ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو زبان کے عظیم شاعر فیض احمد فیض کی برسی خاموشی سے گزر گئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر سیاستدان نامور شاعروں کے اشعار تو پڑھتے ہیں مگر انہیں ان مشاہیر کے ایام یاد نہیں رہتے حالانکہ شاعر کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کو اقتدار کی جنگ سے فرصت نہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے صدر عارف علوی کو دھمکی دے ڈالی ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلے پر گڑ بڑ کی تو نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ایک طرف عمران خان کا لانگ مارچ جاری ہے۔ دوسری طرف توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کا فوجداری ٹرائل شروع ہو چکا ہے۔ یہ کارروائی الیکشن کمیشن کی درخواست پر کی جا رہی ہے۔ جبکہ عمران خان نے کہا ہے کہ امپورٹڈ حکومت عوام اور اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کرنا چاہتی ہے مگر ہماری حقیقی آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ جب حکومت اور اپوزیشن کو اقتدار کی جنگ سے فرصت ہی نہیں تو فیض احمد فیض کو کون یاد کرے گا؟ یہ حقیقت ہے کہ حاکم طبقہ فیض کی زندگی میں ان سے کتراتا رہا،وفات کے بعد بھی قربتیں پیدا نہیں ہو سکیں، فیض کاجرم یہ ہے کہ محبت کے ساتھ انہوں نے انقلاب کی بھی بات کی۔ غم جانا ں کے ساتھ غم روزگار کا تذکرہ وہ کرتے رہے، حالانکہ یہی بات ان کی بڑائی اور عظمت کی دلیل ہے۔ فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک زمانے کو متاثر کیا، ان کا اپنا اسلوب اور اپنا انداز تھا، محبوب کے ساتھ مزدور کا ذکر کر کے انہوں نے اپنی شاعری کو لافانی بنا دیا۔ فیض احمد فیض1911ء کو کالا قادر (اب فیض نگر) سیالکوٹ موجودہ ضلع ناروال میں پیدا ہوئے، والد چوہدری سلطان محمد خان بیرسٹر تھے۔1915ء میں تعلیم کا آغاز حفظ قرآن سے ہوا، 1927ء میں مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک کیا، علامہ اقبال کے استاد شمس العلما مولوی سید میر حسن سے فارسی اور عربی میںتعلیم حاصل کی۔ 1931ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور عربی میں بی اے (آنرز) کیا۔ 1933ء میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کیا۔ 1935ء میں ایم اے اوکالج امرتسر میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ 1936ء میں سجاد ظہیر اور صاحبزادہ محمود الظفر کے ساتھ ملکر ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ 1938ء میں ماہنامہ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر رہے۔ فیض احمد فیض 1940ء میں ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے، 1941ء میں ایلس جارج سے اسلامی شریعت کے مطابق نکاح شیخ محمد عبداللہ نے پڑھایا۔ 1942ء میں بطور کیپٹن فوج میں ملازمت اختیار کی اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ ہوئے، 1943ء میں میجر، 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل، 1946ء کو فوج سے مستعفی ہو کر لاہور واپس آ گئے۔ فیض احمد فیض قیام پاکستان کے بعد 1947ء تا 1958ء پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے تحت شائع ہونے والے روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ امروز اور ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ کے مدیر اعلیٰ رہے، 1948ء میں مزدور رہنما کی حیثیت سے عالمی ادارہ محنت کے اجلاس منعقدہ سان فرانسسکو (امریکا)،1949ء میں عالمی ادارہ محنت کے اجلاس منعقدہ جنیوا میں شرکت کی، 1950ء میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ 1951ء میں سیفٹی ایکٹ کے تحت 9مارچ کو گرفتارہوئے اور راولپنڈی سازش کیس کے الزام میں چار سال تک مختلف جیلوں میں مقید رہے۔ 1955ء میں 20 اپریل کو چار سالہ قید سے رہائی ملی، 1958ء میں تاشقند کا سفر کیا، اسی سال دسمبر 1958ء میں دوسری بار سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے۔ روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘امروز اور لیل و نہار‘‘ مارشل لاء حکام نے اپنے قبضے میں کر لئے۔ 1959ء میں ان کی فلم ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی، اسی سال پاکستان آرٹس کونسل کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1962ء میں روس کا سب سے بڑا ’’لینن امن انعام‘‘ ملا۔ 1952ء تا 1964ء انگلستان بعد ازاں سیاحت ممالک اسلامیہ الجزائر، مصر، لبنان، شام، عراق اور ہنگری اور دوسرے یورپی ممالک کا سفر اور متعدد کانفرنسوں میں شرکت کی۔ 1978ء تا 1982ء ایفرو ایشیائی سہ ماہی مجلہ ’’لوٹس‘‘ بیروت کے مدیر رہے‘‘۔ 1983ء میں وطن واپس آ ئے اور لاہور میں مستقل سکونت اختیار کی۔ فیض احمد فیض نے فلم انڈسٹری کیلئے بھی کام کیا، ان کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جبکہ انہوں نے درجنوں فلموں کیلئے غزلیں، گیت اور مکالمے بھی لکھے، آپکے شعری مجموعے نقش فریادی، دست صبا، زندان نامہ، دست تہ سنگ، سدادئی سینا، قرض دوستاں، میرے دل میرے مسافر،سارے سخن ہمارے، (یہ سب مجموعے اب ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے یک جلد شائع ہو گئے ہیں)۔ میزان (تنقیدی مضامین)، صلیبیں میرے دریچے میں (خطوط)، متاع لوح و قلم (نثر)، ہماری قومی ثقافت (نثر)، مہ و سال آشنائی (یاداشتیں) شامل ہیں۔ 1975ء میں آرٹس کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ملتان میں کرائے کے ایک مکان میں آرٹس کونسل قائم ہوئی، معروف شاعر اسلم انصاری پہلے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آرٹس کونسل میں مصوری کی نمائش جاری تھی۔ فیض احمد فیض نے کہا’’انصاری صاحب! یہ ملتان کی آرٹس کونسل ہے اس کے فن پاروں میں ملتان نظر آنا چاہئے‘‘۔میں سمجھتا ہوں کہ تاریخی حیثیت کی حامل ایسی تاریخی بات کوئی تاریخ ساز شخصیت ہی کر سکتی ہے، بلا شبہ انقلابی شاعری کی تاریخ فیض کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی، غالب اور علامہ اقبال کے بعد ان کا شمار اردو کے سب سے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے، فیض احمد فیض نے اپنی انقلابی فکر اور عاشقانہ لہجے کو ملا کر ایک ایسا لہجہ اپنایا جس سے اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہو گئی۔قومی مشاہیر کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کو یاد کرنے کے ساتھ ان یادوں کو محفوظ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اسی بناء پر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 1984ء میں 18 نومبر کو اپنے گائوں کالا قادر (فیض نگر) سیالکوٹ گئے، حرکت قلب بند ہونے سے 20 نومبر کو وفات پائی،لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر