وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح شوگر کوئی مرض نہیں مگر اسے ام المرائض کہا جاتا ہے۔ اسے بروقت نہ سنبھالا جائے تو رفتہ رفتہ گردہ، دل، بینائی اور دیگر اعضاِ رئیسہ و خبیثہ ناکارہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسان موت کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔
بیعنہی غصہ کوئی نفسیاتی بیماری نہیں بلکہ ناپسندیدگی کی انتہائی شکل پر مبنی ایک جبلی ردِعمل ہے۔
لیکن اگر اس پر دھیان نہ دیا جائے اور سیلف کنٹرول کے نسخے سے اسے قابو میں نہ رکھا جائے تو پھر یہ سب سے پہلے بینائی پر حملہ آور ہو کر ٹنل ویژن کا سبب بنتا ہے۔
پھر یہ ٹنل ویژن قوتِ فیصلہ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ قوتِ فیصلہ ناکارہ ہو جائے تو یہ دماغ پر پوری طرح قبضہ کر کے انسان کو بربادی کی جانب دھکیل سکتا ہے۔
انسان برباد نہ بھی ہو تو ذلت و رسوائی، اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور خود ندامتی سے ہرگز نہیں بچ سکتا۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ غصہ کی حالت میں کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ، بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ، لیٹے ہو تو آنکھیں موند لو اور سوچو کہ اس کا متبادل اور کیا کیا ممکن ہے۔
غصے کا اسٹرٹیجک استعمال دانا دشمن کا سب سے موثر پھندہ ہے جس میں نادان دشمن کو بہت آسانی سے جکڑ کے یرغمال بنا کے رگیدا جا سکتا ہے۔ غصہ ریموٹ کنٹرول ہے جس کا ذہین استعمال کر کے مخالف کو آسانی سے اپنی مرضی کے میدان میں نچا کے تماشا بنایا جا سکتا ہے۔
تمام چھوٹی بڑی لڑائیاں غصے سے شروع ہو کر کسی ایک فریق یا فریقین کی ندامت پر ختم ہوتی ہیں۔
غصہ طاقت کی نہیں کمزوری کی نشانی ہے۔ غصہ سب سے پہلے آپ کے اعصاب کو آپ کا دشمن بنا دیتا ہے اور پھر یہ اعصاب آپ کو کھلونے کی طرح دشمن کے آگے ڈال دیتے ہیں۔
غصہ فرد کو تو آ سکتا ہے مگر ریاست، حکومت، جج اور لیڈر کو تو بالکل نہیں آنا چاہیے۔ فرد کا غصہ ایک خاندان کو تباہ کر سکتا ہے مگر ریاست، حکومت، جج اور لیڈر کو آ جائے تو مملکت، گورننس کا ڈھانچہ، سماج اور انصاف برباد ہو سکتا ہے۔
لہذا ہر ریاستی عہدیدار اور ذمہ دار کو نادیدہ روشنائی سے موٹا موٹا لکھ کے دیوار کے پیچھے اور آنکھوں کے سامنے لگا دینا چاہیے کہ کچھ بھی ہو جائے غصے میں نہیں آنا۔ آ جائے تو پی جانا ہے یا اسے من کے ریفریجریٹر میں رکھ چھوڑنا ہے اور بہت ہی ناگزیر ہو جائے تو ٹھنڈے ٹھنڈے تھوڑی تھوڑی مقدار میں استعمال کرنا ہے۔
طاقتور تو شاید غصے کے نقصانات عارضی طور پر جھیل جائے مگر کمزور کو اگر باعزت طور پر اپنی خودداری برقرار رکھتے ہوئے زندہ رہنا ہے تو اسے اپنی حکمتِ عملی میں سے سب سے پہلے غصے کو خارج کرنا پڑے گا۔
معیشت کمزور ہے کوئی بات نہیں۔ کل ٹھیک بھی ہو سکتی ہے۔ بس ایک کام کرنا ہے، طیش میں نہیں آنا اور اعصاب کو بے قابو ہونے سے بچانا ہے۔
طالبان پھر سے طاقت پکڑ رہے ہیں اور حکومتی رٹ کے گلے میں ایک بار پھر اوجھڑی ڈال کے کھینچنا چاہ رہے ہیں۔ غصہ آئے گا تو اسٹرٹیجک صبر کو کام میں لاتے ہوئے ان سے نپٹنا اور مشکل ہو جائے گا۔
ایسے مرحلے پر نہ اپنی پرانی کامیابیوں کو رائیگاں ہوتے دیکھ کے کفِ افسوس ملنا ہے اور نہ ہی اس افسوس کو جھنجھلاہٹ اور پھر اس جھنجھلاہٹ کو غصے میں تبدیل کر کے ان کے ایجنڈے کا قیدی بننا ہے۔
بس یہ جائزہ لینا ہے کہ اتنی محنت کے باوجود دہشت گردی کی بیخ کنی کیوں نہیں ہو پائی اور پھر خود احتسابی کے آئینے میں اپنی شکل دیکھ کے الزام تراشی میں قیمتی قوت ضائع کرنے کے بجائے دوبارہ ڈرائنگ بورڈ پر بیٹھ جانا ہے۔
انڈیا کے ساتھ چھیچھا لیدر کے تازہ دور میں داخل ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔کرنے کو بہت سے اہم کام ہیں۔ بہترین انتقام خاموشی ہے۔ اگر آپ اندر سے طاقتور ہیں تو اپنی اینٹیں اور پتھر آڑے وقت کے لیے بچا کے رکھیں۔ نرم گرم ہو کر خود کو ہلکان نہ کریں۔دشمن کو دشمنی کرنے دیں آگے بڑھ کے اس کے ایجنڈے کا ایندھن نہ بنیں۔
آپ کو چین بہت پسند ہے نا۔ چینیوں نے اعصاب کو قابو میں رکھنے کے مسئلے پر پچھلے ڈھائی ہزار برس میں بہت کام کیا ہے۔ اس کا پھل انھیں آج مل رہا ہے۔ اس بابت تھوڑی بہت تعلیم چینیوں سے ہی لے لیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر