ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5جنوری بھٹو کی سالگرہ ہے، قومی رہنمائوںکے تہواران کی یاد کے ساتھ ان خیالات کے اور نظریات کی تجدید کے حوالے سے منائے جاتے ہیں ، اگر قومی رہنمائوں کے نظریے پر عمل نہ ہو تو پھر تہوار منانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ہزار اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک قومی لیڈر تھے ’’غریب کو اپنے ہونے کا احساس‘‘ دے کر بلا شبہ بھٹو نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ۔ پاکستان کی سیاست بھٹو کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے ، بھٹو ایک شخص نہیں ایک سوچ کا نام ہے ، تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شاہ نواز بھٹو (1888 ء 1957-ئ) سندھ کے زمیندار اور با اثر سیاست دان تھے۔ بھٹو نے ابتدائی تعلیم بمبئی سے اور اعلیٰ تعلیم برگلے یونیورسٹی کیلی فورنیا اور اآکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی، کچھ عرصہ سائوتھمپٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرر بھی رہے۔ 1962ء میں آپ کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ستمبر1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر ایک شاندار تقریر سے اقوام عالم کو ہم نوا بنایا ، جب جنوری 1966ء میں پاکستان اور بھارت نے ’’اعلان تاشقند‘‘ پر دستخط کیے تو یہیں سے ایوب خان اور بھٹو کے اختلافات کا آغاز ہوا،بھٹو وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے، یہ اتفاق بھی دیکھئے کہ آج بھٹو کی سالگرہ بھی ہے اور یوم حق خود ارادیت کشمیر بھی۔ بھٹو کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نسل در نسل اسمبلیوں میں جانے والے سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں کو اپنے خطے کی تہذیب، ثقافت اور تاریخ کا علم نہیں مگر بھٹو اس سے واقف تھے ، وہ سرائیکی کی جداگانہ شناخت کا ا دراک رکھتے تھے۔ آج ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے کہ بھٹو کی سیاسی میراث کے وارثوں نے ان کے اس پہلو کو فراموش کر دیا۔ آج سرائیکی وسیب کے لوگ جن عذابوں کا شکار ہیں اس کی ذمہ داری پی پی کی موجودہ قیادت پر عائد ہوتی ہے، پی پی مہاجر صوبے کے خوف سے سرائیکی صوبے کو منجھدار میں چھوڑ کر کنارے لگ گئی تھی، کیا اس کا نام وفا شعاری ، اصول اور نظریہ ہے؟ کیا یہ بھٹو کا پیغام ہے؟یہ سب کرسی اور اقتدار کے کھیل ہیں اقتدار بے رحم چیز ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی وجہ سے سرائیکی وسیب کے لوگ نصف صدی سے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے آ رہے ہیں، بہاولپور میں آصف زرداری سے میری ملاقات ہوئی تھی تو میں نے صوبے کا وعدہ یاد دلایا، آصف زرداری نے کہا کہ ہم نے آپ کو وزیر اعظم دیا ہے، میں نے کہا وزیر اعظم نہیں وسیب کے لوگوں کو صوبہ چاہئے، اس پر انہوں نے میری بات کو ہنس کر ٹال دیا، لیکن آج بھی سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ اس وقت تمام سیاستدان اقتدار کے مسائل حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ قومی معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے، ذاتی مفاد کی بجائے عوامی مفاد کو مقدم رکھنا چاہئے ، عام سیاستدان الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ لیڈر آئندہ نسلوں کا سوچتے ہیں۔ بھٹو بلاشبہ بہت بڑے قومی لیڈر تھے وہ وسیب سے محبت کرتے تھے، وسیب کی زبان سے محبت کرتے تھے، محترمہ بینظیر بھٹو ان کی حقیقی جانشین تھیں، ان میں بھی وسیب سے ہمدردی کا جذبہ موجود تھاجو کہ آج کی قیادت میں دیکھنے کو نہیں مل رہا، ہمارا پی پی کی قیادت کو اتنا پیغام ہے کہ سرائیکی وسیب کے احساسات اور جذبات کی قدر کی جائے۔ ہماری پہچان سرائیکی قومی شناخت اورہماری سیاسی سوچ سرائیکی قومی سوال ہے ، اس سوال کا ادراک اقتدار پرستوں کو نہیں۔ پیپلز پارٹی کے نہ ہوتے ہوئے ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیںکہ ذوالفقار علی بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد بہاولپور کے جلسہ عام میں بہاولپور صوبے کے مطالبے کو مسترد کیا ، اس وقت بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری ہوگی ہم سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے قومی شناخت قائم کرانے میں سرائیکی وسیب کی مدد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو واحد لیڈرتھے جس نے 1974ء میں ملتان ، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں یونیورسٹیاں قائم کیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی صوبہ محاذ کے رہنما ریاض ہاشمی مرحوم کو خصوصی طور پر اپنے گھر المرتضیٰ لاڑکانہ میں بلایا ،ریاض ہاشمی مرحوم نے فوری طور پر بہاولپور صوبہ محاذ ختم کر کے سرائیکی صوبہ محاذ بنایا جس کے سرائیکی قومی شناخت پر مثبت نتائج بر آمد ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا سرائیکی وسیب سے حسن سلوک اور محبت کے سینکڑوں شواہد موجود ہیں۔ آج کی سیاسی صورتحال دیکھئے کہ عمران خان نے پہلے الزام لگایا کہ امریکا نے میری حکومت ختم کرائی ہے، کچھ عرصہ بعد اس بات سے بھی پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ مجھے نہیں معلوم کس نے ختم کرائی ۔ مگر یہ بھٹو ہی تھا جس نے امریکا کو للکارا، امریکا کیخلاف ترقی پذیر ملکوں کا اتحاد قائم کرایا، امریکا کے خلاف تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کو اکٹھا کیا ، اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی۔ بھٹو نے ہی امریکا کو کہا تھا کہ امریکا وہ ہاتھی ہے جس کے کھانے کے دانت اور ہیں دکھانے کے اور ۔ یہ بھٹو ہی تھا کہ جس نے پھانسی چڑھنا گوارا کر لیا مگر ضیاء الحق سے زندگی کی بھیک نہ مانگی۔ آج بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والے کیا کررہے ہیں؟ آج حالت یہ ہے سرائیکی قومی شناخت کو تقسیم کرنے والے (ن) لیگ کی حمایت کر رہے ہیں ، کیا ایسے اقدامات سے ذوالفقار علی بھٹو کی روح خوش ہوگی؟ یہ بھٹو کی سالگرہ کا اہم سوال ہے۔ ٭٭٭٭٭
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر