نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانوی محاصرہ ملتان: جوگ مایا پر محاذ آرائی اور قلعہ کی طرف مارچ (6)||امجد نذیر

امجد نذیر سرائیکی وسیب کے قدیم شہر ملتان سے تعلق رکھتے ہیں ،مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراک) سے وابستہ ہیں

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مآخذات : جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع )

تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلاً 325 قبل مسیح میں مقدونیہ کے سکندر کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ھے کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ھے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ اور زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ

چھٹا درشن

پہلی محاذ آرائی سے شکست خوردہ، تھکی ماندی اور زخموں سے چور برطانوی فوج جنرل وہش کی کمان میں اب بمبئی سے نئی کُمک کا انتظار کرنے لگی۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر بمبئی سے اُن کی مرکزی قیادت اُنہیں مزید اسلحہ اور تازہ دم فوج بھیج دے تو شاید اُن کی ہلاکتیں کم ہو جائیں، اُنہیں بار بار پسپائی اختیار نہ کرنی پڑے اور اُن کی فتح کا خواب حقیقت میں بدل جائے۔ اِسی انتظار اور اسی تصور میں اُنہوں نے جیسے کیسے سورج کُنڈ میں اپنے تحفظ اور بقا کا عارضی بندوبست کر لیا۔

اِیسٹ اِنڈیا کمپنی کی فوج اور اُس کے اتحادیوں نے اِس ندی (غالبا” موجودہ پُل موج دریا سے بہنے والی ناپید نہر) کے اردگرد تقریباً تیس چالیس توپیں نصب کر دیں۔ لیفٹیننٹ ‘لیک’ کے ٹروُپس نے دائیں کنارے اور لیفٹیننٹ ایڈورڈز کے ٹروُپس نے بائیں کنارے اپنے قدم جما لئے جبکہ عَقبی جانب اُنھوں نے گُھڑ سواروں کے زیرِ نگرانی اپنے تحفظ کا بندوبست کیا۔ جِن کے پیچھے غیر ہموار بُھربُھرا میدان اور کھیتی باڑی کے لئے کُچھ نالے تھے۔

اِتحادی افواج نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کُچھ خالی گولے فضا کے ہیولائی بدن میں داغے لیکن ابھی وہ خود سنبھلنے ہی نہ پائے تھے کہ گولیوں کی ایک بُوچھاڑ اُنکے دستوں کے شکم چیرتی ہوئی نکل گئی۔ اُنھیں خبر ہی نہ ہونے پائی تھی کہ مُلتان کے ہوشیار دَستوں نے یکایک اُن کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ وہ سراسیمہ اور ششدر اپنے دفاع کے لئے ہڑبڑا کر آگے بڑھے جیسے کوٖئی نابینا فرد گُھپ اندھیرے میں اپنے اردگرد اشیا اور آوازوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر وہ ایک بار پھر مَسکیٹری کی مسلسل اور یکمُشت فائرنگ کی زد میں آگئے۔ کُچھ ہی دیر میں ایڈورڈز اور لیک نے مزید دَستوں اور گُھڑ سواروں کو آگے بڑھ کر اَندھا دُھند فائرنگ کا اشارا کیا۔ نسبتاً زیادہ گولہ بارود اور بندوقیں کی واپسیں یلغار سے مُلتانی سپاہ کا بہت زیادہ نقصان ہوا اور اُنہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔

مجموعی طور پر آٹھ دس اتحادی اور کوئی پچیس تیس کے قریب مُلتانی سپاہی مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ دراصل ہوا یوں کہ مَتی جیل سے کچھ پہلے جنرل وہش نے بھی اپنا کیمپ گاڑ رکھا تھا اور اُس کے کارندوں نے ملتان کے سپوتوں کو درمیان میں ہی دبوچ لیا، جس کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار نہ تھے اور اِس ناگہانی کُشتگانی نے بھی اُنہیں افسوسناک خسارے تک پہنچایا اور دُشمن کی فوج ایک یقینی شکست سے بچ رہی۔

19 اگست 1848 کو جنرل وہش کے دَستوں نے دو کالموں میں ملتان پہنچ کر قلعہ کے شمال مشرق میں شیتل ماڑی پر اپنے خیمے فائرنگ رینج سے ذرا دور نصب کئے۔ دفاع کاروں کے کچھ اِکا دُکا شاٹس یہاں تک بھی پہنچے لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بے اثر ہی رہے۔

جنرل وہش کی کمان میں اسلحہ بردار دو گُھڑ سوار دستے اور گُھڑ سواروں کا ایک رسمی اور ایک غیر رسمی دستہ، خَندقیں اور پُلیں بنانے اور مرمت کرنے والے انجینئرز اور مزدوروں کا ایک جتھہ اور چار مقامی پیادہ دَستے شامل تھے۔

اِس کے علاوہ اسلحے کی ترسیل کے لیے ایک چھوٹا بحری جہاز بھی فیروز پور سے بہاولپور تک دریائے ستلج کے بندشی گھاٹ کے ذریعے آن پہنچا۔ جس میں بیسیوں بندوقیں، تقریباً 12 چھوٹے بڑے گولے، 6 ہوزر گنیں اور بہت سا عسکری سازوسامان شامل تھا۔ کمپنی کے دستوں میں بھاڑے پر بھرتی کئے گئے تنومند جوان اور کُچھ تربیت یافتہ مرد بھی شامل تھے۔ تمام تر رسد وصول کرنے اور میدانِ جنگ کا مکمل جائزہ لینے کے بعد جنرل وہش نے اپنے دستوں کو پہلے سے موجود برطانوی دستوں میں شمولیت اختیار کرنے کا حکم دیا۔

یکم ستمبر 1848 کو ضمنی دستے نے بھی سورج کُنڈ نہر پار کی اور پہلے سے موجود دستوں کیساتھ میدان میں اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چوکس رہنے کی سعی میں کچھ دستوں نے نہر کے مغرب میں پڑائو ڈالا اور کُچھ شمال مَشرق میں مُنظم ہو گئے۔

تقریباً 8 بجے صبح، کھجوروں اور آموں کے باغات اور کچھ چھوٹی بڑی بستیوں میں سے گزرتے ہوئے اُنہوں نے قلعہ ملتان کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔ مگر ملتان کے چاک وچوبند سپاہیوں نے، جو اوپر تلے گھات لگائے بیٹھے تھے، دُشمن کو راستے میں ہی آن لیا۔ نتیجے میں اُن کے کئی دستے تِتر بِتر ہو گئے مگر پھر بھی وہ خاطر خواہ نقصان سے بچ رہے کیونکہ لیفٹیننٹ پولاک کی سرکردگی میں مارچ کرنے والے سپاہی ردِعمل میں جلد ہی چوکنے ہو گئے تھے لیکن اِس کے باوجود بھی اُن کو یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر مُلتانی سِپاہ آموں کے باغات میں مورچہ بند تھی جس نے تھوڑے ہی وقفے کے بعد اُن پر یکایک توپچیوں کے فائر کھول دیے۔

دوسری طرف ملتان شہر کے عام شہری بھی وطن کے دِفاع میں اپنے لشکریوں کیساتھ شامل ہوگئے۔ کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ تقریباً 2 بجے کے قریب میدان میں لڑنے والی سپاہ نے شہریوں کے ساتھ مِل کر مضبوط دفاعی لائن بنا لی۔ دُشمن نے جوگ مایا پر پوزیشن سنبھال کر آس پاس کے گاؤں اور باغات میں توپیں نصب کر لیں اور پھر شام تک بلکہ رات بھر دیوانہ وار خاموشی رہی۔

تاہم 2 ستمبر 1848 کو دشمن دوبارہ قلعہ بند شہر کی طرف عازمِ سفر ہوا۔ جسے پہلے محاصرے کی جانب پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم نہ تو یہ فاصلہ کم تھا اور نہ ہی ملتان کے بہادر سپوت بے خبری کے پنگوڑوں میں سوئے ہوئے تھے۔ کئی بار اُنہوں نے دُشمن کے مورچے اور خندقیں برباد کیں اور اُنہیں ایک محفُوظ فاصلے تک روکے رکھا۔ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اب نواحی بستیوں سے نکل کر بڑے معرکے کی طرف بڑھنے لگی تھیں لیکن یہ پسپائی اور پیش رفت دُشمن کے لئے نہایت کٹھِن رہی۔ ہر چند کہ مزاحمت کار مُلتان کا اِس میں اس میں کافی نقصان ہوا لیکن خالصہ لشکر اور انگریزی افسران کو بھی بھاری جانی اور مالی خسارے سے دوچار ہونا پڑا۔ سپاہِ ملتان گھروں، بستیوں، مساجد اور مندروں میں بھی مورچہ بند ہو کر لڑتی رہی اور آگ اور خون کا یہ کھیل کئی دن تک جاری رہا۔

لیکن بھاری اسلحے کے زور پر 7 ستمبر 1848 تک اِتحادی فوج رام تاریت پر کسی حد تک اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گئی۔ مُلتانی سپاہ کے درجنوں لوگ زخمی ہوئے اور کُچھ واصل بَحق بھی مگر تھوڑے بہت فرق سے گوروں کے بھی کئی مہم جُو زخمی ہوئے۔

کمپنی کے کم از کم نِصف درجن افسران مارے گئے اور ‘لیفٹیننٹ این آئی ڈریوّ’ بے طرح زخمی ہوگیا۔ لڑائی کے عین عروج پر لیفٹیننٹ رچرڈسن نے ایک کچے مکان سے گولیوں کی ترتیِل آتی ہوئی نوٹ کی جو اُن کے دَستوں کو لا پیمانہ زِک پہنچا رہی تھی۔

وہ حرافہ اوصاف بچتے بچاتے بجلی کی طرح لپک کر اُس مکان میں در آیا اور محض چند گز سے حملہ آوران کو جوابی نشانے پر رکھ لیا۔ مگر جلد ہی منہ زور بندوقوں میں گِھر گیا۔ جَب اُسے محسوس ہوا کہ مورچہ بند سپاہی عنقریب اسے گولیوں سے بُھون ڈالیں گے تو اُس نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار ایک محبِ وطن لوکل سِکھ کے سینے میں گھونپ دی اور اُس کے مرتے تڑپتے ہوئے بدن کو ڈھال بنا کر بڑی ڈھٹائی سے باہر نکل آیا۔ مگر اُن کی اپنی کچھار میں بھی بَرگیڈئیرمَرکَھم جان لیوا زخموں سے تڑپ رہا تھا اور لیفٹیننٹ کرسٹوفر کچھ ہی دنوں میں چھاتی کے گَھنے گھاؤ سے تڑپ تڑپ کر چَل بسا۔

لیفٹیننٹ لائیڈ نے بھی اپنی ہوسِ مُلک گیری میں ایسے زخم کھائے کہ وہ بھی چند دِن آہ و ُکا کرتے کرتے کرتے نِرک نصیب ہوا۔ دراصل فائرنگ کے تبادلے کے دوران مزاحمت کاروں کا ایک ٹوٹا ہوا دستہ آگے بڑھا۔ لائیڈ کے وفادار بھی آگے بڑھ کر حملہ کرنے ہی والے تھے کہ وہ اونچی آواز میں بولے "ہم نواب بہاول خان کے آدمی ہیں”۔ لائیڈ نے اپنے آدمیوں کو ایک لمحے کے لئے روکا لیکن آن کی آن میں سپاہیوں نے لائیڈ اور اس کے وفا داروں کا بُھرکَس نکال دیا۔

12 ستمبر 1848 کو موجودہ مقام پر ہی ایک اور گُھمسان کی لڑائی ہوئی۔ دونوں طرف سے گھنٹے شدید گولیوں کی برسات کے بعد خوفناک گُتھم گُتھا تلوار بازی اور سنگین بازی شروع ہو گئی۔ لڑائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خواہش میں مزاحمت کاروں کے بیسیوں فدائین نے جان، جانِ آفرین کے سُپرد کی۔ مگر دُشمن کے بھی کئی اَفسران، خالصہ دربار کے سپاہی اور دُوسرے غدار مارے گئے جِن میں اُن کے 23 کارکنان اور ڈیڑھ سو کے قریب مزخُوم آدمی شامِل تھے۔ کرنل پاٹون اور میجر مورٹیزمبرٹ نے بھی اولے زخم کھائے۔ لیفٹیننٹ کیوٹل اور مسٹر ٹیلر بھی کئی دنوں تک خون تھوکتے رہے۔ علاوہ اَزیں کوئی 13 کے قریب مزید افسران بھی عبرت ناک اَنجام کو پہنچے۔

کمپنی کی اِنگلیسی فوج اب نڈھال ہو چُکی تھی۔ اُن میں سے کئی ایک اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ خندقوں میں اب بھی جو چند ایک جوان باقی رہ گئے تھے، تھکاوٹ سے مرنے لگے تھے کیونکہ اُن میں سے زیادہ تر 48 اور کچھ 72 گھنٹوں سے موت کی اِن راہداریوں میں بُھوکے پیاسے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اپنی اپنی بندوقوں کا بوجھ اُٹھائے پاگلوں کی طرح فائر پھینک رہے تھے۔

خالصہ اِتحادی اور مقامی غدار بھی جارح انگریز کی معیت میں اپنا دِفاع اور مُلتانی افواج کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کو گرانے کی کوشش میں اَدھ موئے ہو چُکے تھے۔ مُلتانی سپاہیوں کے گولا بارود، زمبوروں اور متواتر فائرنگ سے کئی بار اُن کے کیمپوں میں آگ بھڑک چُکی تھی۔ اور بیسیوں لوگ اپنے دست وبازو ناکارہ کروا چُکے تھے۔ سینکڑوں جانیں گنوانے اور بے پناہ مصائب بُھگتنے کے باوجود بھی وہ انگریز کمان کے نیچے قلعہ کی طرف پیش قدمی کرتے رہے۔ کئی ایک غلط راستے اور غلط حِزب واطراف کا انتخاب کرنے کی بِنا پر وہ موت کے عمیق گڑھوں میں جا گرے۔

توّقع سے زیادہ مدِمُقابل فوج کی پامردی اور استقامت اور اپنی افواج کی مدِمقابلی کے مقابلے میں کمزور ہمتی اور قریب از مرگ تھکاوٹ دیکھ کر جنرل وِہش کے ہاتھ پاؤں پُھولنے لگے تھے۔ اُسے خدشہ تھا کہ تھکاوٹ اور کم خوابی کے مارے جَلد اُس کے سپاہی سفرِ آخرت پر روانہ ہو جائیں گے جَبکہ مُلتانی سپاہی، عام شہری اور غیر تربیت یافتہ مرد وجوان بھی ٹِڈی دَل کی طرح اپنی مِٹی کا دفاع کرنے کے لئے اُمڈے چَلے آ رہے تھے۔

اسی دوران بھائی مہارات سنگھ کی سرکردگی میں ایک لڑاکا جتھا مُلتانی سپاہ کی مدد کے لئے روانہ ہوا لیکن خالصہ دربار کی ریگُولر فوج نے چناب کِنارے اپنے ہی لوگوں کی پیٹھ میں خنجر جا گھونپا جس میں زیادہ تر افراد یا تو مارے گئے یا پھر دریا میں ڈوب گئے۔ نتیجے میں عام سکھ اور ملتانی عوام خالصہ دربار اور انگریزوں کے مذید خلاف ہو گئے اور مزاحمت پر ڈَٹ گئے۔

14 ستمبر 1848 کو شیر سنگھ اَٹاری والا نے بالخر انگریزوں کا ساتھ چھوڑ دیا جِ سکی وجہ دراصل اُس کے باپ کا خط تھا، جِس نے اُسے لکھا تھا کہ ” تم لیفٹیننٹ ایڈوّرڈ سے کہو کہ وہ اُس کی بیٹی (یعنی شیر سنگھ کی بہن) سے مہاراجہ دلیپ سنگھ سے شادی کا حسبِ منصوبہ اور حسبِ وعدہ بندوبست کروائے” تاکہ دلیپ سنگھ (دُوسرے لفظوں میں پنجاب میں اٹاری والا خاندان کی) حکمرانی کا راستہ ہموار ہو سکے اور اِسی اُمید پر ہی باپ بیٹا انگریز اور خالصہ دربار کا ساتھ دے رہے تھے۔

دِلی سے ریذیڈنٹ کا جواب آیا کہ "اس سلسلے میں وہ دربار سے مشورہ کرے گا لیکن ساتھ ہی اُس نے یہ بھی لکھ دیا کہ اِس شادی کے ہونے یا نہ ہونے سے ریذیڈینٹ کے دلیپ سنگھ کو پنجاب راج واپس کرنے کے وعدے پر کبھی کوئی آنچ نہیں آئے گی، اِس لئے وہ تسلی رکھے کہ پنجاب مستقبل قریب میں اُن کے ہاتھ میں ہوگا”۔

اَٹاری والا خاندان اِس واہمے کا شکار تھا کہ گوبِند سنگھ کی ساکھی (پیشین گوئی) کے مطابق دلیپ سنگھ نامی فرد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی امپائر دوبارہ کھڑی کرے گا۔ انگریز دوستی کے کارن اور سُجان سنگھ نامی ایک سِکھ کے شیر سنگھ کو ذہر دینے کے شُبے میں اُسے توپ سے اُڑا دینے کے باعث بھی عام سکھ اور مُولراج پہلے ہی اٹاری والا خاندان پر اپنا بھروسہ تَرک کر چُکے تھے۔ اُنہیں یقین تھا کہ انگریز سکھوں کو پنجاب کی حکمرانی واپس کرنے کا عہد کبھی پُورا نہیں کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں سکھ سردار صرف اپنے مفادات کی خاطر ریذیڈینسی کا راج قائم رکھنے کے خواہش مند تھے جبکہ عام عوام خلاف۔

اُدھر چَتر سنگھ (شیر سنگھ کا والد) شُمال مشرق میں ہزارہ کے علاقے میں موجود تھا، جہاں کا ڈپٹی کمشنر جیمز اَیبٹ (جس کے نام سے اَیبٹ آباد، آباد ہے) اُس سے ڈبل گیم کر رہا تھا ور وفاداری کے باوجود اُس نے اُس کی رتی برابر عزت باقی نہیں رہنے دی تھی بلکہ اُس نے وہاں کے قبائلیوں کے ذریعے چتر سنگھ کو قتل کروانے کی بھی کوشش کی۔

پناہ لینے کے لئے جب چَتر سنگھ نے ہری پُور کے قلعے میں موجود ایک امریکی ‘کرنل کینورا’ سے درخوست کی تو ناصرف اُس نے انکار کیا بلکہ اُسے اور اُس کے آدمیوں کو توپ کے نشانے پر رکھ لیا۔ کسی سبب توپ نہ چلنے پر ردعمل میں چَتر سنگھ کے لوگوں نے کینورا کی گردن اُڑا دی۔ جیمز ایبٹ کو چتر سنگھ کو ذلیل اور رُسوا کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آ گیا۔ کیپٹن نکلسن نے، جو بظاہر جیمز ایبٹ اور چَتر سنگھ میں صلح کرانے آیا تھا۔ الٹا چَتر سِنگھ کی جائیداد قُرقی کرا دی۔ چَتر سنگھ نے جو کافی ضعیف اور کمزور نظر بھی تھا، انگریزوں کے ہاتھوں رُسوا ہونے کے بعد ایک بار پھر شیر سنگھ کو لکھا مگر اِس بار اپنی آنکھیں کُھل جانے کے باعِث، اپنی بیٹی کی دلیپ سنگھ سے شادی کی درخواست انگریز حکمرانوں کے چرنوں میں ڈالنے کی بجائے،اُسے انگریزوں کے خلاف جنگ کے لئے اُٹھ کھڑا ہونے کی ترغیب دی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تخت لاہور پر بَراجمان ہونے کی ہوس میں اب باپ بیٹا دونوں ہر طرف سے اور ہر طرح سے بے توقیر اور بے عزت ہو چکے تھے اور خاص طو پر عوام کی نظر میں اپنا وقار گنوا چکے تھے۔

13 ستمبر 1818 کو شیر سنگھ، رات کو ایڈورڈ اور کارٹلینڈ کی ڈِنر ٹیبل پر گیا اور ایڈورڈ کی ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔ شیر سنگھ کو اپنی ہمسری کرتے ہوئے دیکھ کر وانز کارٹلیند اُٹھ کر باہر چلا گیا مگر کچھ ہی دیر میں اُسے معلوم ہوا کہ اُس کا ٹینٹ گھیرے میں لیا جا رہا ہے لیکن وہ اپنے قتل یا گرفتاری کی سازش بھانپتے ہوئے فوراً ہی وہاں سے فرار ہو گیا۔

انگریز سرکار کی ریشہ دوانیوں کو سمجھتے ہوئے اَگلے روز ہی اُس نے اُن کا ساتھ چھوڑ کر قلعہ میں موجود مُولراج کو اپنی حمایت کا یقین دلانے کی کوشش کی مگر بے سُود۔ وہ کوئی تین ہفتے یہی کوشش کرتا رہا مگر کیونکہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا، اِس لئے مُولراج اُس پر بھروسہ کرنے کے لئے ہرگز تیار نہ تھا۔

دراصل درپردہ ایک خُود ساختہ خط کے ذریعے، جو کارٹلینڈ نے اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اور ڈرامہ کرکے خود ہی مُولراج کے ہاتھ لگوایا تھا۔ مولراج کا شک یقین میں بدل گیا کہ شیر سنگھ دھوکے سے اُسے قتل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ ملتان کی تاجوری سنبھال سکے۔ اِس لئے مُولراج نے باوجود شیر سنگھ کی صِدق نیت کے، اُسے اپنی کمان میں نہ آنے دیا۔ سچ یہ ہے کہ اب ناقابل واپسی دیر ہو چُکی تھی۔

بہرحال شیر سنگھ کی وفاداریاں بدلنے کی بنا پر انگریزوں کو ناصرف بہت بڑا جھٹکا لگا بلکہ اُنہیں دوبارہ سورج کُنڈ کی طرف پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ ساتھ ہی ساتھ اِس کمی کو پورا کرنے کے لئے اُس نے مزید غیر مُنظم مقامی غداروں کا ایک دستہ تیار کرنا شروع کر دیا۔

سورج کنڈ پہنچ کر شمال مغرب کی جانب انہوں نے اسی گائوں میں پڑائو ڈالا جہاں پر آتے ہوئے ڈالا تھا اور وہ کچھ روز وہیں دَبکے رہے۔ پھر ملتانی سپاہ کی مزید چڑھائی سے گھبرا کر 1000 تا 1500 میٹر اور پیچھے کِھسک گئے اور اپنے ہی غیر منظم دستے کے بائیں بازو میں پناہ لی۔

اس پسپائی کے دوران 16 ستمبر 1947 کو ملتان کے جری جوانوں نے اُنہیں کافی زیادہ جانی ومالی نقصان سے دوچار کیا۔ کئی بار اُن کے دستوں کو تِتر بِتر کیا مگر کارٹلینڈ کی بروقت جوابی کارروائی سے اُنہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ کارٹلییڈ اور ایڈورڈ نے کئی بار اپنے منظم اور غیر منظم فوجی دستوں کی ترتیب وتقسیم اور احکامات بدلے مگر ملتانیوں کو شکست دینا آسان نہ تھا۔

انگریز افواج غیر منظم دستوں کو یا تو ثانوی حیثیت میں اپنے ساتھ رکھتے تھے یا پھر الگ سے انہیں کوئی ٹاسک دے دیا کرتے تھے۔ اس معاندانہ حکمتِ عملی کی وجہ سے انگریز سپاہیوں کے مقابلے میں مقامی سپاہی زیادہ آسانی سے اور زیادہ تعداد میں مارے جاتے تھے۔ کئی ایک ایسے تھے جو اِس رویے سے تنگ آکر یا اپنے ضمیر کی ملامت پر واپس گھروں کو بھی چلے گئے۔ جو باقی رہ گئے اُن کا انجام اچھا نہ ہوا۔

پہلی محاذ آرائی سے شکست خوردہ، تھکی ماندی اور زخموں سے چور برطانوی فوج جنرل وہش کی کمان میں اب بمبئی سے نئی کُمک کا انتظار کرنے لگی۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر بمبئی سے اُن کی مرکزی قیادت اُنہیں مزید اسلحہ اور تازہ دم فوج بھیج دے تو شاید اُن کی ہلاکتیں کم ہو جائیں، اُنہیں بار بار پسپائی اختیار نہ کرنی پڑے اور اُن کی فتح کا خواب حقیقت میں بدل جائے۔ اِسی انتظار اور اسی تصور میں اُنہوں نے جیسے کیسے سورج کُنڈ میں اپنے تحفظ اور بقا کا عارضی بندوبست کر لیا۔

                        

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author