نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

16 دسمبر۔ سانحات کا دن۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے، زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کو نصف صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’تو لاکھ زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ، گردش ایام میں آج اپنی ادا دیکھ‘‘ گردش ایام کا سلسلہ جاری ہے مگر ہم نے نہ ماضی سے سبق حاصل کیا اور نہ ہی اپنی ادائوں پر غور کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے صدمے کو ہم نہیں بھولے تھے کہ 16 دسمبر ،سقوط ڈھاکہ کے بعد سانحہ پشاور کی وجہ سے اس دن کا صدمہ دوہرا ہو گیا ، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ تاریخ انسانی اسے کبھی نہیں بھول پائے گی ۔ دہشت گردوں نے جس درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کیا اور پھول جیسے بچوں کو شہید کیا تو دوسرے دن جنازے کے موقع پر پوری دنیا بول اُٹھی کہ جنازوں پر پھول سب نے دیکھے تھے ، پھولوں کے جنازے پہلی مرتب دیکھے ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ہماری پاک افواج اور دیگر اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بہتر نتائج سامنے آئے اور دہشت گردی کے واقعات میں بہت حد تک کمی آئی ۔ اگلے قدم کے طور پر دہشت گردی کے اسباب غربت ‘ جہالت ‘ بے روزگاری اور نا انصافی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ بھی نا انصافی کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ۔ کیا موجودہ حکمران مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر غور اور نا انصافی کے خاتمے کیلئے اقدامات کریں گے ؟ یہ ٹھیک ہے کہ علیحدگی کے ہزاروں اسباب کی لب کشائی کے باوجود ابھی ہزاروں عوامل ایسے ہیں جن پر مصلحتوں کی گرد جمی ہوئی ہے اس خوف سے اس پر بات نہیں کی جا رہی کہ لوگ باخبر نہ ہوجائیں۔کتنی افسوسناک صورتحال ہے سانحہ مشرقی پاکستان کو نصف صدی بیت گئی مگر غلطی آج بھی تسلیم نہیں کی جا رہی ۔ حالانکہ جو قومیں ماضی کی غلطیوں کا تسلیم نہیں کرتیں ان سے مستقبل کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔ حقیقت یہی ہے کہ ماضی سے آپ جتنا واقف ہوں گے مستقبل کی اتنی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے گی ۔ قومی حادثے آن واحد میں نہیں ہوتے بلکہ شاعر نے درست کہا ہے کہ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں،حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔ آج جو حکمران ہیں کل اپوزیشن میں تھے اور آج جو اپوزیشن میں ہیں وہ کل حکمران تھے مگر کسی نے بھی آج تک مسلم امہ کے اتنے بڑے سانحے پر سنجیدگی نہیں دکھائی ۔ تحریک انصاف محروم و پسماندہ علاقوں کے ساتھ ساتھ محروم طبقات کو ریلیف دینے کے وعدے پر بر سر اقتدار آئی تھی مگر ریلیف کی بجائے تکلیف ملی۔ موجودہ حکمران برسراقتدار آئے تو مسائل میں اضافہ ہوا اور بے انصافی بڑھ گئی ہے، لوگ کس سے فریاد کریں؟ جمہوری لحاظ سے بنگالی بھائی 52 فیصد حصے کے وہ حقدار تھے ‘ مگر ان کو حکومت اور ملازمتوں وغیرہ میں سے آٹے میں نمک برابر بھی حصہ نہ دیا گیا ‘ ان کی قدم قدم پر توہین کی گئی ‘ ان کی زبان وثقافت پر کیچڑ اچھالی گئی ‘ مغربی پاکستان خصوصا لاہور کے ا خباروں میں انہیں بھوکے بنگالی اور خواجہ نظام الدین کو خواجہ ہاضم الدین لکھا گیا ‘ بنگالیوں کو ’’چار فٹے ، کالے کٹھے ‘‘ لکھا گیا ، بنگالیوں نے حقوق مانگے تو انہیں غدار کہا گیا ‘ مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کے مظلوم بنگالیوں کی حمایت میں ایک فقرہ کہنے کی بجائے وہاں الشمس البدر جیسی نیم فوجی تنظیمیں قائم کر دیں ‘ مشرقی پاکستان کے ’’بھوکے بنگالیوں‘ ‘ کا مقابلہ کرنے کے نام پر مغربی پاکستان کی صوبائی وحدتیں ہڑپ کر کے پورے مغربی پاکستان کا دار الحکومت لاہور کو قرار دے دیا گیا۔اور یہ دلیل دی گئی کہ کیونکہ صوبہ بنگال آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے لہٰذا صوبوں کی آبادی کو متوازن کرنے کے لیے ’’پریٹی ‘‘کے اصول پر ون یونٹ ضروری ہے ‘اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت صوبوں کی آبادی کو متوازن کرنا ضروری تھا تو اب ساٹھ فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور چالیس فیصد آبادی کے تین صوبے کیسے درست ہیں ؟ اب پیریٹی کا اصول کہاں گیا ؟ جس طرح قیام پاکستان کی بنیاد 1906ء میں اس وقت رکھ دی گئی جب بنگال میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اسی طرح مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بھی 1947ء میں اس وقت رکھ دی گئی جب اکثریت کے جمہوری نظریے کو نظر انداز کر کے پاکستان کا دار الحکومت کراچی اور اُردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ۔ پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں۔ یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور اور بدیسی حکمران صدیوں سے ان زبانوں کو مٹانے کے در پے ہیں، اس کے باوجود یہ زندہ ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ پاکستان کی تمام زبانوں میں تعلیم کا حق دیں کہ یہ اس دھرتی کی اصل وارث ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بدیسی زبانوںکو آپ مسلط کر دیں اور جو دیس کی زبانیں ہیں ان کو آپ کچل کر رکھ دیں۔ اس سے بڑھ کر لسانی دہشت گردی کیا ہوگی؟ پاکستان کی قومیں زبانیں پاکستانی زبانیں ہیں، ان زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا انکی توہین ہے۔ پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ ملنا چاہیئے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے جو قومیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی تہذیب، ثقافت اور پاکستان کی اقدار کے بارے میں سوچا جائے تاکہ آنیوالی نسل کو ہم پاکستانی ثقافت کے رنگ اور اس کی خوشبو ورثے میں دے سکیں۔ ٭٭٭٭٭

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author