ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل مجھے دو کی بجائے کسی کام کی انجام دہی کو جلد یونیورسٹی پہنچنا تھا۔ جلد تیار ہوا مگر جانے سے پہلے جس نے تاکید کی اسے فون کر لیا۔ بولے پندرہ منٹ بعد تصدیق کر دوں تو درست ورنہ وقت پہ آئیے کیونکہ غالبا” متعلقہ شخص موجود نہیں۔
حسب معمول ایک بجے آن لائن ٹیکسی بلانے کے جتن شروع کیے لیکن ٹیکسی نہیں مل رہی تھی۔ ڈیڑھ بجے ایک شاگرد کو فون کرکے کہا کہ بیس منٹ تاخیر سے پہنچوں گا۔
سٹاف گیٹ میں مڑنے سے پہلے سیاہ اور سفید رنگ کی دو بڑی بڑی ایس یو ویز ڈٹ کے کھڑی ہو گئیں ۔ میں ڈرائیور کو پے کرکے نکلا تو سیکیورٹی کو مجبور دیکھا۔ گاڑیوں سے آگے موٹر سائیکل سکواڈ تھا اور سامنے طلباء کی کثیر تعداد پڑے باندھے، فون کیمروں کو یک رخ کیے کھڑے تھے۔ گاڑیاں پارکنگ میں چلی گئیں اور میں طلباء کے ہجوم سے نکلتا، لفٹ میں سوار پانچویں منزل پہ پہنچا تو 30 کی کلاس میں 3 لڑکیاں اور 7 لڑکے بیٹھے تھے۔
پوچھا باقی کہاں ہیں تو بتایا گیا کہ شاہین شاہ آفریدی اور حارث روف پہنچے ہوئے ہیں، سٹیج لگا ہے، ایونٹ ہوگا۔ ہم جائیں سر۔ ایک لڑکی بہت مصر تھی۔ پندرہ بیس منٹ لیکچر دیا اور کہا جاو مگر چار بجے آ جانا، حاضری تب ہی لگے گی۔
لیکچرار کو فون کیا کہ میں تمہاری طرف آ رہا ہوں۔ کہا آ جائیں، میں دفتر کھول دوں گا لیکن خود میٹنگ میں ہوں گا، آپ آ کے بیٹھ جائیں۔ دوسری عمارت کی پانچویں منزل پہ ان کے آفس میں جا کے پینتالیس منٹ اکیلا بیٹھا۔ اذان ہوئی تو مسجد چلا گیا۔ جماعت 4 بجے ہونی تھی مگر طلباء کو چار بجے آنے کا کہا تھا تو جماعت کے بغیر نماز پڑھ کے کلاس روم پہنچا تو اس بار صرف ایک طالبہ تھی جو بس حاضری لگوانے آئی تھی۔
کہا دس منٹ انتظار کر لیتے ہیں ۔
دس منٹ میں بھی طلباء چھ ہی رہے۔ بیس منٹ بعد کہا، جاو سب اور میں پھر سے لیکچرار کے دفتر میں ۔ ان کے دفتر میں ایک طالبعلم تھا، کہنے لگا بیٹھیں سر آنے والے ہیں میٹنگ سے۔
فون کی چارجنگ ختم ہو رہی تھی۔ میسیج کیا آ رہے ہو کہ جائیں۔ جواب نہ ملا۔ فون کیا تو فون کاٹ دیا، سمجھا کہ بس آنے والے ہوں گے۔ میسیج ملا کہ آپ نکل جائیں ۔ میسیج پڑھتے ہی فون ڈیڈ۔
اس طالبعلم سے کہا ان ڈرائیو کروا دو۔ وہ انٹرنل وائی فائی استعمال کر رہا تھا جو سلو تھی۔ قریب کوئی ڈرائیور نہیں مل رہا تھا۔ اتنے میں میٹنگ سے لوگ آنے لگے۔ لیکچرار بھی پہنچ گئے۔ ان کا بھی فون ڈیڈ۔
انہیں بھی جانے کی جلدی۔ پھر بھی انہوں نے فون چارجنگ پہ لگایا۔ مجھے چائے بنا کے دی۔ اور ایپ آن کیا۔ نیچے پہنچے، فل کرائے پہ گاڑی ملی جس کے سارے شیشے بند کوئی نہیں کھولتا تھا۔ گاڑی جی سی یونیورسٹی کا ایک ہونہار طالبعلم کسی سے لے کے چلا رہا تھا۔
شی ایٹیکا کی وجہ سے مجھ سے بیٹھا نہ جائے اور سارے راستہ کئی جگہ پہ بہت دیر تک ٹریفک جام۔ چالیس منٹ کا فاصلہ دو گھنٹوں میں طے کیا۔ ڈرائیور کے پاس چینج نہیں تھا۔ گھر میں بجلی نہیں تھی۔ گھر آئے مہمان سے پیسے لے کے ڈرائیور کو رخصت کیا۔ اب گھر میں پانی نہیں تھا۔ تین گھنٹے انتظار کیا اور تیمم کرکے نماز ادا کی۔
کون کہتا ہے کہ کچھ دن بس نہیں ہوتے اور کچھ دن سعد؟
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر