وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح تیل کا روزانہ ریٹ لندن سے اور سونے، چاندی، تانبے اور المونیم کا ریٹ نیویارک سے نکلتا ہے، اسی طرح پاکستان میں سیاست کا بھاؤ گذشتہ سات ماہ سے بنی گالا نکالتا ہے اور پھر حکومت اور میڈیا عمرانی سٹاک ایکسچینج میں دوپہر سے رات گئے سیاسی حصص کی خرید و فروخت میں جٹ جاتے ہیں۔ اگلے دن پھر یہی کہانی دوہرائی جاتی ہے۔
آؤ مل کے سائفر سے کھیلتے ہیں، آؤ چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کے معاملے کو آئین و قانون کے دائرے میں کھیلتے ہیں۔ زورکس لفظ پر ہوا؟ ’کھیل‘ پر۔
شارٹ پنچ کے بعد باؤنسر اور پھر چند نارمل ڈلیوریز اور پھر اچانک ایک اور شارٹ پچ یا باؤنسر اور پھر ایک ریورس سوئنگ۔ بلے باز کو ایڑیوں کے بل پر رکھو اور یہ نہ معلوم ہونے دو کہ اگلا اوور کس نوعیت کا آ رہا ہے۔ یہ ہے خان کی ٹوٹل سیاسی ٹکنیک۔
یہی ٹکنیک گیارہ فیلڈرز کی مدد سے بلے بازوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان کا حوصلہ پست کر کے وکٹ لینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بلے باز نے کوئی غلطی کی نہیں اور گیند وکٹ کیپر نے اچکی نہیں یا بلے باز کی توجہ وکٹ کے چاروں طرف کھڑے فیلڈرز کے معنی خیز اشاروں اور دوہرے مطلب والے جملوں میں الجھی نہیں اور وہ ایل بی ڈبلیو ہوا نہیں۔
اگر کسی کو سیاست میں کرکٹ کا فارمولا سمجھ میں نہ آ رہا ہو تو ایسے حضرات کی آسانی کے لیے عرض ہے کہ خان صاحب سیاست میں ایک ایشو کا ذھین انتخاب کر کے اس کا ٹیمپو خلا تک بناتے چلے جاتے ہیں اور پھر اچانک اس ایشو کا رخ زمین کی طرف ہو جاتا ہے۔
سات ماہ میں دو لانگ مارچز کے چڑھاؤ اور اتار ہی دیکھ لیں۔۔۔ عوام کا سمندر آ رہا ہے، انتخابی الٹی میٹم، خونی انقلاب، دوسرا سری لنکا، دیوالیہ معیشت کا جہاز اب ڈوبا کہ تب ڈوبا، چوروں ڈاکوؤں کو نئے چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر نہیں کرنے دیں گے وغیرہ وغیرہ اور پھر یکدم درجہِ حرارت ٹھنڈا ٹھار موج بہار۔۔۔
یعنی پانچ ہزار کے قالین کی قیمت پانچ لاکھ تک پہنچا کے آخر میں پانچ ہزار تین سو روپے میں بیچ کے سوزوکی کیری ڈبے سے ایک نیا قالین نکال لینے کی ٹکنیک۔
پہلے کی طرح دوسرے لانگ مارچ کا قالین بھی اسلام آباد میں مہنگے داموں بیچنے کا بھرپور ماحول بنایا گیا مگر لاہور تا راولپنڈی ڈھائی سو کلومیٹر کا فاصلہ پورے ایک ماہ میں طے کرنے کے بعد حقیقی آزادی کا نیا قالین بریک ایوان پر بیچ کے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں سے استعفی یا انھیں توڑنے کا نیا سودا ٹرک سے نکال لیا گیا۔
اب امریکی سازش اور سپاہ سالار کی تقرری اور حقیقی آزادی کی طرح اسمبلیوں سے استعفے کے سودے کی بولی بھی مجمع میں پوشیدہ ساتھی اور کارندے بڑھاتے چلے جائیں گے۔ سودا منہ مانگے ریٹ پر بک گیا تو خیر ہے ورنہ یہ بھی ڈبے میں رکھ کے ایک اور نایاب گلدان برائے فروخت پیش کر دیا جائے گا۔
مقصد اگر محض جلد انتخابات کرانا ہی ہوتا تو لانگ مارچ گول گول گھمانے اور کھلے ٹرک پر اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے بجائے پہلے لانگ مارچ کے ڈرا میچ کے بعد ہی اسمبلیاں توڑنے یا اجتماعی استعفی دینے کا فیصلہ کر کے جاری بحرانی کیفیت کو کشید کیا جا سکتا تھا مگر وہ جو کہتے ہیں کہ
مے سے غرض نشاط کس روسیاہ کو ہے
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے (غالب)
خود کو اور اپنے حامیوں کو اک گونہ بے خودی میں رکھنے کے لیے عام طور سے زیرک سیاست کار ایسے تجریدی مگر پرکشش نعروں کے بانس پر اپنا سیاسی تنبو کھڑا کرتے ہیں، جن نعروں کو آسانی سے کھولا اور لپیٹا جا سکے اور انھیں موم کی ناک کی طرح جیسے چاہے استعمال کیا جا سکے۔
مثلاً اسلامی سوشلزم کا نعرہ ستر کے انتخابات میں بطور اکسیر کام آیا مگر یہ ہوتا کیا ہے۔ نہ تب کسی نے پوچھا نہ اب کسی کو یاد ہے۔
اسی طرح 1977 میں بھٹو صاحب کے خلاف انتخابی دھاندلی کی تحریک اچانک اگلے چوک سے نظامِ مصطفی کے راستے پر موڑ دی گئی۔ ایک ایسا نو جماعتی اتحاد جس کے پلیٹ فارم پر مفتی محمود کی جے یو آئی اور میاں طفیل محمد کی جماعتِ اسلامی سے لے کر اصغر خان کی لبرل تحریکِ استقلال اور شیر باز مزاری نسیم ولی خان کی سیکولر قوم پرست ترقی پسند نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی سمیت مختلف النوع چھوٹی بڑی جماعتیں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کے کھڑی تھیں۔
اس پلیٹ فارم سے جب نظامِ مصطفی کا نعرہ لگا تو تیزی سے بڑھتی واقعاتی تپش میں کسی نے نہ پوچھا کہ بھئیا نظامِ مصطفی سے کیا مراد ہے؟ زرا پانچ دس ٹو دی پوائنٹ جملوں میں ہی سمجھا دیجیے۔
نظامِ مصطفیٰ تو خیر کیا ملتا اس نعرے کے عوض ضیا الحق عطا ہو گئے، جنھوں نے اسی نعرے کو دھو مانجھ کے کچھ ایسے قوانین شریعت ایک خاص تشریح کی روشنی میں نافذ کر دیے جس کا مقصد اپنے اقتدار کو طول دینا اور پھر انھی قوانین کے سائے میں اسلامی جمہوری اتحاد نے ضیا الحق کے نامکمل نظریاتی کام کو انھی کے اسٹیبلشمنٹی بیورو کریٹک و عسکری ساتھیوں کی سرپرستی بطور ووٹ کیچر آگے بڑھانے کی کوشش کی۔
تب تک پیپلز پارٹی بھی اسلامی سوشلزم اور روٹی کپڑے مکان کے فرسودہ جھنجٹ سے آزاد ہو کر ایک عملیت پسند جماعت بن چکی تھی۔ اس نے اگلے دو الیکشن ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کے نعرے پر لڑے اور پھر کسی بھی پرکشش نعرے سے مکت ہو گئی۔ بی بی کی شہادت بھی محض ایک انتخاب میں ہی مقتدر قومی کامیابی دلا پائی۔
پرویز مشرف نے بھی خود جوازی کی خاطر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا مگر اس نعرے کا آگا پیچھا اور درمیان کیا تھا، یہ شاید پرویز مشرف کو بھی کبھی معلوم نہ ہو سکا اور یہ فلم بھی سلور جوبلی کرنے سے پہلے پہلے عوامی توجہ کی سکرینز سے اتر گئی۔
مگر ہمارے ہیرو نے کبھی ایک تجریدی نعرے پر اکتفا نہیں کیا۔ 30 اکتوبر 2011 کو جب عمران خان نے تحریکِ انصاف کا پہلا بڑا عوامی جلسہ مینارِ پاکستان کے سائے میں کیا تو انھوں نے اس مملکت کو اقبال اور قائدِ اعظم کا پاکستان بنانے کا اعلان کچھ اس ادا سے کیا جیسے اس سے پہلے کسی اور نے پہیہ ایجاد نہ کیا ہو۔
اقبال اور قائد کا پاکستان ایک مرتبہ تو 1947 میں بن چکا تھا مگر عمران خان کا نظریہ پاکستان ٹو پوائنٹ او کیا تھا۔
اس پر جولائی 2018 تک کوئی ریسرچ پیپر سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی کسی نے یہ تحقیق کی کہ 1946 کے انتخابات میں کوئی ’آر ٹی ایس‘ استعمال ہوا تھا کہ نہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد کسی نے ان کے کان میں پھونک دیا کہ ’سر تھوڑا سا اسلامی ٹچ‘۔ یوں اقبال و قائد کے پاکستان کی تعمیر بیچ میں چھوڑ کے ریاستِ مدینہ کا جدید عمرانی تجریدی تصور اپنا لیا گیا اور اس میں جانے کب چینی و اسکنڈے نیویئن ماڈل کا پیوند بھی جڑ گیا مگر 2018 کی دنیا میں ریاستِ مدینہ کیسے تعمیر ہو گی اور اصل میں ریاستِ مدینہ تھی کیا؟ اسے جاننے سے نہ ووٹر کو کوئی مطلب تھا نہ ووٹ کیچر کو سروکار۔
چنانچہ کوئی سوال بھی نہیں کر سکتا کہ ساڑھے تین برس میں نئی ریاستِ مدینہ کی چار دیواری اٹھانے کے لیے کتنی اینٹیں جمع ہوئیں۔ وہ الگ بات کہ اس عرصے میں تعمیراتی مافیاؤں نے ریاستی بھول پن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’مدینتہ الریاض‘ سمیت کئی سوسائٹیاں اور رہائشی منصوبے کھڑے کر لیے۔ (اس تعمیراتی ترغیباتی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف خان صاحب پچھلے ہفتے ہی کر چکے ہیں)۔
اب جب کہ دوسرا لانگ مارچ بھی پہلے لانگ مارچ کی طرح تشدد و افراتفری سے بچنے کی خاطر ختم کر دیا گیا، حقیقی آزادی کی تحریک جاری رہے گی۔ یہ حقیقی آزادی کیا ہے، کس سے لینی ہے اور کب تک؟
جب اسلامی سوشلزم، نظامِ مصطفی، سب سے پہلے پاکستان اور اقبال و قائد کے پاکستان کی شرح مرتب ہو جائے گی، تب کہیں جا کے ’حقیقی آزادی‘ کی تصویر بھی شاید واضح ہو پائے۔
وہ وقت آنے تک کسی اور تجریدی نعرے کا چارہ سفرِ لاحاصل کی تھکن سے چور عوام کے سامنے لہرا کے انھیں تھوڑا اور چلوا لیا جائے گا۔
مجھے چلتے جانا ہے بس چلتے جانا۔۔۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر