یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں بہت سی کہانیاں پڑھی ہیں کہ ایک عفریت یا جن یا ازدہا یا پھر کوئی بلا ہوتی تھی جسے خوش کرنے یا جس کا غصہ قابو میں رکھنے کے لیے ہر سال یا مخصوص عرصے بعد ایک دوشیزہ بھینٹ کی جاتی تھی۔ اُس کے اَن چھوئے بدن کا بہتا ہوا تازہ، زندگی سے بھرپور چپچپا خون کتنا بھاتا تھا اُس عفریت کو!
عفریت اور ازدہے سبھی پالتے ہیں، اور اُنھیں خوش رکھنے یا غصے میں آنے سے روکنے کے حربے بھی اختیار کرتے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان پہلے ہر دس سال بعد ایک دوشیزہ عفریت کو بھینٹ کیا کرتی تھی۔ اب ہر پانچ یا تین سال بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ کبھی شک کرنے کی صلاحیت کی دوشیزہ بھینٹ کی گئی، کبھی سائنس کی طرف جانے کی خواہش کی، کبھی تعلیم کی، کبھی امن و امان کی، کبھی موسیقی اور آرٹ کی، کبھی رقص کی۔حتیٰ کہ ہم نے ادب اور شاعری کی مرمت شدہ دوشیزہ کو بھی سرخ شربت پلا کر چپکے سے بھینٹ کر دیا۔ لیکن دیوتا کو پسند نہیں آئی۔ اُس کو خون کے چپچپے پن پہچان ہے۔
چنانچہ ہم دس پندرہ سال تک ساٹھ ستر ہزار مردوزن دھماکوں میں اُڑا کر پیش کرتے رہے کہ عفریت پہچان نہ سکے کہ دوشیزہ ہے۔ اُسے باسی پھولوں اور خون کی کی مہک کی بھی پہچان ہے۔ اُسے تازہ پھول چاہیے تھے۔ ہم نے پشاور میں ڈیڑھ سو دیے۔ اب آگے کیا دیں گے؟ دماغ تو رہے نہیں، دل بے آبرو اور بے جان ہیں۔ آپ بتایے، اور کیا پیش کریں گے عفریت کو؟
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر