عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستارے کی آہٹ کے بغیر صحرا کا سفر منزل سے دور کر دیتا ہے، سحر کا ستارا کیا جانے تیرگی میں روشنی کے معنی کیا ہیں۔ نہ منزل کا پتا نہ سحر کی خبر، نہ روشنی سے واسطہ نہ صبح کی نوید، بے منزل سفر کے مسافر کس جانب رواں ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔
ریاست چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ آستینوں میں چھپے دشمن سے دست بدست لڑائی ہی ہو سکتی ہے سو ہو رہی ہے۔ بیرونی محاذ پر ڈٹے اندرونی لڑائی میں شکست خوردہ، ہر گلی سرحد بن رہی ہے اور ہر محلہ محاذ، تفریق تقسیم میں اور تنقید تضحیک میں بدل چکی ہے، معیشت معاشرت کو تبدیل کر رہی ہے اور عدم برداشت کا رواج سماج پر اثر ڈال رہا ہے۔ مملکت یوں خالی ہاتھ ہو گی کبھی سوچا نہ تھا۔
بنوں میں ہونے والے تازہ حادثے کی پرورش نہ جانے کب ہوئی اس کا جواب تو معلوم نہیں تاہم سوال یہ ہے کہ یہ نقب تازہ ہے یا کسی سیاسی مفاد میں چھپی سہولت کاری کا نتیجہ؟ دہشت گردوں کا انسداد دہشت گردی ادارے پر قبضہ کس سیز فائر معاہدے کی بزدلی کی سند دے رہا ہے اور کون گذشتہ ایک دہائی سے آئین سے بالا نظریاتی دہشت گردی کی بنیاد پر ’سیاسی سرمایہ کاری‘ کی کوشش کر رہا ہے؟
شکوہ یہ نہیں کہ گلی کوچوں میں چھپے دشمن باہر نکل رہے ہیں، شکوہ یہ ہے کہ اُنھیں چھپا کر بھی چھپایا نہیں جا سکا۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کی ذمہ دار تحریک انصاف حکومت ہے یا ریاست، بہرحال ذمہ داری اُس ایک صفحے کو بھی لینی ہو گی جس کی تحریر کا محور محض ذاتی مفادات کے تحفظ کے سوا کچھ نہ تھا۔
جنرل باجوہ گمنامی میں جا کر بھی ’نام‘ کما رہے ہیں، جنرل فیض چکوال کی سُنہری دھوپ میں داد وتحسین سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور عمران خان زمان پارک میں اختیار اور بے اختیاری کی داستان لگاتار سُنا رہے ہیں۔
ہر روز لانڈری میں گندی لینن دھونے سے ہاتھ تو کچھ نہیں آ رہا البتہ مزید غلاظت باہر آ رہی ہے۔ ریاست بقا کی اس لڑائی میں سچ کھوجنے کی کوشش کرے تو شاید ہاتھ جھوٹ ہی آئے لیکن کوشش تو ہو۔
ایک طرف معاشی بحران خودمختاری کی دہلیز پر ضرب لگا رہا ہے تو دوسری جانب دہشت چوکھٹ سے لگی بیٹھی ہے۔ نعروں اور وعدوں کے فریب میں الجھے ہوئے بے بس لوگ فقط آسمان کی جانب مُنھ کیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے دامن پھیلائے بیٹھے ہیں جبکہ جواب میں ہُو کا عالم ہے۔ ہم ازل کے محتاجِ غنی خالی ہاتھوں کو تک رہے ہیں۔ شدید ہوتا معاشی اور سیاسی بحران کب ختم ہو گا کوئی نہیں جانتا۔
پنجاب میں ایک مرتبہ پھر اقتدار کا سرکس لگنے کو ہے، مٹی کے باوے جماعتیں بدل بدل کر سیاست کے سینے میں بے رحم دل آزما رہے ہیں۔ بداعتمادی کی اس فضا میں کبھی اعتماد اور کبھی عدم اعتماد کی تحریکیں آ رہی ہیں اب کی بار پاکستان کے سب سے بڑے اور معاشی طور پر قدرے مستحکم صوبے میں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی معاشی بنیادوں کو ہلا رہی ہے جس کا ادراک شاید تب ہو گا جب معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
اتحادی جماعتیں پنجاب کی سیاست کو تو سنبھال لیں گی مگر معیشت سنبھالنا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں۔ ریاست واقعی نازک موڑ پر کھڑی ہے جبکہ سوچنے کی گھڑی ہے کہ ہم بدلیں گے یا حالات، یا دونوں کسی معجزے کے منتظر ہیں اور یاد رہے معجزے روز نہیں ہوتے۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر