رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی وی پروگرام میں سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے بات ہورہی تھی کہ اچانک ڈالرز پاکستانی مارکیٹس سے کہاں غائب ہوگئے؟ بات اب کم یا زیادہ ریٹ کی نہیں رہی‘ اب تو ڈالرز مل ہی نہیں رہے۔ بینک ریٹ اور مارکیٹ ریٹ میں تقریباً دس روپے کا فرق ہے‘ وہ بھی اگر ڈالر مل جائے تو۔ انہوں نے جو جواب دیا‘ اس نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے اور میں ابھی تک ایک صدمے کی حالت میں ہوں کہ کیا واقعی میں نے درست سنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ باقی فیکٹرز اپنی جگہ ہوں گے لیکن فوری طور پر دو وجوہات اہم ہیں جن کی وجہ سے ڈالرز مارکیٹ میں نہیں مل رہے اور روز ڈیفالٹ کی باتیں ہورہی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے بینکوں کے ذریعے ڈالر بھجوانے کم کر دیے ہیں اور اس کی وجہ بینک اور مارکیٹ ریٹ میں تقریباً دس روپے کا فرق ہے۔ انہیں لگتا ہے اگر انہوں نے بینک کے ذریعے ڈالرز بھیجے تو انہیں فی ڈالر تقریبا ً دس روپے کا نقصان ہوگا‘ لہٰذا وہ دیگر ذرائع سے پیسے بھیج رہے ہیں۔ بہت سارے اوورسیز پاکستانیوں نے اس وجہ سے بھی کم ڈالر بھیجنا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ عمران خان کو کیوں ہٹایا گیا؟ بتایا گیا ہے کہ ملین آف ڈالرز جو روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں جمع کرائے گئے تھے‘ وہ بھی اکثریت واپس لے چکی ہے لہٰذا اس سے بھی ذخائر میں کمی ہوئی ہے۔
ایک اور حیران کن فیکٹر‘ جو اوورسیز پاکستانیوں والی بات سے بھی زیادہ خطرناک اور دل دکھانے والا ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان بھی اپنے ڈالرز وطن واپس نہیں لا رہے۔ حکومتی پالیسی کے تحت برآمد کنندگان 180 دنوں کے لیے ڈالرز ملک سے باہر رکھ سکتے ہیں۔ مطلب جو اشیا انہوں نے پاکستان سے باہر بھیجی تھیں اور ان کا جو بھی بل بنا تھا‘ وہ چھ ماہ انہی ملکوں میں رکھ سکتے ہیں جہاں وہ اشیا بھیجی گئی تھیں۔زیادہ تر برآمد کنندگان ان ڈالروں کو جلد وطن واپس لانے کے خواہاں نہیں ہیں کیونکہ پاکستانی مارکیٹ میں ڈالرز نایاب ہونے سے ان کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ وہ ابھی مزید انتظار کررہے ہیں کہ ڈالر کی قیمت زیادہ سے زیادہ اوپر جائے اور یوں وہ زیادہ منافع کما سکیں۔ اب ان دو فیکٹرز کو ذرا ملا کر پڑھیں اور سمجھیں کہ اس ملک کے ساتھ ہماری وفاداری اور محبت کا کیا عالم ہے؟ مطلب ہمارے اوورسیز پاکستانی (یقینا سب ایسے نہیں ہوں گے) صرف اس لیے ڈالر بینکوں کے ذریعے نہیں بھجوا رہے کہ انہیں اوپن مارکیٹ میں دس روپے زیادہ ریٹ مل رہا ہے لہٰذا ہنڈی کے ذریعے وہ ڈالرز بھجوا رہے ہیں۔ اور اب یہ بھی راز نہیں رہا کہ ڈالرز افغانستان سمگل ہو تے ہیں۔
مان لیا‘ عمران خان کو ہٹا کر بڑا ظلم کیا گیا لیکن اب تو عوام کی بڑی تعدادخان صاحب کو واپس لانا چاہتی ہے۔ اگر غلطی چند لوگوں نے کی تھی تو اس میں بائیس کروڑ لوگوں کا کیا قصور ہے؟ ان بائیس کروڑ لوگوں میں عمران خان کے اپنے دو تین کروڑ حامی بھی موجود ہیں جو اس سوچ سے متاثر ہورہے ہیں۔ جنہوں نے خان کو ہٹایا تھا‘ ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ اُنہیں نہ ہٹاتے تو پاکستان کے سفارتی تعلقات مزید متاثر ہو سکتے تھے۔ اُن کی حکومت کے آخری دنوں میں پاکستان کے تعلقات امریکہ‘ چین‘ برطانیہ‘ یورپی یونین‘ سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کی اکثر ریاستوں سے مثالی نہ رہے تھے۔ ان حالات میں خان صاحب کیلئے بھی ملک کا نظام چلانا مشکل لگ رہا تھا لیکن عوام کو بڑا غصہ اس بات پر ہے کہ مان لیا‘ عمران خان سے ملک نہیں چل رہا تھا اور حالات بہت خراب تھے لیکن ان کی جگہ جنہیں لایا گیا‘ وہ کون سے فرشتے تھے۔ عوام کی اکثریت نے انہی سے متنفر ہو کر عمران خان کی حمایت کی تھی کہ وہ ان سب حکمرانوں سے اب بھی بہتر ہیں اور وہ تین سال بعد دوبارہ واپس آگئے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کیا ملک کو اس لیے اکیلا چھوڑ دیا جائے اور اسے ڈوبنے دیا جائے کیونکہ اس ملک میں میری یا آپ کی پسند کا بندہ وزیراعظم نہیں ہے؟ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا تو کیا اس کا اثر صرف ان لوگوں پر ہوگا جو نواز شریف اور آصف زرداری کے حامی ہیں یا پھر عمران خان کے حامی بھی مشکل میں پڑیں گے؟ یا جو اوورسیز پاکستانی ہیں‘ پاکستان میں اُن کے عزیز رشتہ داروں پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟ انہیں اندازہ ہے کہ وہ محض اپنے دس‘ بیس روپے کے چکر میں کتنا بڑا رسک اپنے آبائی ملک اور اپنے عزیروں کے لیے لے رہے ہیں۔
اب ذرا برآمد کنندگان کو دیکھ لیں۔ پاکستان میں اگر واقعی کسی کلاس اور طبقے کے نخرے اٹھائے جاتے ہیں‘ وہ برآمد کنندگان ہیں کیونکہ وہ ہمارے لیے بیرونِ ملک سے ڈالرز لاتے ہیں۔ ان برآمد کنندگان کو سستی گیس اور سستی بجلی دی جاتی ہے۔ ان پر ڈیوٹی و ٹیکسز معاف ہوتے ہیں۔ بیرونِ ملک بھی امریکہ اور یورپی یونین کو کہہ کہلوا کر وہاں ڈیوٹی میں کمی کرائی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی مصنوعات سستی بیچ کر پاکستان کے لیے ڈالرز کما کر گھر واپس لا سکیں۔ جو بجلی گیس انہیں سستی دی جاتی ہے اس کا بل باقی عوام سے وصول کیا جاتا ہے کیونکہ بجلی کی قیمت تو آپ نے پاور پروڈیوسر کو دینی ہے اور جتنی سستی گیس‘ بجلی برآمد کنندگان کو دی جاتی ہے‘ وہ اربوں روپے عوام کے بلوں میں ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں یا انہیں سرکلر ڈیٹ کا حصہ بنایا جاتا ہے اور وہ بھی عوام سے ٹیکس لے کر ادا کیا جاتا ہے۔ سب کچھ عوام سے لے کر بھی یہ برآمد کنندگان اس لیے ڈالرز فوراً واپس نہیں لاتے کہ ذرا ریٹ کچھ اور بڑھ جائے تو پھر لائیں گے اور چند کروڑ روپے مزید کما لیں گے‘ چاہے اس دوران ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہو جائے۔
پاناما سکینڈل میں ایف بی آر نے سپریم کورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ جب یہ انکوائری شروع کی گئی کہ پاکستانیوں کے پاس آف شور کمپنیاں اور جائیدادیں کہاں سے آئیں تو پتا چلا کہ اکثر برآمد کنندگان نے بیرونِ ملک اُن ڈالروں سے جائیدادیں خرید ی تھیں جو انہوں نے پاکستان واپس لانے تھے۔ سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ حکومت کو برآمد کنندگان کو چھ ماہ تک بیرونِ ملک میں ڈالرز رکھنے کی حاصل سہولت کو چار ماہ کر دینا چاہیے تاکہ ملک کو اس وجہ سے جس بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اُس میں کمی آئے۔
جناب یہ ہیں ہمارے اوورسیز پاکستانی بھائی جو اس ملک سے محبت کرتے ہیں لیکن ڈالرز اس لیے بینکوں کے ذریعے نہیں بھیج رہے کہ اس طرح اوپن مارکیٹ سے دس روپے کم ملتے ہیں اور وہ جو ڈالرز اوپن مارکیٹ میں چند ہزار روپے زیادہ لے کر فروخت کررہے ہیں وہ سیدھا افغانستان جارہے ہیں اور پاکستان خود بیرونِ ملک بھاری مارک اَپ پر وہی ڈالرز ادھار لے رہا ہے۔ چند ماہ پہلے کیسے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین خیبرپختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خرانہ کو فون پر سمجھا رہے تھے کہ آئی ایم ایف ڈیل کیسے خراب کرنی ہے تاکہ ملک دیوالیہ ہو جائے۔ شوکت ترین اس ملک کے دو بار وزیر خزانہ رہے ہیں‘ وہ یہ مشورہ محض اس لیے دے رہے تھے کیونکہ انہیں اس کرسی سے ہٹا دیا گیا تھا۔ جس ملک نے انہیں عزت دی‘ جس ملک کے عوام نے انہیں خزانے کی کنجیاں دیں‘ وہ سیٹ جانے پر اُسی ملک کی معیشت ڈبونا چاہتے تھے؟ اگر یہی بات سعودی عرب‘ روس‘ چین یا ایران کے کسی وزیر نے کی ہوتی تو ابھی تک اُس کے خلاف ایکشن لیا جا چکا ہوتا لیکن یہاں ویسا رواج نہیں ہے۔ شوکت ترین‘ جو ملک کو دلوالیہ قرار دلوانا چاہ رہے تھے‘ اُنہیں کسی نے نہیں پوچھا تو پھر ہمارے برآمد کنندگان یا اوورسیز پاکستانی کیوں یہ کام نہ کریں۔ پہلے ہم ایک ایک پائو گوشت کے لیے اونٹ ذبح کرتے تھے‘ اب ہمیں پائو گوشت نہیں بلکہ پورے کا پورا اونٹ ہی چاہیے۔
یہ ہے ہماری اس ملک سے محبت‘ جو چند ڈالر بہا کر لے گئے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر