جون 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیارا دل دل دل اور اردو کانفرنس! ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

چلیے آپ آرام کر لیں، میں تھوڑی دیر بعد پھر اناؤنس کروا دوں گی۔ ارے بی بی، تم چاہے ساری عمر اناؤنس کرواتی رہو، وہ نہیں تمہیں ملنے والی، ہم دل ہی دل میں مسکرائے۔ ہمیں کبھی نہیں ملی باوجود برسوں کی تلاش کے، تو تمہاری ایک آواز تو کچھ معنی نہیں رکھتی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جادو نگری میں میز پہ پڑے چھوٹے سے ڈبے سے آواز آتی۔ دل لگی میں ایسی دل کو لگی کہ دل کھو گیا، کسی کا دیوانہ یہ دل ہو گیا۔ کس کو یہ سمجھ کہ دل لگی کس چڑیا کا نام ہے، نہ دل کے کھو جانے کی خبر اور نہ ہی دیوانگی کی۔ بس علم تھا تو اتنا کہ ناہید اختر اگر لہک لہک کر گاتی ہیں تو ان کے سر ایک چھوٹی سی لڑکی کے ننھے سے دل کو بے قابو کر دیتے ہیں۔ اور پھر وہ صحن میں اچھلتی کودتی گاتی پھرتی ہے۔ دل لگی میں ایسی دل کو لگی۔

کچھ ہی دن بعد ایک اور پسند آ گیا۔ گانا تو ضروری تھا سو گایا۔ پیارا دل دل دل، پیارے بچوں کا دل، پیارا دل دل دل، ماما پاپا کا دل، پیارا دل دل دل۔ دل جو توڑے اس سے کبھی نہ ملو، ہٹو بچو۔

جھوم جھوم کے، اچھل اچھل کے گاتے رہے۔ ہر وقت خیال رہا کہ حسن جہانگیر سے کم نہ لگیں۔ آخر کب تک؟ گا گا کر جب تھک گئے تو سوچا، اب کوئی غمگین گیت۔ مل گیا فوراً۔ لیجیے جناب اب آہیں بھر بھر کے، گہری سانسیں۔ میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔

گھر میں ہر کوئی اپنے آپ میں مگن، سو نہ ہمارے اچھلنے کو کسی نے غور سے دیکھا اور نہ ہی آہیں بھرنے کو۔ جب چوبیس میں سے بیس گھنٹے ریڈیو بجتا رہے گا تو کسی کو کیا پڑی کہ ہمارے سروں کی طرف دھیان دے۔

اب تک سب کچھ اردو میں۔ پنجابی کیوں پیچھے رہتی؟ فوراً آن دھمکی کہ مادری زبان بھی گاؤ نا۔ دل دیاں لگیاں جانے نہ، میرا پیار پچھانے نا۔ بات تو وہی تھی دل لگی والی بس ذرا گھما پھرا کر کہی گئی تھی۔

کبھی کبھار انڈیا سروس سننے کو مل جاتی۔ دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن، سے بہتر کیا ہو سکتا تھا؟ خیر دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نا، پگلا ہے، سمجھانے سے سمجھے نا، بھی برا نہیں تھا۔ پگلا کون تھا؟ آج تک تو سمجھ نہیں سکے۔

اتنے برسوں ریڈیو کا اور ہمارا ساتھ رہا لیکن قسم لے لیجیے جو خیال آیا ہو کہ ریڈیو کم بخت نے ہمیں کن دلی معاملات میں الجھا رکھا ہے۔ ویسے اچھا ہی ہوا کہ دل محترم ریڈیو کی تاروں میں الجھے رہے، کہیں اور تاک جھانک کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔

بہت سے برس دل میاں سے باتیں کرتے، بہلاتے سمجھاتے، سنبھالتے گزر گئے مگر بے قابو ہونے پہ آئے تو باؤلے ہو کر دھڑکنا ہی بھول گئے۔ حیرت سے پوچھا ہم نے، دل بھیا کیا معاملہ ہے؟ بے نیازی سے بولے، دل کا معاملہ ہے، چھوڑو تمہارے بس کا روگ نہیں۔

خیر برسوں کا ساتھ تھا سو دل صاحب کو ہسپتال اکیلے کیسے بھیجتے؟ ساتھ جانا ہی پڑا۔ ریسپشن ڈیسک پہ دل محترم تو چھپ گئے، ہمیں آگے پیش کر دیا۔ ریسپشنسٹ نے ہمارے پیچھے نظر دوڑائی جی، کہاں ہے آپ کا مریض؟ وہیل چئیر پہ ہے کیا؟

ایں۔ وہیل چئیر۔ کیا کہیں؟ پھنسی پھنسی آواز اٹکتی ہوئی گلے سے نکلی۔ وہیل چئیر۔ مریض۔ نہیں تو۔ اصل میں۔ وہ مریض تو آپ کے سامنے ہے۔

اب کے ریسپشنسٹ کی آواز گم ہونے کی باری تھی۔ ہت تیرے کی۔ یہ شوخ جو سامنے ہنستی مسکراتی کھڑی ہے، یہی؟ کیا یہی ہے مریض؟

شوخ نے مسکرا کر کہا، اصل میں ریسپشنسٹ صاحب، ہمارے دل کو بیٹھے بیٹھے اچانک دل لگی سوجھ گئی، دھڑکنا ہی بھول بیٹھے، اب کیا کریں؟ عمر بھر کا ساتھی ہے، اکیلا کیسے چھوڑتے؟ ساتھ آنا ہی پڑا۔

آپ کا اٹینڈنٹ کون ہو گا ریکوری میں؟

ایں۔ کیا تیمار دار بھی چاہیے ہو گا؟ نہیں بھئی۔ گرو تو کہتے ہیں، رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو/ ہم زباں کوئی نہ ہو، ہم سخن کوئی نہ ہو۔ مانا کہ کروڑ کے شہر میں دو چار نکل ہی آئیں گے جو تیمارداری کی رسم نبھانے کو دوڑے چلے آئیں گے لیکن ہو سکتا ہے ان کے دیکھے سے منہ پہ رونق کچھ زیادہ آ جائے اور حال بہت ہی اچھا دکھنے لگے سو رہنے دو بھئی۔ ہم خود ہی بیمار اور خود ہی تیمار دار۔

ویسے بھی کوئی بار بار طبیعت پوچھے تو ہم بیزار ہونے لگتے ہیں چلو چھوڑو، چھوٹا موٹا آپریشن ہے، کروا کے لوٹ پوٹ کے اٹھ بیٹھیں گے، تم فکر نہ کرو، ہم اکیلے ہی سو پہ بھاری۔

رسیپشنسٹ کچھ سمجھا، کچھ نہیں۔ یقیناً سوچتا تھا کہ موصوفہ کچھ کھسکی ہوئی ہیں۔

خیر داخلہ پیپر لے کر وارڈ میں پہنچے۔ وہاں بھی وہی سوال۔ مریض کہاں ہے؟ افوہ ٹھیک ہے کہ ہم دھوکا دینے میں ماہر ہیں مگر اب ایسا بھی کیا کہ ان سب کو ثبوت دینا پڑے۔ ارے بھائی ہم ہی ہیں مریض، ہمیں ہی ہوا دل کا درد۔ لیں گانا یاد آ گیا، درد دل، درد جگر دل میں جگایا آپ نے۔

نہ ہم وہیل چئیر پہ تھے نہ گردن ایک طرف ڈھلک رہی تھی سو کسی کو بھی فکر نہیں تھی کہ مریض کو بستر الاٹ کیا جائے۔ جب مریض کرسی پہ بیٹھے بیٹھے سوکھ گیا تب عرض کی اے سفید یونی فارم والے مہربان ہم بھی مریض ہوتے ہیں اور آدھ گھنٹے بعد ہمیں آپریشن تھیٹر سے بلاوا آنا ہے سو کچھ توجہ ادھر بھی۔

بمشکل ایک بستر ملا۔ بیٹھ کے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دل ہی بیٹھ گیا۔ چھ بسترکے وارڈ میں سے پانچ پہ اسی پچاسی برس کے بابے، نحیف ونزار حالت میں دنیا و مافیہا سے بے زار۔ آنکھیں موندے، کراہتے، چار چھ مانیٹر ز اور تاروں کے جال میں جکڑے۔ اے بھیا دل کہاں لا پھنسایا تم نے ہمیں؟ ابھی تو کھیلنے کودنے کے دن ہیں ہمارے۔ دل صاحب کہنے لگے بڑی بے نیازی سے۔ اور کھاؤ تاؤ ہر بات پہ، دنیا بھر کا غم انڈیلو مجھ پہ، پھر یہ تو ہو گا۔

اچھا بابا، اب کیا کریں؟ نہ تمہارا دوش، نہ ہمارا۔ اوپر والے کی مرضی۔

آپریشن تھیٹر پہنچے۔ مہربان ڈاکٹر، مستعد سٹاف۔ لیٹ گئے چپ چاپ میز پہ، قربان گاہ، سوئے مقتل۔ کتنے ہی لفظ یاد آنے لگے۔ کیا اس عمارت سے باہر کوئی جانتا ہو گا، کیا ہونے جا رہا ہے اندر ایک خاموش ٹھنڈے کمرے میں؟ مانیٹرز سے گھری ایک میز پہ اکیلی لیٹی عورت کیا کچھ سوچ رہی ہے؟ بیتے ہوئے ستاون برس۔ نہیں نہیں تریپن۔ شروع کے دو چار برس بھلا کس کو یاد؟ چلو چھوڑو تریپن یا ستاون، پچھلے چار برس یاد کرو۔ کیا کرتی رہیں پچھلے چار برس کے اس نئے قلمی سفر میں؟ کیا کچھ لکھا؟ کیا سیکھا؟ کیا ملا؟ کیا کھویا؟ کیا محسوس کیا؟ اداسی؟ خوشی؟ کامیابی؟ افسوس؟ دکھ؟

ہم آپریشن شروع کرنے جا رہے ہیں، دیکھتے ہیں یہ دل اس قدر بے چین کیوں رہتا ہے؟ ڈاکٹر بھی خوب تھا۔ ٹھونک بجا کر دیکھیے گا ڈاکٹر، بہت تنگ کر رکھا ہے اس نے، عمر گزر گئی مگر نچلا نہ بیٹھنے دیا۔ کہتے کہتے ہی آنکھ لگ گئی۔

آنکھ کھلی تو وارڈ میں بابوں کے بیچ۔ ویسے سب اتنے بھی بے حال نہیں تھے، کہ کبھی کبھی اچٹتی سی نگاہ ڈال لیتے ساتھ والوں کی نظر بچا کر۔ آپ کے ساتھ کون ہے؟ نرس نے سوال کیا۔ پوچھئے کون نہیں ہے؟ دواؤں کی مدہوشی میں ہمارا جواب۔ وہ سمجھ گئی بڑھیا سٹھیانے کے قریب ہے۔ پھر بولی، نام بتائیے، باہر سے بلوا دیتے ہیں۔ کس کا نام بتائیں؟ بچے؟ نہیں بھئی امریکہ سے آنے میں تو بہت دیر لگے گی۔ بہن بھائی شوہر؟ کیا تکلیف دیں انہیں دوسرے شہروں سے۔ چھوڑو اب سب کچھ تو ہو گیا۔

بتائیے نام؟ وہ پھر بولیں۔ اچھا طاہرہ کو بلوا دو۔ ہمارا کراہتے ہوئے جواب۔ کیا؟ سائرہ؟ نہیں بھئی طاہرہ، طاہرہ۔ کیا جو آپ کے ساتھ ہیں ان کا بھی نام طاہرہ ہے؟ نرس نے پھر پوچھا۔ جی، انہیں کا نام تو طاہرہ ہے، آنکھیں موندے موندے ہم بولے۔ تھوڑی دیر اناؤنسمنٹ ہوتی رہی۔ بیڈ نمبر چھ کی اٹینڈنٹ طاہرہ اندر آ جائیں۔ کون آتا؟ تھوڑی دیر بعد ہانپتی کانپتی وہ آئیں، کیا نام درست ہے، طاہرہ؟ جی بالکل درست۔ لیکن وہ سن نہیں رہیں غالباً ہماری اناونسمنٹ۔ جی ایسی ہی ہیں وہ، کسی کی نہیں سنتیں، ہم دھیرے سے مسکرائے۔ اچھی تیماردار ہیں، فکر ہی نہیں کہ ان کا مریض آپریشن تھیٹر سے لوٹا ہے، وہ بڑبڑائیں۔ ایسی ہی ہے وہ بے فکری، اپنی ذات کے متعلق خود بھی فکرمند نہیں ہوتی، کسی اور کو بھی فکر مندی کا موقع نہیں دیتی۔

چلیے آپ آرام کر لیں، میں تھوڑی دیر بعد پھر اناؤنس کروا دوں گی۔ ارے بی بی، تم چاہے ساری عمر اناؤنس کرواتی رہو، وہ نہیں تمہیں ملنے والی، ہم دل ہی دل میں مسکرائے۔ ہمیں کبھی نہیں ملی باوجود برسوں کی تلاش کے، تو تمہاری ایک آواز تو کچھ معنی نہیں رکھتی۔

وارڈ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد لاؤڈ سپیکر پہ اناؤنسمنٹ ہوتی؛ ڈاکٹر یسین بیڈ نمبر پانچ کو دیکھیں، نبض ڈوب رہی ہے۔ یہ سن کر باقی مریض بوکھلا کر اپنی نبض ٹٹولنے لگتے۔ ڈاکٹر اکرم، بیڈ نمبر چار کو فوراً آپریشن تھیٹر شفٹ کروائیں۔ ڈاکٹر تنویر بیڈ نمبر دو کا کینولا بند ہو گیا، ڈرپ رک گئی جلدی آئیں۔ بیڈ نمبر تین کی سانس اکھڑ رہی ہے۔

انتظار میں ہی رہے ہم کہ کوئی بیڈ نمبر چھ کا بھی نام لے۔ نہ سانس اکھڑا، نہ نبض ڈوبی، نہ ڈرپ رکی۔ اس ہنگام کے خاموش تماشائی ہی رہے ہم۔ بوریت میں دن گزر گیا۔ شور اس قدر کہ ہم حیران یہ دل کے مریضوں کا وارڈ ہے یا ریلوے سٹیشن، جہاں لاؤڈ سپیکر کی آواز کے ساتھ بھانت بھانت کی بولیاں۔ سسٹر تمہاری بہن کا کیا حال ہے؟ کیا بتاؤں ساس نے جینا حرام کر رکھا ہے، میاں بے غیرت خرچہ دیتا نہیں، پیٹ میں حمل ضرور ڈال دیتا ہے۔ لو جی ہم جہاں بھی جائیں ایسی کہانیاں ہی کیوں سننے کو ملتی ہیں؟ شاید ہر کہانی ایک جیسی ہوتی ہے۔ اچھا تو ہم کہہ رہے تھے ریلوے پلیٹ فارم۔ گرم آنڈے، گرم آنڈے، کڑک چاہ، کڑک چاہ۔ تیز گام چار نمبر پلیٹ فارم پہ آ رہی ہے۔ تیز رو آدھا گھنٹہ لیٹ ہو چکی۔ لڈی ہے جمالو پاؤ لڈی ہے جمالو۔

خیر شام ہوئی، ہر بیڈ کے گرد خبر گیروں کا جمگھٹا لگا سوائے بیڈ نمبر چھ کے جس پہ ایک غریب الوطن، غریب الشہر اپنے آپ سے باتیں کرتی تھی۔

کلائی پہ بڑا سا کٹ تھا، جہاں سے رگ کاٹ کر دل تک رستہ بنایا گیا تھا۔ سارا دن وقفے وقفے سے خون بہتا رہا۔ شام کو خون تھما اور پوچھا گیا کہ رہنا پسند کریں گی کہ جائیں گی؟ نہیں بابا جائیں گے، پلیٹ فارم پہ مزید نہیں ٹھہرا جا سکتا، گھر جا کر سوئیں گے۔ پھر کل شام آرٹس کونسل بھی تو پہنچنا ہے کانفرنس میں۔ بی بی ہوش میں تم ہو کیا؟ آج دل کا آپریشن، کل اردو کانفرنس۔ تو کیا ہوا؟ یہی تو ہے ہماری بے فکری اور بے نیازی۔ کر گزرو جو بھی دل چاہے۔ درد اور تکلیف خود ہی برداشت کرو، کسی بھی سہارے کے بنا۔ آزماؤ خود کو کہ کہاں تک سہ سکتے ہو؟

ڈس چارج کاغذ ہاتھ میں۔ دائیں کلائی سوجی ہوئی۔ کیا وہیل چئیر پہ آپ کو نیچے تک چھوڑ آئیں؟ نرس نے ترس کھاتے ہوئے پوچھا۔ سوچتی ہو گی کیا بے چاری عورت ہے، کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہیں؟ یہاں لوگ دس بیس لوگوں کے بیچ میں آتے جاتے ہیں، صدقہ خیرات امام ضامن۔ یہ محترمہ صبح سویرے اکیلی ٹک ٹک کرتی آئیں اور اب شام کو ہولے ہولے چلتی ہوئی جا رہی ہیں اکیلے۔

آخر رہ نہ سکی، کیا آپ کو کوئی لینے آئے گا؟ جی آئے گا کریم کا ڈرائیور۔ ہم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اب کے اسے کوئی شک نہیں تھا کہ ہمارے پیچ کچھ ڈھیلے ہیں۔

دوسری شام عالمی کانفرنس میں ہم موجود تھے، دل کے انہی معاملات کے ساتھ۔ کلائی پہ ایک پٹی بھی بندھی تھی، جو گزرے دن کا احوال بتاتی تھی لیکن ہمیں ہنسنے سے فرصت نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: