ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی کی عمارت پر دہشت گردوں کے حملے نے قوم کوایک بار پھر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ سطور لکھنے تک سی ٹی ڈی سینٹر بنوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ مبینہ طور پر عسکریت پسندوں نے افغانستان جانے کیلئے محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کیا ہے، یہی بات قابل توجہ ہے کہ دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں ، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ افغان سرزمین کو بھارت پاکستان کیخلاف اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا آ رہا ہے۔ لکی مروت میں بھی دہشت گردوں نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے 4 اہلکاروں کو شہید کر دیا ، کوئی دن ایسا نہیں کہ افغان بارڈر پر پاکستان کے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کا واقعہ پیش نہ آیا ہو۔ موجودہ افغان طالبان حکومت آنے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی اکابرین خوش تھے مگر امن کی سب اُمیدیں نقش برآب ثابت ہوئی ہیں ۔سی ٹی ڈی سنٹر بنوں پر حملے کے بعد امریکا نے پاکستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مدد کی پیشکش کی ہے ، لیکن دیکھا جائے تو پاکستان جو فصل کاٹ رہا ہے یہ سب امریکا کی ہی بوئی ہوئی ہے، اب پاکستان کو اپنی افغان پالیسی پر ہر صورت نظر ثانی کرنی چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی آمد سے پاکستان میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے جو کہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ مہاجرین کی آمد اور آبادکاری کا مسئلہ ہمیشہ حساس رہا ہے۔ پناہ گزینوں کی تاریخ کو دیکھیں تو آسٹریلیا، کینیڈا ، امریکا ، سپین ، روس ، جرمنی وغیرہ کی تاریخ پناہ گزینوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایک وقت یہودیوں کو بھی پناہ گزین بننا پڑا اور فلسطینی مسلمانوں کو بھی لیکن سب سے بڑی ہجرت ہندوستان کی تقسیم کے وقت سامنے آئی اور تقریباً 70 لاکھ مسلمان پناہ گزین ہندوستان سے پاکستان آئے۔ ہندوستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی داستان نہایت ہی دردناک ہے ، مقامی افراد کی کشادہ دلی سے ابھی وہ ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا سانحہ پیش آ گیا ، اس سانحے کے بعد ابھی ہم سنبھلے ہی نہ تھے کہ امریکا اور روس کی جنگ ’’ جہاد افغانستان ‘‘ کی شکل میں پاکستان پر مسلط ہو گئی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ پاکستان پر آن پڑا ۔ افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد امن و امان کی صورتحال جس قدر خراب ہوئی اور کرائم کی شرح بڑھی ‘ اس کا تذکرہ پولیس ‘ رینجرز اور تمام حساس اداروں کے ریکارڈ میں آج بھی محفوظ ہے ۔ روس کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہوا، مذہب کے نام پر پاکستان کے دینی مدارس کو جنگ کا حصہ بنایا گیا، امریکا اور یورپ کی طرف سے بہت سرمایہ پاکستان آیا، حکومت کی طرف سے سرپرستی ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور اقتدار میں فرقہ واریت ، عدم برداشت اور انتہاء پسندی کا جو بیج بویا تھا وہ فصل پک کر تیار ہو ئی اور آج بھی پاکستانی قوم سروں کی فصل کی شکل میں کاٹتی آ رہی ہے۔ ویسے تو پاکستانی سرزمین کا کوئی ایک ایسا چپہ خالی نہیں جہاں دہشت گردی نہ ہوئی ہولیکن وسیب کے اضلاع ٹانک و ڈی آئی خان دہشت گردوں کے مسلسل نشانے پر ہیں ۔ خیبرپختونخواہ میں گزشتہ20 سال میں مختلف حکومتیں تبدیل ہوئیں، علماء کرام کی جماعت متحدہ مجلس عمل قوم پرستوں کی جماعت اے این پی اور عمران خان کی تحریک انصاف ، ان تینوں جماعتوں کی سوچ مختلف ہے منشور بھی الگ الگ ہیں مگر وسیب کے مقامی لوگوں کو کچلنے اور ان کو نقل مکانی پر مجبور کرنے پر سب کا اتفاق رہا۔ جس کی بناء پر میں نے سابق چیف آف آرمی سٹاف جناب قمر جاوید باجوہ صاحب کو خط لکھا تھا، مجھے توقع نہ تھی کہ کوئی جواب آئے گامگردو تین ہفتے بعد اچانک فون آیا ، بات کرنے والے نے بتایا کہ میرا نام شاہد ہے ، پاک آرمی سے بول رہا ہوں ، آپ نے ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں آرمی چیف صاحب کو خط لکھا تھا اس پر جی ایچ کیو کی طرف سے ایکشن ہوا ہے، کل صبح آپ اسٹیشن ہیڈ کوارٹرڈی آئی خان کینٹ میں اپنا موقف ریکارڈ کرائیں۔ میں نے مصروفیت کے باعث دو دن کی مہلت چاہی تو شاہد صاحب نے کہا کہ بہتر ہے آپ اپنی مصروفیات ترک کر کے اپنا موقف ریکارڈ کرائیں ، سارے کام چھوڑ کر میں ڈی آئی خان پہنچا، وہاں بریگیڈیئر عاطف منشاء صاحب اور کرنل عثمان صدیقی صاحب نے انتہاء پسندی، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے پس منظر کے ساتھ ساتھ دوسرے امور پر میرا موقف سنجیدگی سے سنا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کی مدد کی ، اس مدد کا جوجواب ملا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، افغانستان پر طالبان کے قبضے کے معاملہ پر عالمی برادری کی اکثریت کی جو آراء ہیں ان سے صرف نظر کیا جانا مشکل ہے، ان آراء اور تحفظات کے باوجود انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جو بن پایا وہ کر چکنے پر بھی اگر جواب میں طالبان حکومت نے دہشت گردوں کی ناز برداری کرنی ہے تو ہمیں بھی اپنے مفادات بارے سوچنا ہوگا۔ تاخیر کی بجائے ہنگامی بنیادوں پر صورتحال کا تجزیہ اور افغان پالیسی کی از سر نو تشکیل از حد ضروری ہے۔ وزارت خارجہ و دیگر حکام کو افغان عبوری حکومت سے دو ٹوک انداز میں بات کرنا ہوگی، پچھلے چند ماہ کے دوران رونما ہوئے واقعات کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لے کر اگر افغان طالبان کی قیادت سے بات کی گئی ہوتی تو عین ممکن ہے کہ وہ بھی کچھ سوچنے کی زحمت کرتی ، یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ بعض سنگین واقعات میں ملوث تنظیموں کے کرداراور ان کے سہولت کاروں سے آگاہی کے باوجود اس طور پر ردعمل سامنے نہیں آیا جس کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر