جام سعید احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچ دانشور طبقے نے بلوچوں سے متعلق مختلف قسم کے نسلی ابہام پھیلا رکھے ہیں ۔ ان ابہام کا مقصد بظاہر یہی دیکھائی دیتا ھے کہ بلوچوں کا تعلق ایسے نسلی گروہوں سے جوڑا جائے جو کسی زمانے میں طاقتور تھے اور طاقتور کی حیثیت سے دنیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض تھے اور جنکا نام فاتحین میں لیا جاتا ہے ۔ آپ بلوچوں سے متعلق بلوچ لکھاریوں کی تحقیقات دیکھ لیں بلوچ دانشور طبقہ نے بلوچوں کے نسلی رشتے فاتحین سے جوڑتے دیکھائی دے گئے ۔ اِنکی کتب پڑھ کر دیکھ لیں ہر لکھاری بلوچوں کا تعلق کسی نہ کسی فاتح سے جوڑتا دیکھائی دے گا کسی نہ کسی مشہور بادشاہ سے اِنکا نسلی تعلق جوڑتا دیکھائی دے گا ۔
محققین اور خود بلوچ لکھاری اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچ شام کی وادی حلب سے چھ سو سال قبل ہجرت کر کے اپنے مال مویشیوں کے ساتھ چراگاہوں کی تلاش میں عمان ، ایران کے راستے وادی سندھ میں داخل ھوئے اس تلاش و جستجو اور ہجرت نے اِنکو کسی ایک جگہ ٹک کر نہ رہنے دیا ، خانہ بدوش بود باش انکے کلچر کا حصہ بن گئی ۔ بھوک افلاس کی وجہ سے انکے اندر وحشت حیوانی جبلت بیدار ھوئی اور چھین کر کھانا انکی فطرت ثانیہ کا حصہ بن کر رہے گئی ۔ کیونکہ جس جگہ بھی رہے اقلیت میں رہے جسکی وجہ سے مختلف تہذیبوں و قومتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں اور آج بھی یہی حال ہے کہ بلوچوں کے کلچر میں سرائیک تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ عرب ، ایرانی ، سندھی تہذیب و تمدن کی جھلک نمایا دیکھائی دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ٻلوچوں کی غالب اکثریت کی مادری زبان بلوچی کے بجائے فارسی ، براوہی ، سرائیکی ، سندھی ، کردی اورعربی ہے۔ اب بھی یہ عرب النسل گروہ مختلف قومتوں کا حصہ ہیں انکو خانہ بدوش کا لقب وادی سندھ سے ملا ہے ۔ برحال اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا ۔ بعض بلوچ لکھاریوں نے طرح طرح کے افسانے گڑھ رکھے ہیں جسکا مقصد بظاہر تو یہ ہے کہ بلوچوں کا نسلی رشتہ طاقتور حکمران طبقات سے جوڑا جائے ، جسکی وجہ سے کجھ لکھاری انکا جد امجد نمرود تک کو لکھتے ہیں ۔ کچھ بلوچ دانشور بلوچوں کا نسلی رشتہ بابل کے بادشاہ سے جوڑتے ہیں ۔ یہاں تک کہ کچھ طبقات بلوچوں کو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نسل سے لکھتے ہیں ۔ اکثریت کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ بلوچوں کا ڈی این اے عربی النسل ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ھوں یہ تمام نظریات فاسق ہیں باطل ہیں من گھڑت ہیں ۔ جدید تحقیق سے ثابت ھوا ہے کہ اکثریت کا تعلق مقامی نسلی گروہوں سے ہیں جو جبری انتقال قومیت کی وجہ سے بلوچ بنا دئیے گئے ہیں۔ یہ امر حیران کن ہے اپنے نام کے ساتھ بلوچ لکھنے والوں کی اکثریت کا تعلق سرائیک جتوال / ڄٹاکا ڈی این اے کا حامل ہے مثال کے طور پر بگٹیوں کا ڈی این اے Y-DNA \ J2B M241 ہے جو کہ جام ہیں لیکن بگٹی اپنے ساتھ خان لکھتے ہیں حالانکہ انھیں اپنے نام کے ساتھ جام لکھنا چاہیے ۔
عرب ایک وسیع الوجود قومتی گروہ ہے ۔ بلوچوں کا لائف اسٹائل مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کا ہے ۔ لیکن جسکو بلوچ کلچر کہا جاتا ہے وہ عرب کلچر سے متاثر دیکھائی دیتا ہے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ دانشور طبقے نے اتنا بڑا ابہام یا فراڈ کیوں پیدا کیا ؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچ کیونکہ خانہ بدوش گروہ ہے ۔ جو میدانی علاقوں کی تلاش میں وادی سندھ میں نکل آئے اور لگ بھگ چھ صدیاں قبل یہ اس خطہ میں ورد ھوئے ہیں ۔ خانہ بدوش کا لقب بلوچوں کو خود وادی سندھ سے ملا ہے ، ورنہ دوسرے خطہ کے لوگ انکو کچھ اور پکارتے ہیں۔ خانہ بدوش کی ایک فطری جبلت ھوتی ھے ۔ برحال ھم سب سے پہلے مختلف محققین کی تحقیقات پیش کرتے ہیں دیکھتے ہیں وہ بلوچوں سے متعلق کیا تحقیقی نظریاتی تھیوری رکھتے ہیں ۔
مندرجہ ذیل تحقیقات و مندرجات مختلف کتابوں سے نقل کئیے گئے ہیں کسی بھی تحقیق یا نظریہ کا تعلق کالم نگار کی ذاتی خواہش پسند یا ناپسند سے نہیں ہے ۔
1 ) ) ٹی ڈبلیو وال بنک ( T.W wall Bank ) اور انکے معاون ایم ٹیلر ( M Taylar ) لکھتے ہیں کہ بلوچوں کا تعلق سامی النسل سے ہے جو حضرت نوح علیہ سلام کے صاحبزادے حضرت سام کی نسل سے ہے ۔ یہاں پر یہ بتاتا چلوں کہ عرب خود کو سامی النسل کہتے ہیں سامی النسل پکارا جانا پسند کرتے ہیں ۔
2)) دوسری تحقیق یہ کہتی ہے کہ بلوچوں کا تعلق نمرود سے ہے ۔ یہ تحقیق کرنے والا غیر ملکی محقق پروفیسر راولنسن ( Prof. Rawalinson ) تھا اس نے بلوچوں کو نمرود کی اولاد لکھا اور انھیں کالدین اقوام سے منسوب کیا ۔
3)) ایک بلوچ لکھاری محمد سردار خان بلوچ پروفیسر راولنسن کی تقلید کرتے ہیں بعد از تحقیق بلوچوں کو سامی النسل کا بتاتے ہیں ۔ محمد سردار خان بلوچ نے سامی النسل سے منسلک کرتے ھوئے کلدانیوں کے کوش ( Kosite ) شاخ کی باقیات گردانتے ھوئے لکھتے ہیں کہ بلوچ گروہ کا تعلق کلدانی کوش حکمرانوں کی نسل سے ہیں اور نمرود بیلوس کی اولاد ہیں جو بابل کا حکمران تھا ، کلدانیوں کے خاتمے کے پر یہ وہاں سے ہجرت کر کے عرب ، ایران ، سیستان اور پھر کیچ مکران آ کر آباد ھوئے ۔
4 )) سر ٹی ھولڈچ ( Sir T Holdich) کلدانی نظریہ تحقیق کے حامی ہیں جو بلوچوں کو کلدانیوں سے منسوب کرتے ھوئے لکھتے ہیں کہ لفظ ” بعل ” جو کہ کلدانی دیوتا تھا بگڑ کر بعل سے ” بعلوث ” اور بعد ازاں ” بلوچ ” بنا ۔
5) ) ملکی و غیر ملکی مورخین کہتے ہیں کہ بلوچ حضرت نوح کے پوتے فارک بن سام بن نوح کی اولاد ہیں ۔
6)) بعض مورخین بلوچوں کو راجپوت نسل سے جوڑتے ہیں راجپوتوں کا ایک قبیلہ ” بل اوچھا ” ہے بل اوچھا قبیلے کا لقب بلوچ رہا ھے ۔ اِسکا ثبوت یہ ہے کہ سرائیک تہذیب و تمدن میں بلوچا کا لقب بہت مشہور و معروف ہے ۔ سرائیکی شاعری میں بلوچا نام سے بھری پڑی ھے ۔
7)) ایک تحقیق یہ بھی کہتی ہے بلوچ دراصل سرائیک نسلی گروہ ہے جو اوچ میں تباہ کن زلزلے کے بعد یا بہت بڑے دریائی سیلاب کے بعد دنیا کے مختلف حصوں کی طرف ہجرت کر گئے ۔ جسکا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی سرائیک روایت کے مطابق بلوچ سرائیک قوم کی ذات کہلاتے ہیں ۔ کیونکہ بلوچوں میں سرائیک تہذیب و تمدن کا بہت زیادہ غلبہ ہے ۔
8 ) ) ایک تحقیق یہ کہتی ہے کہ بلوچ بحرہ کیسپئین کے مشرقی ساحل سے ہجرت کر کے عمان و ایران پہنچے ۔ وہاں سے وادی سندھ میں داخل ہوئے ۔
(9) بلوچوں کے بہت سارے قبائل کا ماننا ہے کہ وہ عرب النسل ہیں اور انکے آباؤ اجداد نے شام سے ہجرت کی یہ علاقہ جنگوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔ مختلف ادوار میں ان علاقوں میں خانہ جنگی رہی ہے ۔ آج بھی وہی علاقے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں ۔ بلوچ قبائل اپنے آپکو عربوں کا وارث سمجھتے ہیں ۔
( 10) فاروق بلوچ اپنے دلائل میں لکھتا ہے کہ بلوچ حضرت نوح کے دوسرے بیٹے ” حام ” کی نسل سے ہیں یعنی ” نمرود بن کوش بن کنعان بن حام بن نوح ” برحال آب ھم خانہ بدوش نفسیات کا جائزہ لیتے ہیں ۔
خانہ بدوش گروہ کی فکری نفسیات
خانہ بدوش نفسیات کا جائزہ لیں تو خانہ بدوش حصول معاش کی خاطر متحرک رہتے ہیں اور جہاں پڑاؤ ڈالتے ہیں وہاں کے تہذیب و تمدن میں رچ بس جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ برطانوی مصنف کرنل ای موکلر ، حانیکوف ، بوٹینگر ، آربرٹن ، ٹی ایچ ھولڈچ نے اپنے تحقیقی مقالموں میں بلوچوں کو یا تو خانہ بدوش لکھا ہے یا پھر انکا تعلق عرب ملک شام کی وادی حلب سے جوڑا ہے ۔ بلوچوں کے اپنے دانشور و لکھاری اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچ ملک شام کی وادی حلب سے بیدخل ھوئے اور حجاج بن یوسف کے دور میں عمان و ایران میں داخل ھوئے ۔ جہاں تک بلوچوں کے قومتی یا غیر قومتی ھونے کا سوال ہے یہ بات انکی خانہ بدوش فطرت کا حصہ ہے کہ بلوچ خانہ بدوش فطرت کی وجہ سے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے جس خطہ میں گئے وہاں کے رسم و رواج کو اپنایا اور وہاں رچ بس گئے ۔ یہی وجہ ہے بلوچ آپکو مختلف زبانیں بولتے دیکھائی دیتے ہیں ۔
بلوچ لکھاریوں نے نسلی ابہام یا فراڈ کیوں پھیلایا ۔ ؟
بلوچ لکھاری نسلی ابہام پھیلا کر یہ ثابت کرنے کوشش میں لگے رہے ہیں اور اب تک لگے ھوئے ہیں کہ بلوچ حکمران طبقات سے رہے ہیں جیساکہ اوپر دی گئی تحقیقات میں ثابت ھوتا ھے کہ فلاں شخص حکمران تھا تو بلوچ اسکی نسل سے ہیں کیا کسی نے لکھا ہے فلاں حکمران نہیں تھا تو بلوچ اسکی نسل سے ہیں ؟ نہیں ایسی کوئی تحقیق آج تک سامنے نہیں آئی ۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ھے ۔ نسلی فراڈ یا نسلی ابہام پھیلانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ مقامی گروہوں کو بلوچ لقب ترک کرنے سے روکا جائے تاکہ مقامی نسلی گروہ اس فراڈ یا نسلی ابہام کی چال میں پھنس کر رہے جائیں ۔ بلوچوں نے جن اقوام کیلئے فوجی خدمات انجام دیں انھوں نے بلوچوں پر نفسیاتی حربے استعمال کیے ، تاکہ بلوچ اُنکی فوجی خدمات انجام دیتے رہیں اور اُنکی فوجی مہمات کا حصہ رہیں اور اُنکے وفادار رہیں ۔ مختلف محققین نے ابہام پھیلایا ہے صرف فراڈ پھیلایا ہے ۔ اس قسم کا فراڈ پھیلایا گیا ہے کہ شاید ھی کبھی اس بات کا پتہ چل سکے کہ بلوچ کون ہیں ؟ ۔ بلوچوں سے متعلق نسلی فراڈ پھیلانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کبھی معلوم نہ ھو سکے کہ دراصل بلوچ کون ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ ان خانہ بدوشوں کو کہا گیا ہے جو مختلف حملہ آوروں کے ساتھ رہے انکی پیادا فوج کے حصہ رہے اور حملہ آوروں کی واپسی کے ساتھ کسی امر یا بحالت مجبوری کے سبب انکے ساتھ واپس نہ جا سکے اور وادی سندھ کے علاوہ ایران ، عرب خطہ میں رچ بس گئے یہی وجہ ہے کہ یہ خانہ بدوش مختلف خطوں یا قومتوں میں مختلف ناموں سے جانے جاتے رہے اور مختلف زبانیں بولتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ مختلف خطوں میں مختلف نام اِنکے لیے عام رہے ہیں بعد ازاں بلوچ کا لقب اختیار کیا ۔ جہاں تک سدباب کا تعلق ہے تو یہی ھو سکتا ہے کہ مقامی گروہ اس نفسیات سے باہر نکلیں جس قسم کی نفسیات نے اُنکو جکڑ رکھا ہے اور اپنی پہچان کے لے اِس دوغلی شناخت سے جان چھڑائیں کیونکہ بلوچ دانشوروں کا پھیلایا گیا نسلی بیانیہ فراڈ اور جھوٹ ثابت ھو رہا ہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ