دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئی ڈاکٹرائن کوئی فارمولا؟||مطیع اللہ جان

مطیع اللہ جان پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، نوائے وقت سمیت مختلف اشاعتی و نشریاتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، وہ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

مطیع اللہ جان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس قوم پر ڈاکٹرائن اور مائنس پلس فارمولے بیچنے والے کہاں گئے؟ چھ سال تک اس قوم کے سیاہ اور سفید کا مالک بغلول کدھر گیا جو بائیس کروڑ عوام والے اس ملک کی فصلوں کو اپنے نام نہاد تھنک ٹینکوں کے تلے چھ سال تک روندتا رہا، اب خواہش ہے کہ اسے گمنامی میں جینے دیا جائے، یہ جینا بھی کوئی جینا ہے، بلا شرمندگی یا اظہارِ افسوس یہ دعوہ کیا گیا کہ فروری 2021 سے اس قوم کے آئین اور قانون کے ساتھ بلادکار کرنا بند کر دیا تھا، آئین کا غدار اور اسکے حاضر سروس ساتھیوں کے اس جرم نے جن سیاسی بچوں کو جنم دیا تھا وہ ممتا جیسی اس ریاست سے اب بلک بلک کر دودھ مانگ رہے ہیں، ان حقیقی آزادی کے معصوم بچوں کی رضائی ماں کون بنے گا؟
دوسری طرف ڈاکٹرائنوں کے دور کے سیاسی زیادتی کا شکار لوگ اب نیب اور عدالتوں سے با عزت بری ہو رہے ہیں تو شور مچ رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ دو نمبر طریقوں سے اور وہ بھی کمزور کیس بنا کر جو سیاسی انجینئرنگ2018 اور بعد میں ہوئی اب اسکو ختم کرنے کے لئیے ایک نمبر طریقے کی خواہش انتہائی غیر منطقی اور مضحکہ خیز ہے؟ یہ این آر او ٹو اور ہواؤں کے رخ کی تبدیلی نہیں بلکہ مقدمات درج ہی اس معیار کے کرائے گئے تھے کہ جو سیاستدان اور بیوروکریٹ لائن حاضر ہو گئے وہ با عزت بری اور جو نہیں مانے وہ کھجل اور خوار ہی ہوتے رہیں گے۔ ان مقدمات کا مقاصد کبھی جرم و سزا و جزا تھا ہی نہیں، اب دھاڑیں مارنے والے عمران خان خود ہی اس حقیقت کا پردہ چاک کر رہے ہیں یہ کہہ کر نیب انکے کنٹرول میں تھا ہی نہیں، کیا وہ اسے کنٹرول کرنا چاہتے تھے اور یہ کس کی کنٹرول میں تھا؟ آخر کب تک یہ این آر او این آر او کے نعروں سے لوگوں کو بیوقوف بنایا جائے گا-
اسحاق ڈار واپس آئے اور کیس ختم ہوا، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات ثابت نہ ہو سکے اور اب سلمان شہباز بھی واپس ہو چکے، رانا ثنا اللہ کیخلاف بھی منشیات کا مقدمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزائیں بھی ختم ہو گئی اور ان سزاؤں کے اختتامی حکم میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ نیب کا ادارہ لندن جائدادوں سے نواز شریف کا تعلق ثابت نہیں کر سکا اس لئے مریم نواز پر الزام لگائے ہی نہیں جا سکتے تھے۔ مریم نواز کی سزاؤں کو کالعدم قرار دینے والے حکم سے یہ واضح ہو گیا کہ نواز شریف کو اقامے کے معاملے میں بیٹے کی کمپنی سے غیر وصول شدہ میں تنخواہ پر نا اہل کرنے کی ضرورت ہیش کیوں آئی، سپریم کورٹ کرپشن الزامات میں خود ٹرائل کر نہیں سکتی تھی اور نواز شریف کا میڈیا ٹرائل کرنا بھی مقصود تھا اور کرپشن ٹرائل کا عمل شروع ہونے تک اسے وزارتِ عظمی سے ہٹانا بھی ضروری تھا، 2014 میں جنرل راحیل شریف کے ڈی چوک کے دھرنے میں ناکامی کے بعد جنرل باجوہ نے سپریم کورٹ میں دھرنا سجا لیا تھا، مائنس ون فارمولے کے بعد باجوہ ڈاکٹرائن کے ناسور نے سر اٹھا کر2018 کے الیکشنز میں اپنے لاڈلے عمران خان کو اقتدار کے جھولے پر بیٹھا دیا۔ اس کے بعد نِکا اور نِکے کا ابّا دونوں ہی شرمسار ہوئے۔ نکالے گئے نواز شریف کی واپسی کی باتیں ہو رہی ہیں اور عمران خان ایک نئے سیاسی ابّے کی تلاش میں ہیں۔
عمران خان اسی ماہ اسمبلیاں توڑنے کا اعلان اور نئے آرمی چیف سے امر بالمعروف پر چلنے کی امید کر رہے ہیں کیونکہ بقول انکے وہ حافظِ قرآن بھی ہیں، بس اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ امر بالمعروف وہ ہو گا کو جو غلطیاں مان کر دوہرانے والا کمزور حافظے کا عمران خان کہے گا یا وہ جو ایک حافظِ قرآن ہے۔ یہ کیسا سیاستدان ہے جو سیاست کے شاہی محلے کی بالکونی سے علاقے کے نئے تھانیدار بھی کو دعوتِ سیاست دینے سے باز نہیں آ رہا۔ یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ لگتا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کی کھنگورے کے بغیر خان صاحب کے نظریہِ انصاف میں جنبش نہیں ہوتی۔ خان صاحب کی ایک بھی تقریر اسٹیبلشمنٹ کے ذکر کے بغیر نہیں ہو تی اور اسکی وجہ انکی اپنی محدود سیاسی سوچ ہے جسکے مطابق وہ سویلین بدعنوان لوگوں سے ہاتھ ملائیں گے نہ ہی ان سے مذاکرات کرینگے۔ انکا بس چلے تو بطور چیئرمین پی ٹی آئی وہ اپنے ساتھ ایک مستقل ملٹری سیکریٹری رکھ لیں جسے دیکھ دیکھ کر ان کی سیاسی بصارت کو تقویت ملتی رہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ مجبوری کا نام شکریہ کے مصداق خان صاحب حکمران ن لیگ سے ایوانِ صدر کے ذریعے رابطہ کر رہے ہیں، ویسے وفاقی وزیر کا صدر مملکت سے ملنا آئینی فرائضِ منصبی میں بھی شامل ہے۔ معلوم نہیں ایوانِ صدر میں جنرل باجوہ، عمران خان اور صدر علوی کی ملاقاتیں کس آئین اور قانون کے دائرے میں آتی ہیں۔ استعفوں کے بعد، لانگ مارچ اور اب صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل تک کا سفر تو کٹ گیا ہے ان دیکھیں وزیر اعلی پنجاب انکو کس نئی راہ پر ڈالتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں ایسا کیا ہو سکتا ہے کہ عمران خان اور حکمران اتحاد کے بیچ کی راہ نکل آئے اور سیاسی غیر یقینی کی فضا کم کی جا سکے۔ بظاہر ایسا ہونا نا ممکن نہیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے اس غیر یقینی کی صورت حال میں مزید محتاط ہو چکے ہیں جس سے غیر یقینی کو مزید تقویت مل رہی ہے، اگر عمران خان اور نواز شریف خود کو تاریخ میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے ذمے داران کی صفِ اوّل میں شامل نہیں کرنا چاہتے تو فوری طور دو کام کر سکتے ہیں، ایک یہ کہ پی ٹی آئی واپس پارلیمنٹ جائے اور عمران خان اور نواز شریف کی جماعتیں آئندہ جون میں مشرکہ بجٹ پیش کریں، اگر ایسا نہیں تو پھر بجٹ سے پہلے معاشی پالیسی پر اعلانیہ اتفاق کر دیں۔ اسکو میثاقِ معیشت کہیں یا کچھ بھی اگر دونوں بڑی جماعتیں بنیادی معاشی اقدامات پر اتفاق کا اعلان کر دیں اور کسی بھی نگران حکومت کے دوران بھی اس پر کاربند رہنے کا اعلان کریں تو آئی ایم ایف و دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے لئیے یہ بہت بڑی یقین دہانی ہو گی۔
اسکے لئے حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی اپنے اپنے ماہرینِ معاشیات کو آئندہ بجٹ کی تیاری اور اْس پر ممکنہ معائدے کے لئے تیار کرے، اگر میثاقِ معیشت ہو جاتا ہے تو پھر حکمران اتحاد کو بھی جلد الیکشنز پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پھر دونوں فریق الیکشن میں ریاست کی معاشی مجبوریوں اور تقاضوں کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھا پائینگے۔ دوسرے الفاظ می”میثاقِ معیشت بناؤ جلد الیکشز کراؤ ملک بچاؤ”ایک ایسا نعرہ بن سکتا ہے جو ہر جماعت لگا سکے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا، حکمران جماعت الیکشن کے دوران گرتی معیشت اور مشکل فیصلوں سے خوف کا شکار رہی تو پھر ملکی معیشت اور قومی وجود کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو جانے کے بعد عمران خان اور نواز شریف(صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
مل کر بھی حالات کو نہیں سنبھال سکینگے۔ معلوم نہیں عمران خان ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکان سے خوفزدہ ہیں یا خوش، اگر وہ واقعے ملک کے لئیے پریشان ہوتے تو سیاست کو چھوڑ کر اپنے سارے آزمودہ وزراء خزانہ میں سے کسی ایک کو کم از کم دن میں ایک مرتبہ حکومت کو سرِ عام تجاویز دینے کی ذمے داری ضرور سونپتے۔ اب اپوزیشن سے تجاویز یا مشورے مانگ کر حکومت تو کبھی بھی خود کو نالائق یا کمزور ظاہر کرنے سے رہی، تاہم اپوزیشن کو کسی سیمینار میں مدعو کرنے سے اسکی عزت میں کمی نہیں آئیگی۔
کیا حکومت اور اپوزیشن کو ایک بار پھر کسی باجوے کی ڈاکٹرائن یا اسکے فارمولے کا انتظار ہے؟ کیا ہماری قوم چند ٹرکوں کے پیچھے تصاویر میں نظر آنے والے ایسے گمنام فلاسفر جرنیلوں کو بھول نہیں سکتی جو وردی میں بیس بیس اینکروں کو چھ چھ گھنٹے لیکچر دیتے نہیں تھکتے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انکی اوقات اتنی نہیں ہوتی کہ ایک عام صحافی کو ایک انٹرویو ہی دے سکیں۔
اگر ایسا نہیں تو پھر بجٹ سے پہلے معاشی پالیسی پر اعلانیہ اتفاق کر دیں۔ اسکو میثاقِ معیشت کہیں یا کچھ بھی اگر دونوں بڑی جماعتیں بنیادی معاشی اقدامات پر اتفاق کا اعلان کر دیں اور کسی بھی نگران حکومت کے دوران بھی اس پر کاربند رہنے کا اعلان کریں تو آئی ایم ایف و دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے لئیے یہ بہت بڑی یقین دہانی ہو گی۔
اسکے لئیے حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی اپنے اپنے ماہرینِ معاشیات کو آئندہ بجٹ کی تیاری اور اْس پر ممکنہ معائدے کے لئیے تیار کرے، اگر میثاقِ معیشت ہو جاتا ہے تو پھر حکمران اتحاد کو بھی جلد الیکشنز پر اعتراض نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ پھر دونوں فریق الیکشن میں ریاست کی معاشی مجبوریوں اور تقاضوں کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھا پائینگے۔ دوسرے الفاظ می”میثاقِ معیشت بناؤ جلد الیکشز کراؤ ملک بچاؤ”ایک ایسا نعرہ بن سکتا ہے جو ہر جماعت لگا سکے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا، حکمران جماعت الیکشن کے دوران گرتی معیشت اور مشکل فیصلوں سے خوف کا شکار رہی تو پھر ملکی معیشت اور قومی وجود کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو جانے کے بعد عمران خان اور نواز شریف مل کر بھی حالات کو نہیں سنبھال سکیں گے۔ معلوم نہیں عمران خان ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکان سے خوفزدہ ہیں یا خوش، اگر وہ واقعے ملک کے لئیے پریشان ہوتے تو سیاست کو چھوڑ کر اپنے سارے آزمودہ وزراء خزانہ میں سے کسی ایک کو کم از کم دن میں ایک مرتبہ حکومت کو سرِ عام تجاویز دینے کی ذمے داری ضرور سونپتے۔ اب اپوزیشن سے تجاویز یا مشورے مانگ کر حکومت تو کبھی بھی خود کو نالائق یا کمزور ظاہر کرنے سے رہی، تاہم اپوزیشن کو کسی سیمینار میں مدعو کرنے سے اسکی عزت میں کمی نہیں آئیگی۔
کیا حکومت اور اپوزیشن کو ایک بار پھر کسی باجوے کی ڈاکٹرائن یا اسکے فارمولے کا انتظار ہے؟ کیا ہماری قوم چند ٹرکوں کے پیچھے تصاویر میں نظر آنے والے ایسے گمنام فلاسفر جرنیلوں کو بھول نہیں سکتی جو وردی میں بیس بیس اینکروں کو چھ چھ گھنٹے لیکچر دیتے نہیں تھکتے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انکی اوقات اتنی نہیں ہوتی کہ ایک عام صحافی کو ایک انٹرویو ہی دے سکیں۔

بشکریہ نئی بات

مطیع اللہ جان کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author