ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھے شعر کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ یاد رہتا ہے، ایک خوبصورت شعر ’’صبح ہوتی ہے ، شام ہوتی ہے، زندگی یونہی تمام ہوتی ہے‘‘ زندگی کا ایک سال اور بیت گیا ، نیا سال نئی امنگوں کے ساتھ شروع ہو چکا ہے۔ پچھلے سال کی امنگوں کو کرونا کی وباء نے نیست و نابود کر دیا تھا۔ معاشی حوالے سے بھی گزشتہ سال بہتر نہیں تھا، گزشتہ سال کے قریباً چار ماہ عمران خان کے تھے اور بقیہ آٹھ ماہ پی ڈی ایم کے ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور عمران خان کو اقتدار سے رخصت کر دیا گیا۔ عمران خان کے دور میں بھی بہتری نہیں آئی تھی ، پی ڈی ایم کے دور میں صورتحال ازاں بد تر ہو چکی ہے۔ مہنگائی نے نہ صرف یہ کہ سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے بلکہ نئے ریکارڈ بھی قائم کر دئیے۔ مہنگائی ، غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے گزشتہ سال خودکشیوں میں اضافہ ہوا، قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے خودکشی کی کوشش کی سزا ختم کو ختم کرنے کی منظوری دی ہے ،گویا عوام کو صاف راستہ دکھایا گیا ہے۔ گزشتہ سال آڈیو لیکس کی بھر مار رہی ، سیاسی حریفوں کو ایک دوسرے سے نیچا دکھانے کیلئے عمران خان ، مریم نواز، بشریٰ بی بی اور دیگر کی بہت سی آڈیوز لیکس ہوئیں۔ سال 2022ء میں کروڑوں افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے اور یہ بھی ہوا کہ ابھی کرونا کے عذاب کم نہیں ہوئے تھے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا جس نے وسیب کے دامان، سندھ اور بلوچستان کے بہت سے علاقے صفحہ ہستی سے مٹا دئیے ، اب سرد موسم میں شدت آ چکی ہے مگر متاثرین سیلاب کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار موجود ہیں اور انکی بحالی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا سکے۔ گزشتہ سال شروع ہونی والی اقتدار کی جنگ نئے سال میں بھی داخل ہو گئی ہے۔ سال2022ء میں سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی کشمکش سے جہاں ملک کو معاشی نقصان ہوا وہاں عوام بھی ذہنی اذیت سے دوچار ہوئے۔ عمران خان کو مسند اقتدار چھن جانے کا صدمہ ضرور ہے مگر ان کی مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے، گزشتہ سال کا یہ بھی ایک انوکھا واقعہ ہے کہ پنجاب میں عمران خان کی حکومت ہونے کے باوجود ان پر وزیر آباد میں ہونے والے حملے کی ایف آئی آر درج نہ ہو سکی۔ گزشتہ سال استعفوں کی سیاست کے ساتھ ساتھ ضمنی الیکشن بھی چلتے رہے ، عمران خان نے 8حلقوں سے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا اور 6 حلقوں سے کامیاب ہوئے، ملتان کے ایک حلقے سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانو قریشی کو مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی موسیٰ گیلانی نے شکست دی ۔ گزشتہ سال وسیب کے حوالے سے محرومی کا سال رہا ، صوبہ بنانے کا وعدہ 2022ء میں بھی پورا نہ ہوا، الگ سیکرٹریٹ بنا کر لوگوں کو لولی پاپ دیا گیا، سول سیکرٹریٹ میں لاہور سے افسران کی فوج ظفر موج بھیجی گئی مگر تخت لاہور کے حاکموں نے اختیارات اپنے پاس رکھے، وسیب کو پہلے تو بجٹ اور ترقیاتی فنڈز کا پورا حصہ نہیں ملتا مگر جو حصہ انائونس کیا جاتا ہے اس میں بھی یہ ہورہا ہے کہ ترقیاتی کاموں پر لگنے والی رقم ملتان اور بہاولپور میں بنائے گئے سیکرٹریٹ کے افسران کی ٹی اے ڈی اے اور مراعات پر خرچ ہو رہی ہے، اسی وجہ سے وسیب میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے۔ حسب سابق گزشتہ سال بھی بلدیاتی الیکشن بہت بڑا ایشو رہا، سندھ کے کچھ اضلاع میں بلدیاتی الیکشن ہوئے اور کچھ میں ملتوی کر دئیے گئے، الیکشن کمیشن نے 29 اپریل کو دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدر آباد ڈویژن کے 16 اضلاع کیلئے انتخابی شیڈول جاری کیا مگر شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن پھر ملتوی کئے گئے۔ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ، پنجاب میں 2015ء کے بلدیاتی الیکشن ہوئے مگر مدت پوری ہونے سے پہلے ہی بلدیاتی ادارے معطل کر دئیے گئے، عدالت نے بلدیاتی نمائندوں کو بحال بھی کیا مگر حکومت کی طرف سے فنڈز اور اختیارات نہ دئیے گئے، بلدیاتی الیکشن آئینی ضرورت تھی جسے کسی بھی پنجاب حکومت نے پورا نہیں کیا۔ آزاد کشمیر میں بہت عرصہ بعد تبدیلی آئی ، سردار تنویر الیاس خان وزیر اعظم بنے تو 30 سال بعد بلدیاتی الیکشن ہوئے اور مقامی عوامی نمائندوں کو فنڈز اور اختیارات ملے۔ آزاد کشمیر میں بلدیاتی الیکشن کے دوران عوامی سطح پر بہت جوش و خروش دیکھنے میں آیا، آزاد کشمیر کی حساس حیثیت کے بناء پر وہاں نچلی سطح تک عوامی نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی نہایت ضروری تھی، وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس خان نے مثبت قدم اٹھایااور بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ایک دیرینہ خلا کو پُر کیا۔ دارالحکومت اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن بھی بار بار ملتوی ہوتے آ رہے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے 30 دسمبر 2022ء کو فیصلہ دیا کہ شیڈول کے مطابق 31 دسمبر کو ہر صورت بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں مگر حکومت نے الیکشن نہیں کرایا اور وہ اپیل میں چلی گئی ہے۔ گزشتہ سال کو ملکی سیاست کے حوالے سے ہم ناقابل فراموش سال کہہ سکتے ہیں کہ صوبائی حوالے سے دیکھا جائے تو خیبرپختونخواہ میں عمران خان نو سال سے بر سر اقتدار ہے مگر ابتری تو ہوئی ہے بہتری نہیں ہوئی ، باتیں بہت ہیں مگر جو زمینی حقائق ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ صوبہ سندھ کی بھی صورتحال بہت خراب ہے کہ دیہی سندھ میں غربت اور پسماندگی عروج پر ہے، دور دراز علاقوں میں جائیں تو لوگ اب بھی پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ بلوچستان میں ہمیشہ مخلوط حکومت بنتی چلی آ رہی ہے، مقتدر قوتوں کی لڑائیاں نہ ختم ہوتی ہیں اور نہ ہی عام آدمی کی بہتری کیلئے کچھ سوچا جاتا ہے۔ پنجاب کا بڑا حجم بذات خود ایک مسئلہ ہے، اقتدار کی جنگ پنجاب میں اس بناء پر زیادہ ہوتی ہے کہ ایک لحاظ سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ وزیر اعظم سے بھی اہم مانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرکز کے ہر حاکم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی اپنے پاس رکھے۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے تو غلام حیدر وائیں کو علامتی طور پر وزیر اعلیٰ بنایا گیا باقی تمام اختیارات نواز شریف خود استعمال کرتے تھے، اسی طرح عمران خان نے بھی عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ اس بناء پر بنایا کہ وہ بھی اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ گزشتہ سال آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے علاوہ بہت سے حالات و واقعات ہیں، اب نیا سال شروع ہوا ہے تو ضروری ہے کہ سابقہ غلطیوں کو نہ دہرایا جائے ، نئی سوچ ، نئی فکر اور نئی امنگوں کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر