نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آرمی چیف کا خوش آئند بیان۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ایچ کیو راولپنڈی میں یوم شہداء کی تقریب سے الوداعی خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ فروری میں یہ فیصلہ کیا کہ فوج اب سیاسی عمل میں کبھی حصہ نہیں لے گی۔ آرمی چیف کا یہ اعلان خوش آئند ہے اور اس کا جتنا خیر مقدم کیا جائے کم ہے، مگر بات عملدرآمد کی ہے۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کھلے دل کے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا کہ فوج کی اگر حقیقی معنوں میں مداخلت ختم ہو جاتی ہے تو سیاسی معاملات بہت حد تک بہتر ہو جائیں گے اور بہت سے سیاستدان جو فوج کی چھتری میں پل کر جوان ہوئے ایک طرف ہو جائیں گے اور ملک میں حقیقی سیاسی قیادت پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی پوری تقریر تاریخ کا حصہ ہے۔ اُن کی تقریر کے ایک ایک لفظ پر تجزیے کی ضرورت ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی فوجی نہیں سیاسی ناکامی ہے۔ 1970ء میں الیکشن کرائے گئے تو مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا گیا۔ اگر مغربی پاکستان میں کامیاب ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کیلئے میدان میں آجاتے تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی مگر فوجی قیادت سمیت کوئی بھی شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار دینے کیلئے تیار نہ تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سیاسی ناکامی والی بات ایک حد تک ٹھیک ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت وہاں 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار جوان دفاع کر رہے تھے۔ یہ بات پہلی مرتبہ سننے کو مل رہی ہے۔ پچاس سالوں میں 92 ہزار کا فگر سنتے آرہے ہیں۔ البتہ سرکاری نصاب کی کتابوں میں ستر ہزار کا فگر بھی آتا رہا ہے۔ بہر حال جتنے بھی لوگ تھے کامیابیوں کیلئے سابقہ ناکامیوں کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کے جھوٹے بیانیہ کے حوالے سے بات کی اور یہ بھی کہا کہ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ اُن کا یہ کہنا درست ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت تنہاء پاکستان کو بحران سے نہیں بچا سکتی۔ معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی۔ اس لیے تمام سیاسی جماعتیں سنگین صورتحال کا ادراک کریں اور آگے بڑھیں۔ دوسری طرف آرمی چیف کی تقرری کا مسئلہ آج بھی اخبارات کی شہ سرخی بنا ہوا ہے۔ سیاستدانوں کے علاوہ میڈیا نے بھی اس مسئلے کو آسمان پر پہنچا رکھا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا یہ کہنا کہ صدر عارف علوی آرمی چیف کی سمری پر مجھ سے مشورہ کریں گے اور نام فائنل ہونے کے بعد اپنے سیاسی حق کے استعمال کا فیصلہ کریں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر مسائل اب بھی باقی ہیں۔ دوسری طرف حکومتی اتحادیوں نے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے تقرر کا مکمل اختیار وزیر اعظم شہبازشریف کو سونپ دیا۔ تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ اتحادی جماعتوں کی طرف سے اپنی اپنی پسند بھی سامنے آئی۔ اہل وطن کی نظریں آرمی چیف کی تعیناتی پر لگی ہوئی ہیں کہ اس مسئلے کو عمران خان کی تقریروں نے ایک بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت اتحادیوں کا اجلاس وزیراعظم ہائوس میں ہونے والے اجلاس کی اندرونی کہانی یہ ہے کہ آصف زرداری اپنی دانست اور سیاسی چال کے مطابق اپنی بات کہہ بھی گئے اور باہر آکر ذمہ داری وزیرا عظم پر ڈال دی کہ وہ فیصلہ کرنے میں با اختیار ہیں۔ آرمی چیف کے مسئلے پر پہلے کبھی سیاستدانوں کے اس قدر اجلاس نہیں ہوئے۔ جیسا کہ گزشتہ روز کے اجلاس میں سابق صدر آصف زرداری، مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت، وفاقی وزیر چودھری سالک، بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد مگسی، پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، جمعیت اہلحدیث پروفیسر ساجد میر سمیت دیگر نے شرکت کی۔ یہ سیاست کے بہت بڑے نام ہیں۔ آئینی اور قانونی طور پر آرمی چیف کی تعیناتی میں ان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اجلاس میں دیگر بہت سے امور پر غور ہوا تاہم کہا یہی گیا ہے کہ اجلاس میں آرمی چیف اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی تعیناتی اور ملکی سیاسی صورتحال پر مشاورت کی گئی، سپہ سالار کی تقرری سے قبل سمری صد ر مملکت کو ارسال سے قبل اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا۔ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے گا اور طے ہونا بھی چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں بتایا کہ وزیراعظم نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو نیا آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا وہ بہترین پیشہ وارانہ کیرئیر کے حامل ہیں،لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نیکورکمانڈری کی، وہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ رہے۔لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اپنے فوجی کیرئیر کا آغاز 8 سندھ رجمنٹ سے کیا اور وہ پی ایم اے سے تربیت مکمل کرکے پاک فوج میں شامل ہیں جب کہ فور اسٹارجنرلزکی تعیناتی کی سنیارٹی لسٹ میں جنرل ساحر دوسرے نمبر پر تھے۔ساحر شمشاد مرزا نے بطورلیفٹیننٹ کرنل، بریگیڈیئراور میجرجنرل ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں خدمات انجام دیں،لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ستمبر 2021 سے کورکمانڈر راولپنڈی ہیں، وہ جون 2019 میں چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے پرفائز ہوئے جب کہ مختصرمدت کیلئے ایڈجوٹنٹ جنرل جی ایچ کیو بھی رہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author