نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محترم وزیر اعظم عمل کرکے دکھائیں!||علی احمد ڈھلوں

بے نظیر بھٹوشہید نے کالا باغ ڈیم کا نام تبدیل کرکے ’’انڈس ڈیم‘‘ رکھ کر تعمیر پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ اب بھی میرا دل کہتا ہے کہ اس طرح کا دلیرانہ فیصلہ پیپلزپارٹی ہی کرسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی ایک سیاسی اور دلیرانہ فیصلے کرنے کی تاریخ ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ جماعت بھی اپنے نظریات کو بھلا چکی ہے۔

علی احمد ڈھلوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ میں ایسے وزرائے اعظم بہت کم دیکھنے کو ملے ہیں جو اپنی غلطیوں کو اعتراف کرتے ہیں، بلکہ یہ ’’خوبی‘‘ تو مغربی ممالک کے حکمرانوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ بسا اوقات اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں، جیسے امریکا نے عراق پر جنگ مسلط کرنے کے حوالے سے تاریخ کی بڑی غلطی کا اعتراف کیا۔ صدر اوباما نے لیبیا میں کرنل قذافی کو معزول کرنے کی غلطی کا اعتراف کیا۔پھر برطانیہ میں 6برس کے دوران 4وزرائے اعظم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے گھروں کو جا چکے ہیں، پھر جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کورونا کے حوالے سے ہوئی غفلت پر سنگین غلطیوں کا اعتراف کیا۔ پھر سابق انڈونیشن صدر میگاوتی اپنے عہدے سے اس لیے مستعفی ہوگئیں کہ وہ صحیح طرح ڈلیور نہیں کر پار رہی تھیں۔ جبکہ حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک اعتراف کیا ہے کہ وطن عزیز میں 60ہزار میگاواٹ بجلی نہ بنانے کے ذمہ دار ہم سب ہیں،اگر ہم نے ڈیمز کی تعمیر پر توجہ دی ہوتی توآج پاکستان بڑے نقصان سے بچ جاتا، کون سے عناصر تھے جنہوں نے ہمیں پن بجلی ،ونڈ پاور اورشمسی توانائی منصوبوں پر کام سے روکا۔اب جی چاہتا ہے کہ خوب روئیں اور اتنا روئیں کہ ہمیں بنانے والے کو بھی ہم پر ترس آجائے۔ کیوں کہ گزشتہ 35سال سے تو یہی لوگ برسر اقتدار رہے ہیں اور پھر یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اْنہیں کسی نے روکا ہوا تھابقول شاعر آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی حیرت اس بات کی ہے کہ ان تین چار دہائیوں میں سب سے طاقتور حکومت بھی ن لیگ ہی کے حصے میں 1997ء میں آئی تھی جب اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ یہ حکومت بھٹو کے بعد سب سے مضبوط حکومت تھی۔ یہ اتنی مضبوط حکومت تھی کہ اْس وقت کے وزیر اعظم میاں نوازشریف نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے بھی استعفیٰ لے لیا تھا۔ یہ ’’کارنامہ ‘‘ آج تک کوئی سیاستدان نہیں دکھا سکا تھا۔ حالانکہ یہ اْن کی بڑی سیاسی غلطی تھی جو اْنہیں پرویز مشرف کی ایمرجنسی کی صورت میں اور اپنی حکومت کے خاتمے کی شکل میں ملی۔ لیکن وہ آج بھی اسے اپنا ایک بڑا کارنامہ ہی بتاتے اور گردانتے ہیں۔ لہٰذااگر اْس وقت نوازشریف بقول اْن کے اتنا بڑا اقدام کر سکتے تھے تو ڈیم بنانے کے لیے انہوں نے اپنے اختیارات کو استعمال کیوں نہ کیا؟کالاباغ ڈیم کی بات چل نکلی ہے تو اس پر بھی سن لیں کہ یہ مسئلہ جنرل ضیائ￿ الحق کے دور کا اٹکا ہوا ہے۔ یہ منصوبہ حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیا گیا مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ ضلع میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ بلکہ ضلع میانوالی پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ تھا جسے ایک تنازع کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔کالاباغ بند کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازع رہا ہے۔ دسمبر 2005ئ￿ میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ، ‘‘وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے‘‘۔ جبکہ 26 مئی 2008ئ￿ کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کہا، ’’کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا‘‘۔ مطلب! ہم آج تک جب ان مسائل سے نکلنے سے قاصر ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آئندہ کبھی اس معاملے پر سنجیدہ ہوں گے۔ آج آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر یہ بات تو حتمی ہے کہ ڈیمز نہ بننا ایک قومی جرم ہے! اور اس کے مجرم سبھی سابق سیاستدان ہیں۔ اور پھر جو حکومت ان منصوبوں پر توجہ دے رہی تھی اْسے لامحالہ طور پر نکال باہر کر دیا گیالیکن یہ بات تو تاریخ میں لکھی جائے گی کہ پاکستان میں 1947 سے2022 کے75 سالوں میں 15 بڑے اور بہت بڑے سیلاب آئے یعنی تاریخی لحاظ سے اوسطاً پانچ سال فی سیلاب۔ جن میں جولائی‘ اگست2010 کا سیلاب اور رواں سال کا سیلاب بھی ہے جو تاریخی لحاظ سے سپر میگا فلڈ تھے۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ تواتر سے ہر سال بڑا سیلاب آجاتا ہے، جیسے1976، 1977 اور 1978 میں یا1995، 1996، 1998 میں ہوا۔ ہر سیلاب میں نقصان ہوتا ہے جس میں انسانی ہلاکت‘ مویشیوں کی ہلاکت‘ سڑکوں‘ پلوں کے ساتھ گھر‘ سکول‘ ہسپتال‘ مارکیٹ‘ بازار‘ بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز‘ گرڈاسٹیشن‘ فصلیں ‘ باغات‘ آبپاشی کا نظام شامل ہیں۔ جولائی‘ اگست2010 کے نقصان کا تخمینہ کوئی1,200 ارب روپے رہا جبکہ حالیہ سیلاب سے نقصان کا تخمینہ 4000ارب روپے رہا۔ یہ پانی اگر ڈیمز میں محفوظ ہوتا تو ہم اس سے پورا سال بجلی بنا سکتے تھے۔ مطلب !یہ نقصان پاکستان کن کی وجہ سے برداشت کر رہا ہے؟ ان سابق سیاستدانوں کی وجہ سے؟ تو اب ہم کیسے مان لیں کہ اب بھی آپ ڈیمز بنانے میں سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں؟ جبکہ اس کے برعکس فی الوقت تو جب سے موجودہ حکومت آئی ہے عوام کو دنیا کی مہنگی ترین بجلی سے نوازا جا رہا ہے؟مہنگی ترین پٹرولیم مصنوعات سے نوازا جا رہا ہے؟ کونسا ملک ہے جو اس وقت عوام کو مہنگائی کی شرح 32فیصد سے زیادہ دے رہا ہے؟ قصہ مختصر کہ جب ان کی حکومت آتی ہے تو اْس وقت ان کے بیانات کچھ اور ہوتے ہیں اور جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کے بیانات دیکھنے اور سننے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے قومی اسمبلی میں بین الصوبائی دریائی پانی کی تقسیم کا نیا فارمولا طے کرکے اسے آئینی شکل دی جائے اور صوبوں کے اس آئینی حق پر ہر صورت عملدرآمد ہونا چاہئے۔ خصوصاً سندھ صوبے کی نہری پانی کی سال بھر کی ضرورت کی بروقت بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ بے نظیر بھٹوشہید نے کالا باغ ڈیم کا نام تبدیل کرکے ’’انڈس ڈیم‘‘ رکھ کر تعمیر پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ اب بھی میرا دل کہتا ہے کہ اس طرح کا دلیرانہ فیصلہ پیپلزپارٹی ہی کرسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی ایک سیاسی اور دلیرانہ فیصلے کرنے کی تاریخ ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ جماعت بھی اپنے نظریات کو بھلا چکی ہے۔ اس جماعت میں موروثیت نے جگہ بنا لی ہے۔ سب کچھ اکٹھا کرنے کی فکر نے اس جماعت کو بھی ادھ منوا کر دیا ہے۔ اور رہی بات ن لیگ کی تو معذرت کے ساتھ اگر محترم وزیر اعظم اس حوالے سے نئے اعلانات کررہے ہیں تو اس میں مجھے ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ یہ پورے بھی ہوں گے ؟ کیوں کہ ماضی گواہ ہے کہ یہ سب روایتی سیاستدان ہیں جو صرف باتوں سے دل بہلانا جانتے ہیں، ان کا حقیقت یا عملی کام سے دور کا بھی تعلق نہیں! اگر ایسا نہیں ہے تو وزیر اعظم سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اپنی باتوں پر عمل کرکے دکھائیں ورنہ ہمیں باتوں سے نہ بہلائیں! ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی  پڑھیں:

پڑھتاجا شرماتا جا!۔۔۔ علی احمد ڈھلوں

دوسری ہلاکت خیز لہر۔۔۔ علی احمد ڈھلوں

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کیا ہو گا؟۔۔۔ علی احمد ڈھلوں

ملک مقروض :اشرافیہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں! ۔۔۔ علی احمد ڈھلوں

About The Author