جون 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زچگی کے لیے سیزیرین یا نارمل ڈلیوری ؛ فیصلہ کس کا؟ ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

چالیس برس پہلے کسے پتہ تھا کہ ٹیسٹ ٹیوب بچہ کس چڑیا کا نام ہے؟ حمل مستعار لی گئی ماں کے رحم میں رکھا جائے گا؟ بچے کی صنف کا انتخاب بذریعہ سیکس سلیکشن ہو گی؟ ابنارمل بچے کا پہلے سے علم ہو جائے گا ؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں بحث کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے ۔ شوہر کا منہ لال بھبوکا، بیوی بھی نیلی پیلی __

تم کیوں نہیں کر سکتیں ؟ ساری دنیا کی عورتیں کرتی ہیں ۔

میں نے کیا ساری دنیا کی عورتوں کے کیے کا ٹھیکہ لیا ہواہے؟ بیوی نے منہ سکوڑ کر کہا۔

دیکھو میں بتا رہا ہوں، اماں بہت ناراض ہوں گی، شوہر نے ڈرانے کی کوشش کی۔

تو ایسا کرو اماں سے کہو وہ کر لیں ایک اور __ بیگم کچھ زیادہ ہی بولڈ تھیں۔

کیا بک بک کر رہی ہو؟ شوہر تاؤ کھا گیا۔

بک بک نہیں ، حقیقت ؛ میرا بچہ ، میرا جسم ، میری مرضی ۔

دیکھو یہ بچہ میرا بھی ہے ۔
( ہمیں بچپن میں دیکھا ہوا اشتہار یاد آ گیا، حبیب بینک میرا بھی تو ہے)

چلو پھر تم پیدا کر لو۔

گھمسان کا رن پڑا تھا دونوں میں۔
ہمیں تو سن کر مزہ آرہا تھا لیکن پھر مداخلت کرنا ہی پڑی ۔

کیا آپ دونوں بتائیں گے کہ کیا آج مجھے ڈاکٹر کی بجائے ریفری کا کردار ادا کرنا ہے؟

وہ ڈاکٹر صاحب __ اصل میں آئے تو ہم آپ سے ہی ملنے ہیں لیکن انہیں سمجھائیے کہ یہ میرا حق ہے، بیوی چمک کر بولی۔

ڈاکٹر صاحب ، بچے کا باپ میں ہوں سو میری بھی مرضی ہونی چاہئے نا، شوہر نے ملتجی نظر سے ہماری طرف دیکھا ۔

جسم میرا ہے سو میری مرضی زیادہ اہم ہے۔ خاتون بولیں۔

بتائیے تو سہی کہ کیا معاملہ ہے؟ ہم نے پوچھا

دیکھیے ڈاکٹر صاحب، یہ بچہ نارمل ڈلیوری کے ذریعے نہیں پیدا کرنا چاہتی جبکہ میری والدہ سیزیرین کے سخت خلاف ہیں ، شوہر بولا۔

ڈاکٹر صاحب ، جسم میرا__جس سے اس بچے کو میں نے پیدا کرنا ہے۔ اب میں نارمل کروں یا سیزیرین ، یہ میری مرضی ہونی چاہئے، بیوی نے جواب دیا۔

وہ میری ماں ہیں ___ شوہر نے بلند آواز میں کہا۔

اور میں تمہارے بچے کی ماں ہوں__ بیوی بھی گرج کر بولی ۔

واہ بھئی واہ ، مزا آ گیا__ سیر کو سوا سیر۔ ہم نے دل ہی دل میں سوچا ۔

آپ کی والدہ اس مسلے پر کیوں اعتراض کر رہی ہیں؟

جی ان کے خیال میں آج کی لڑکی بہت سہل پسند ہو گئی ہے۔ ایک دن ہسپتال گئی، پیٹ کٹوایا ، بچہ نکلوا یا اور دوسرے دن گھر __ شوہر بولے۔ دیکھیے نارمل ڈلیوری تو فطرت کا حصہ ہے نا __

اس طرح تو موت بھی فطرت کا حصہ ہے۔ پچھلے زمانے میں جب سیزیرین کی سہولت نہیں تھی، جن عورتوں کا بچہ آسانی سے پیدا نہیں ہوتا تھا ، وہ مر جاتی تھیں۔ بیوی نے کہا۔

آہ ہا__ اس زمانے میں بھی دور دراز علاقوں کی رہنے والی موت کو ایسے ہی گلے لگاتی ہے۔ اکیسویں صدی نے عورت پہ کوئی خاص رحم نہیں کھایا __ ہمارا افسردہ خیال۔

جب دنیا ترقی کر چکی ہے۔ سیزیرین کی سہولت موجود ہے تو میں بارہ چودہ گھنٹے درد میں گزار کر ویجائنا کے راستے بچہ کیوں پیدا کروں؟ بعد میں تم ہی کہو گے ، سارا جسم ڈھیلا ہو گیا__ زوجہ محترمہ پورے ہتھیار لے کر میدان میں اتری تھیں ۔

مگر اماں __ ان کی سوئی ابھی بھی اماں پہ اٹکی ہوئی تھی۔

مجھے سمجھ نہیں آتا اگر تم لوگ اپنی اماں سے اس قدر ڈرتے ہو تو گلے میں بیوی نامی مالا کیوں لٹکا لیتے ہو؟ وہ جھنجھلا کر بولی ۔

ہمیں بے اختیار ہنسی آ گئی، کسی زمانے میں ہمارا کہنا بھی یہی تھا۔وقت نہیں بدلا تھا۔

دیکھیے آپ اپنی اماں کو سمجھائیے۔ بچے کی ماں یہ عورت ہے، زچگی کا عمل اپنے جسم پہ یہی عورت بھگتے گی، بچے کی وجہ سے جو نقصان ہو گا، چاہے نارمل ہو یا سیزیرین۔ درد سے اسے ہی گزرنا ہو گا۔ سو جس کا جسم ہے وہی فیصلہ کرے۔

دیکھیے ڈاکٹر صاحب میں ایک بچہ پیدا کر کے بھگت چکی ہوں ، اس عذاب سے مجھے اب دوبارہ نہیں گزرنا۔ جب ہر صورت میں میں نے ہی یہ کشٹ اٹھانا ہے تو میری مرضی کہ میں اسے کیسے ہینڈل کروں؟

بالکل درست ، آپ ٹھیک کہتی ہیں ۔

دل ہی دل میں ہم نے اپنے آپ کو تھپکی دی۔ یہی تو کیا تھا ہم نے۔ پہلا بچہ نارمل پیدا کر کے اور اس سے ہونے والی پیچیدگیوں سے گزر کے ہمارا بھی یہی کہنا تھا کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے ، سیزیرین ہی کروائیں گے ۔دوستوں نے سمجھایا، پروفیسر حضرات نے لیکچر دیا ، گھر والوں کی تو ہمت ہی نہیں تھی کہ اس موضوع پہ ہم سے بات کرتے ، لیکن ہمارے ذہن میں بقول شوہر جو کیڑا گھس گیا تھا وہ کیسے نکلتا ؟

خیر وہ سٹوری تو بعد میں سنائیں گے آپ کو ، پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ دنیا بہت آگے نکل چکی ، بلکہ دنیا مٹھی میں سمٹ چکی ۔ سائنس نے کوٹ ادو کو لاس اینجلس سے جوڑ دیا، ایمزون کے جنگل جہلم سے دور نہیں رہے۔ امریکہ افریقہ کی کہانیاں اب نظر کے سامنے۔ ہوائی سفر نے کچھ بھی انہونی یا ان دیکھی نہیں رہنے دی۔ ٹمبکٹو میں رہتے ہوں یا لالہ موسی میں، جوہر قابل کے لیے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے دروازے کھل چکے۔

چالیس برس پہلے کسے پتہ تھا کہ ٹیسٹ ٹیوب بچہ کس چڑیا کا نام ہے؟ حمل مستعار لی گئی ماں کے رحم میں رکھا جائے گا؟ بچے کی صنف کا انتخاب بذریعہ سیکس سلیکشن ہو گی؟ ابنارمل بچے کا پہلے سے علم ہو جائے گا ؟

یہ سب ہوا، سب نے تسلیم کیا اور اسے مان کر اپنی اپنی زندگی میں شامل بھی کیا۔ تب یہ کسی نے کیوں نہیں کہا کہ یہ سب فطرت کے خلاف ہے۔ ایسا صدیوں سے نہیں ہوا تو اب کیسے ؟ کیوں؟

یہی وقت کا سفر ہے۔ صدیوں کے پھیر نے انسان، کائنات اور سائنس کو اس طرح سے ملایا ہے کہ اب دنیا کی کوئی بات نئی بات نہیں ۔

زچگی کی سائنس نے عورتوں کی طرف بڑھتی موت کی چاپ کو روک دیا ہے۔ زچگی کی پیچیدگیوں کو اب یہ کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا کہ یہ ہوتا ہے، ایسا ہی ہوتا ہے، سب کے ساتھ ہوتا ہے۔

نہیں ، ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ بچہ پیدا کرنا عورت کے لیے عذاب نہیں بننا چاہئے۔ بچہ چاہے پیٹ کاٹ کر نکالا جائے یا ویجائنا کاٹ کر ، اس کا فیصلہ صرف اس عورت کو کرنا چاہئے جس کا جسم اس عمل سے گزرے گا ۔ ابتدا میں میڈیکل سائنس نے بھی سیزیرین کروانے کی اس وجہ کو قبول نہیں کیا ۔ لیکن آج پیشنٹ ریکوئسٹ ( مریض کی درخواست) کو نصابی کتابوں میں جگہ مل چکی ہے۔

پیشنٹ ریکوئسٹ کا استعمال بائیس برس قبل ہم نے کیا ۔ کیسے اور کیوں؟ وہ کہانی اگلی بار ۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: