ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس کی بھلا کیا وضاحت کرنی کہ بائیں بازو والے کن کو کہا جاتا تھا اور غلطی سے اب تک کہا جا رہا ہے۔ لوگ تو بس یہی سمجھتے تھے کہ جو ملک میں انقلاب لانا چاہتا ہے ( جو خونی ہی ہو سکتا تھا) جو خدا کو نہیں مانتا، جو سب عورتوں اور آدمیوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتا ہے اور جو جماعت اسلامی اور امریکہ کا کٹر مخالف ہے اسے بائیں بازو کے ماننے والا یا پھر بائیں بازو والا سمجھنا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے کٹر مخالف تو بہت تھے لیکن آج کی طرح انقلاب لانے کے داعی نہیں تھے۔ خدا کو نہ ماننے والے آج بھی بہت زیادہ ہیں یہ اور بات ہے کہ نجی محفلوں میں وہ ملحد ہوتے ہیں اور جلوت میں مومن لیکن جن کی ہم بات کر رہے ہیں وہ منافقت سے کام نہیں لیا کرتے تھے۔ جب وہ خدا سے ہی نہیں ڈرتے تھے ( کیونکہ ان کے خیال کے مطابق عدم وجود کا خوف چہ معنی دارد والا معاملہ تھا ) تو وہ لوگوں سے بھلا کیوں ہراساں ہوتے۔
امریکہ کی ”کرٹیل کمیونزم پالیسی“ پر کولہو کے بیل کی مانند چلتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ اور جماعت اسلامی نے کمیونسٹوں سے متعلق لوگوں میں جو احساس پیدا کیا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ یہ ایسی قبیح مخلوق ہے جن کی آنکھیں لال، بال بڑھے ہوئے اور جو دیکھنے میں حواس باختہ سے لگتے ہیں، جو موقع پاتے ہی لوگوں کے معصوم بچوں کو ساتھ ملا کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنی جیسی مافوق الفطرت مخلوق بنا دیتے ہیں۔ یہ خدا کے دشمن اور حکمرانوں کے بیری ہیں۔
یہ بائیں بازو والوں کی بات کرتے ہوئے کمیونسٹوں کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ ہوا یوں کہ چند افراد کا ایک گروہ تھا، جن کا سرخیل لکھنؤ سے آیا ہوا ایک نوابزادہ تھا لیکن اس نے نواب پنے کو ٹھکرایا ہوا تھا۔ البتہ انگریزوں کے دور میں ہندوستان میں ایک عام پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نام سے ضرور ہوا کرتی تھی جس کے اراکین میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جب پاکستان کی تحریک زور پکڑ گئی تو اس پارٹی نے اپنے اراکین کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ پارٹیوں کے ساتھ جڑ جائیں یعنی ہندو اور سکھ آل انڈیا کانگریس کے ساتھ مل کر کام کریں اور مسلمان پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ۔ ملحدین کی پارٹی کا مذہب کے حوالے سے لوگوں کو تقسیم کرنا، تھی نہ عجیب بات لیکن ایسا ہوا تھا۔
جب ہندوستان اور پاکستان بن گئے تو پاکستان میں کمیونسٹ اتنے تھوڑے اور غیر منظم تھے کہ ہندوستان میں پھر سے پارٹی میں لوٹ آنے والوں نے سید سجاد ظہیر کو پارٹی کو منظم کرنے کی خاطر پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وہ پاکستان آ گئے۔ ابھی کچھ کر نہ پائے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایک مقدمہ گھڑا گیا جس کو ”راولپنڈی سازش کیس“ کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مذاکرات کی حد تک تو مقدمے میں بیان کردہ بات درست تھی لیکن باقی سب کچھ من گھڑت تھا۔ خیر سجاد ظہیر صاحب تو کسی نہ کسی طریقے سے نکل گئے مگر جنرل اکبر کو ان کے مبینہ ساتھیوں سمیت جن میں اپنے فیض احمد فیض بھی شامل تھے، دھر لیا گیا تھا۔ ان سب کو مختلف مدت کی سزائیں ہوئیں یوں لوگوں کو معلوم ہوا کہ کمیونسٹ ہی دراصل بائیں بازو والے ہوتے ہیں۔
بائیں بازو والے زیر زمین چلے گئے۔ ان کا کام محض طلباء اور مزدوروں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بائیں بازو والے انقلاب لانے کے لیے مزدوروں کو ہراول دستہ خیال کیا کرتے تھے۔ ان میں سے کسی کو اگر مزدوروں میں پذیرائی ملی بھی تو اس کی وجہ ان کا کمیونسٹ نظریہ نہیں بلکہ ان کی مزدور دوستی بنا تھا۔
تاہم ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ شروع شروع کے یہ لوگ، دروغ بر گردن راوی اپنے ملحدانہ خیالات کا برملا اظہار کر دیا کرتے تھے یوں عام لوگ ان سے دور ہٹتے چلے گئے۔ بعد میں کچھ عملیت پسندی سے کام لینے لگے اور ان میں سے بیشتر عبدالغفار خان کی پارٹی نیپ ( نیشنل عوامی پارٹی) کا حصہ بن گئے اور ادھر مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کی پارٹی کا۔
اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی نے سر اٹھایا جو پھر مقبول ہونے لگی۔ اب بائیں بازو والوں کے لیے اذن ہوا کہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جاؤ۔ وجہ یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلام کی پخ لگا کر سوشلزم کو اپنا مطمح نظر بتایا تھا۔ اس نئی نوع کے سوشلزم یعنی اسلامی سوشلزم کے بانی حنیف رامے تھے۔ پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے چند ماہ بعد ہی اس حکومت کی مزدور دشمن پالیسی واضح ہونے لگی تھی۔ ملتان کے نزدیک مظفر آباد میں کالونی ٹیکسٹائل ملز میں ہڑتالی مزدوروں پر پولیس کی بہیمانہ فائرنگ جس سے درجنوں لوگ مارے گئے اور ملتان کی کھاد فیکٹری کے مزدوروں پر تشدد اسی دور میں ہوئے تھے۔ تب پنجاب کے گورنر ملک غلام مصطفٰی کھر ہوا کرتے تھے۔
لوٹ کے بدھو پھر گھر کو۔ اب بائیں بازو والے ولی خان سے علیحدہ ہونے والے غوث بخش بزنجو کی پارٹی میں آ گئے۔ یہ کھلی پارٹیاں بائیں بازو والوں کی ذہنی استعداد، تنظیمی صلاحیتوں اور نظریے سے لگن کا فائدہ ضرور اٹھاتی تھیں لیکن ان کو کلیدی عہدوں پر اس طرح سے نہیں رکھتی تھیں جس طرح بعد میں سابق کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن افراسیاب خٹک کو اے این پی میں رکھا گیا۔
غرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو والے جہاں ایک طرف کم تعداد میں ہوا کرتے تھے وہاں دوسری طرف عوام سے کٹے ہوئے بھی۔ وہ ان پارٹیوں کو جو دراصل ان سے کام لیا کرتی تھیں اپنے زعم میں کمیونسٹ پارٹی کا ”اوپن ونگ“ خیال کرتے تھے۔ مختلف ناموں سے کئی کمیونسٹ پارٹیاں تھیں جن کی رکنیت 30 افراد سے لے کر 300 افراد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی البتہ ہم خیال لوگ پانچ دس گنا ضرور ہوتے تھے۔ اس سے آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں بائیں بازو والے کتنے تھے۔
آج جب سوویت یونین کو بکھرے ہوئے تقریباً ربع صدی گزر چکی ہے، چین کو مشترکہ معاشی نظام میں ڈھلے ہوئے بھی تین عشروں سے کچھ زیادہ ہو چکے ہیں۔ کیوبا، شمالی کوریا، بیلاروس اور ویت نام کے بھی اپنے اپنے مسائل ہیں تو سوال اٹھتا ہے کیا پاکستان میں بائیں بازو والے موجود ہیں؟ بس ایسے ہی ہے کہ ہر چند کہیں ہیں پر نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر