محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی کرکٹ ایک بار پھر زوردار دھچکے سے دوچار ہوئی ہے۔ اس بار معاملہ کرکٹ ٹیم اور کھلاڑیوں سے زیادہ مینجمنٹ سے متعلق ہے، اگرچہ کھلاڑیوں پر بھی کہیں نہ کہیں کچھ اثر پڑے گا ضرور۔چار پانچ روز قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین تبدیل ہو گیا اور ساتھ ہی پوری مینجمنٹ کے تبدیل ہونے کی ہوا چل پڑی ہے ۔اس کی پہلی قسط کے طور پر چیف سلیکٹر کو نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ اور افسوسناک انداز میں برطرف کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں اکثر کام نہایت بھونڈے اور بے تکے طریقے سے کئے جاتے ہیں، افسوس کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ رمیز راجہ جو پچھلے سال ستمبر میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے تھے، اب اچانک انہیں برطرف (Sack)کر دیا گیا۔ انہیں یوں اچانک نکالا گیا اور کرکٹ بورڈ کے دفتر پر نئی مینجمنٹ کے لوگوں نے قبضہ کیا کہ رمیز راجہ کو اپنا سامان تک نہیں اٹھانے دیا گیا۔ نئے چیئرمین کرکٹ بورڈ کے لئے معروف سینئر صحافی، تجزیہ نگار اور ن لیگ کے زبردست حامی نجم سیٹھی کو نامزد کیا گیا۔ نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنانا ممکن نہیں تھا، اس لئے بورڈ کا دو ہزار چودہ کا آئین بحال کر کے مختلف تکنیکی نکات کا سہارا لے کر اس کی گنجائش نکالی جا رہی ہے، سردست وہ عبوری چیئرمین ہیں اور ایک نام نہاد فارمیلٹی نما عمل کے بعد خیر سے سیٹھی صاحب کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بن جائیں گے۔ہمیں نجم سیٹھی سے کوئی مسئلہ ہے نہ رمیز راجہ سے کوئی محبت یا کسی قسم کی وابستگی۔ بات اصول کی ہے کہ آخر ہر کام اتنے بھونڈے طریقے سے کیوں کیا جائے؟ یہاں پر تین باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ نجم سیٹھی اور رمیز راجہ کا تقرر ایک جیسا نہیں۔ بعض سپورٹس رائٹرز کی تحریریں پڑھیں کہ رمیز راجہ بھی سیاسی بنیاد پر چیئرمین بنے اور نجم سیٹھی کا تقرر بھی سیاسی ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ رمیز راجہ کبھی تحریک انصاف کے رکن نہیں رہے، وہ سیاسی طور پر عمران خا ن کو فالو کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے کسی جلسے جلوس میں شامل ہوئے اور نہ ٹی وی پر بیٹھ کر یا اپنی یوٹیوب وی لاگز میں عمران خان کے سیاسی ایجنڈے کو سپورٹ کرتے اور آل شریف پر طنزیہ تیر نہیں برساتے رہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹی بے بنیادخبریں نہیں چلاتے رہے جو مسلسل بائونس ہو کر کہنے والے کے لئے شرمندگی کا باعث بنیں۔ رمیز راجہ ایک پروفیشنل کرکٹر رہے ہیں۔ دس بار ہ سال انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی، وہ قومی ٹیم کے کپتان بھی رہے، ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا اہم حصہ تھے ۔ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رمیز کو کرکٹ کا پتہ نہیں یا اس نے کرکٹ نہیں کھیلی۔ رمیز نے دنیا بھر میں کرکٹ کھیلی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرکٹ سے جڑے رہے۔ وہ عالمی شہرت یافتہ کرکٹ کمنٹیٹر اور تجزیہ کار ہیں۔ جدید کرکٹ سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ عمران خان نے ایک کرکٹ بورڈ چیئرمین کی مدت ختم ہونے کے بعد نئی تعیناتی کے لئے رمیز راجہ کا انتخاب کیا جو ہر اعتبار سے اچھا اور مناسب فیصلہ تھا۔ اس فیصلے پر کوئی سیاسی تقرر کا الزام نہیں لگا سکتا کہ پچھلے پانچ سات چیئرمین کرکٹ بورڈز میں سے رمیز سب سے زیادہ اہل اور اس عہدے کے لئے فٹ تھے۔ وہ بہت اچھی انگریزی بولنے والے، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دنیا کے کسی بھی کرکٹ فورم پر نہایت آسانی اور مہارت کے ساتھ بات کر سکتے تھے۔ نجم سیٹھی کا اس کے برعکس کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کسی بھی لیول پر کرکٹ نہیں کھیلی ، وہ کرکٹ کو جانتے ہیں اور نہ ہی کرکٹ سے کبھی جڑے رہے۔ جدید کرکٹ سے وہ اتنے ہی نابلد ہیں جتنا کہ کلاسیکل کرکٹ سے۔ نجم سیٹھی صحافی البتہ ہیں ، تجزیہ کار بھی۔ وہ ایک انگریزی ہفت روزہ کے ایڈیٹر ہیں، پبلی کیشن کے کاروبار سے بھی وابستہ رہے۔ سیٹھی صاحب کبھی اچھے لیول کا کوئی کرکٹ میگزین ہی نکالتے رہے ہوتے تو چلیں کرکٹ کے ساتھ ان کا کوئی چھوٹا موٹا تعلق ڈھونڈ لیا جاتا۔ البتہ ان کا ایکسپوژر اچھا بھلا ہے، وہ تیز طرار آدمی ہیں، بات کرنے کا ڈھنگ جانتے ، عالمی فورمز پر بات کر نے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔ ان کا مینجمنٹ کا تجربہ مناسب ہے۔ ایک کریڈٹ ان کو جاتا ہے کہ پی ایس ایل کا پودا انہوں نے لگایا تھا اوراسے کامیاب بنایا۔ ہمارے خیال میں سیٹھی صاحب اگر پھر سے پی ایس ایل کے روح رواں بننے کے خواہش مندتھے، کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے طور پر وہ لائم لائٹ میں آنے کی آرزو ان کے دل میں انگڑائیاں لے رہی تھی تو انہیں یہ کام سلیقے سے کرنا چاہیے تھا۔ رمیز راجہ کو یوں بھونڈے طریقے سے اچانک نکالنے کے بجائے ان سے اگر بات کی جاتی تو ممکن ہے وہ استعفا دینے پر تیار ہوجاتے۔ یہ بات افسوسناک ہونے کے ساتھ شرمناک بھی ہے کہ ایک چیئرمین کرکٹ بورڈ کو اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے سے خاصا پہلے اچانک یوں نکال دیا جائے کہ دفتر سے اپنا ذاتی سامان تک اٹھانے کی مہلت نہ ملے۔ نجم سیٹھی جیسے سینئر اور تجربہ کار شخص سے اس امر کی توقع نہیں تھی۔ زیادتی چیف سلیکٹر محمد وسیم کے ساتھ برتی گئی ۔ انہیں بھی فوری برطرف کر دیا گیا، نیوزی لینڈ کے ساتھ کرکٹ سیریز چل رہی ہے، اس کے مکمل ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا گیا، حالانکہ صرف دو تین ہفتوں میں یہ سیریز مکمل ہوجانی تھی، اتنی عجلت کی کیا ضرورت آن پڑی ؟ ان کے ساتھ بھی بات کرنا بہتر رہتا ، ممکن ہے وہ خود اچھے طریقے سے استعفا دے دیتے۔ قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق اور بیٹنگ کوچ محمد یوسف کے سر پر بھی تلوار لٹکا دی گئی ہے،ایسے میں یہ کوچ ٹیم کے کھلاڑیوں کی کیا رہنمائی کریں گے؟ بہتر یہ ہوتا کہ ان سے مل کر بتا دیا جاتا کہ فروری2023میں آپ کا کنٹریکٹ ختم ہو رہا ہے تب اس معاملے کو دیکھیں گے۔ محمد وسیم نے ٹیسٹ ٹیم کے سکواڈ کا اعلان کر دیا تھا، اگر وہ ون ڈے ٹیم کے سکواڈ کا اعلان بھی کر دیتے تو کیا قیامت آ جاتی؟ اگر کوئی اچھی روایت قائم کر دی جاتی تو کیا حرج تھا؟ شاہد آفریدی کو عبوری چیف سلیکٹر بنایا گیا ہے، ان کے ساتھ عبدالرزاق اور رائو افتخار انجم سلیکٹر ہوں گے۔ شاہد آفریدی بری چوائس نہیں۔ وہ لمبا عرصہ کرکٹ کھیلے ہیں، مختلف لیگز کے ساتھ کچھ عرصہ پہلے تک کھیلتے رہے، جدید کرکٹ کو جانتے، سمجھتے ہیں، دلیر اور دبنگ آدمی ہیں اور ان میں وہ جارحیت ہے جو ماڈرن کرکٹ کا خاصہ بن چکی۔ عبدالرزاق اور رائو افتخار اس لئے بہت اچھی چوائس ہیں کہ دونوں نوجوان کھلاڑیوں کی کوچنگ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ عبدالرزاق کی کوچنگ میں کے پی ٹیم نے تینوں فارمیٹ میں نیشنل چیمپین بنی ، وہ گراس روٹ لیول پر کھلاڑیوں سے واقف ہیں، رائو افتخار بھی انڈر نائنٹین کی کوچنگ کرتے رہے ہیں۔ان دونوں سلیکٹرز کی وجہ سے نوجوان ٹیلنٹ کی نشاندہی میں آسانی ہوگی۔ البتہ آفریدی کو وسیم کے ساتھ یہ نہیں ہونے دینا چاہیے تھا۔ وہ اگر کوشش کرتے تو سابق چیف سلیکٹر اس بھونڈے انداز میں نہ نکالے جاتے۔ مجھے رمیز راجہ کے ساتھ ہمدردی ہے، مگر انہوں نے بھی کئی غلطیاں کیں۔ وہ ضرورت سے زیادہ پراعتماد ہوگئے اور انہوں نے میڈیا کے ساتھ بھی تعلقات بگاڑے ، سابق کھلاڑیوں کو بھی ناراض کیا، ڈیپارٹمنٹ کرکٹ ختم کرنے کے حوالے سے بھی بہت سے حلقے ان سے ناخوش تھے۔ انہوں نے بڑے بڑے دعوے کئے مگر انہیں عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ ان کے دور میں غیر ملکی کوچ آئے نہ پاور ہٹنگ کوچ ، پچوں کی حالت بہتر ہوئی اور نہ ہی ہائی پرفارمنس سنٹر کی کارکردگی کو اٹھایا جا سکا۔ اس کے باوجود رمیز کے دور میں پاکستان دو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بہت اچھا کھیلا، ایک میں سیمی فائنل ہارا، دوسرے میں فائنل تک پہنچا۔ٹیسٹ میں کارکردگی ملی جلی رہی، البتہ ابھی پچھلے مہینے انگلینڈ سے بہت بری شکست ہوئی، مگر ظاہر ہے صرف اس وجہ سے انہیں نہیں ہٹایا گیا۔ انہیں صرف نجم سیٹھی کو لانے کی وجہ سے قربان کیا گیا۔ رمیز راجہ کو اب شائد یہ احساس ہوا ہوگا کہ پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے ان کے سخت رویہ کی وجہ سے مصباح الحق اور وقار یونس کواچانک کوچنگ چھوڑنا پڑی تھی ، تب ان دونوں سابق کپتانوں کو بھی بہت برا لگا ہوگا۔ یہی زخم اس بار رمیز راجہ کو خود سہنا پڑا۔ آخر میں صرف ایک سوال کہ نجم سیٹھی دو ہزار چودہ کا آئین بحال کر کے چیئرمین بن جائیں گے، وہ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ بھی بحال کر دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آخر فوری نہ سہی، آٹھ نو ماہ بعد الیکشن ہونے ہی ہیں۔ اگر عمران خان پھر وزیراعظم بن گئے تب ؟ کیا پھر نجم سیٹھی کو رمیز کی طرح رخصت ہونا پڑے گا؟ کیا پھر ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کو اچانک ختم کر دیا جائے گاکیونکہ عمران خان تو اس کے شدید مخالف ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر صرف چند ماہ کے لئے یہ سب کچھ کیوں؟کیا بہتر نہ ہوتا کہ نجم سیٹھی الیکشن تک کا انتظار کر لیتے تاکہ جو بھی آئندہ پالیسی بنے ، وہ کم از کم پانچ سال تو چل پائے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر