا۔ کشمیر کی تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کشمیر امن کی وادی تھی اور یہ وادی اُس وقت بد امنی کا شکار ہوئی جب 1818ء میں سکھوں نے اس پر حملہ کر کے اسے اپنے ماتحت کر لیا، پھر ایک پوری تاریخ ہے کہ جنت نظیر وادی مختلف سکھ حکمرانوں کے ماتحت آتی رہی ، آخری سکھ حکمران نے مسلم اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کیا جس کے باعث آج تک یہ خطہ ظلم و بربریت کا شکار چلا آ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر