ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر بات کرنے کو جی کرتا ہی کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ ضعف نطق کا شکار نہیں ہیں۔ بات جب دل سے دماغ تک جاتی ہے بلکہ سچ تو یہ کہ جب دماغ سے اتر کر دل پر اثر انداز ہونے لگتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ کر دی جائے کیونکہ دل دل ہی تو ہے نہ کہ سنگ و خشت، آلام سے گھبرا نہ جائے کیوں؟ یوں ہم بات کر کے اپنی گھبراہٹ میں دوسروں کو شریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
باتیں کرنا جب پیشہ وری ہو تو باتیں بنائی جاتی ہیں یا باتوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں۔ جب بات کرنا پیشہ وری نہ ہو تو محض بات کی جاتی ہے یا خوف، خدشات اور خواہشات کو گوندھ کر خواب بنے جاتے ہیں۔ بات چاہے کوئی بھی کرے القاء تو ہوتی نہیں۔ ہم عامیوں کے دماغ ہیں ہی اتنے چھوٹے کہ ان میں جو بھرا جاتا ہے انہیں کا ملغوبہ، چوں چوں کا مربہ یا نچوڑ نکل کر کے باہر آ جاتا ہے گفتار کی شکل میں یا تحریر کی شکل میں۔ اب تو قلم بھی ہوا ہوئے اور قرطاس بھی فراموش، کی بورڈ کی ٹک ٹک ہے اور ہم سوچ کر بٹن دبا کر لکھتے ہوئے روبوٹ۔
مگر جب کی بورڈ ہمارے زیر دست نہیں ہوتا تب ہم روبوٹ کی بجائے انسان ہوتے ہیں، گفتار اور تحریر کے علاوہ اپنے کردار کے ساتھ۔ کردار اردو والا بھی اور جس کریکٹر کو روسی میں ہاراکتر بولا جاتا ہے یعنی عادات و اعمال، کے ساتھ بھی۔ بالکل تنہا ہم سے ”میں“ میں بدلے ہوئے مگر ان سب کے ساتھ جو نہ ہوتے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ بھائی بند، دوست احباب، بچے، بچوں کے بچے، ملک و قوم (اگر کوئی ہے تو) ، ان دونوں کے حالات، اپنے حالات، دنیا کے غم، دنیا کی خوشیاں اور سہولتیں، نایابی، کمیابی اور دستیابی غرض سب کے ساتھ۔ ایسے جیسے عبادت کے دوران ہوتا ہے کہ پریشانی سے راحت آفرینی تک سب آپ پر چڑھ دوڑتے ہیں، خدا ادھر ادھر ہو کر کے رہ جاتا ہے، آپ بس عبادتی الفاظ زبان سے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
بہت سے لوگ رجائیت پرست ہوتے ہوں گے مگر میں اکثر و بیشتر کی طرح یاسیت پسند ہوں چنانچہ اپنی ہی بات کروں گا۔ یاسیت پسندی اپنے مزاج میں بھی ہوتی ہے، مگر اس کو مہیج وہ حالات و معاملات فراہم کرتے ہیں جو طویل عرصے سے آپ کے ساتھ وابستہ ہوں یا یک لخت سر پر آسمان سے گرتی برف کی طرح نازل ہو جاتے ہوں۔ زیادہ دکھی یہ سوچ کر ہوا کہ جرائم پیشہ لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں (شاید وہ مجھ آپ جیسوں کو عجیب سمجھتے ہوں ) کہ کسی سے کوئی لینا دینا نہیں، بس ”آرڈر“ ملا تو جا کر جس سے کچھ لینا دینا نہیں خنجر بھونک دیتے ہیں یا گولی سینے میں اتار دیتے ہیں۔ پھر جہاں جانا ہوں جا کر آرام سے کھاتے پیتے ہیں اور خوش ہو ہو کر اپنا کارنامہ بھی اپنے جیسوں کے گوش گزار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ انسان کے ساتھ کیا کچھ ایسا بیت جاتا ہے جس سے متعلق اس نے سوچا تک نہیں ہوتا۔
میں پھر سے عبداللہ حسین کا ناول ”باگھ“ پڑھ کر ایسا نہیں سوچ رہا تھا بلکہ سال میں ایک بار خود کو بھا جانے والا سیریل دیکھتا ہوں جو آج کل میں دیکھ رہا ہوں بلکہ دل کرتا ہے کہ بہت سے اپنے جیسوں کو دکھاؤں پر کیا کیا جائے اگرچہ اس کا ہر ”ایپی سوڈ“ اسی رات ”یوٹیوب“ پر اپ لوڈ ہو جاتا ہے مگر لوگوں کو روسی زبان نہیں آتی۔ تاہم ОЧТИЙ БЕРЕГ کاپی کر کے یوٹیوب کی سرچ پر پیسٹ کر کے آپ کمال کی اداکاری اور ہدایت کاری ضرور دیکھ سکتے ہیں۔
کہانی سنا کر کیا کروں گا۔ بس اتنا ہے کہ بیسویں صدی کے وسط میں ایک کسان ہے جس کے بڑی عمر کے بیٹا بیٹی ہیں۔ یہ دونوں جب پندرہ سولہ برس کے ہوتے ہیں تو بہت گھر دار اور اچھی بیوی ایک بیٹے کو جنم دیتی ہے، وہیں اسپتال میں ایک نوزائیدہ بچی بہت روتی ہے تو یہ انسان دوست خاتون اس کو اپنا دودھ پلاتی ہے اور مری ماں کی بچی کو بھی بچے کے ساتھ اپنے لے آتی ہے۔ یہ دونوں جب پانچ چھ سال کے ہوتے ہیں تو ان دونوں میں پیار بڑھ جاتا ہے۔ بڑا بیٹا شہر جا کر نامور جراح بن جاتا ہے۔ بیٹی جو کسی سے محبت کرتی ہے مگر وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے، حسد میں اس کے گھر کو نذر آتش کر دیتی ہے اور شہر جا کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرنے لگ جاتی ہے۔
ایک بار جب سب بہن بھائی دیہات میں اکٹھے ہوتے ہیں تو جن میں پیار بڑھ جاتا ہے وہ رات کے کسی وقت بھنڈار میں باہم ہو جاتے ہیں۔ حسد کی آگ میں جلی ہوئی شہر سے آئی بیٹی گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے انہیں بھنڈار میں ملوث ہوئے دیکھ لیتی ہے تو ماں باپ کو جگاتی ہے۔ بس پھر جو باپ پر گزرتی ہے وہ اپنی جگہ مگر فرشتہ صفت ماں اسی بھنڈار میں جا کر پھانسی جھول جاتی ہے۔ کسی کے ساتھ کچھ بھی کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں اور اپنی بے بسی اور بے وقعتی کے علاوہ بے مائیگی سے بھی آگاہ ہیں۔
یہ افراد کی کہانی ہے۔ افراد ہی مل کر معاشرہ بناتے ہیں اور معاشرے کے اجزاء مل کر ملت تشکیل دیتے ہیں۔ ہماری ملت میں بے جوڑ اختلاط کرنے والے بھی ہیں۔ انسان دوستی کی بنیاد پر پھانسی جھول جانے والے بھی۔ جن سے کوئی عناد نہ ہو ان کو خنجر گھونپ دینے والے بھی اور ایسے بھی جو ملت کی ہی کمر میں خنجر گھونپ دینے سے نہیں چوکتے۔
ہم بہت ڈرے ہوئے لوگ اور میں ان بہت سارے بہت زیادہ ڈرے ہوئے لوگوں میں سے ایک۔ اسی لیے میں بہت یاسیت پسند ہوں اور یہی بات مجھے کہنی تھی البتہ پوچھنی یہ بات تھی کہ رجائیت پسندی کے پہلو مایہ اور مسرت کے علاوہ بھی وا ہو سکتے ہیں کیا؟ اگر ہاں تو کیسے؟
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ