گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاٶں کے رومیٹنک قصے
آج سے ساٹھ ستر سال پہلے ڈیرہ اسماعیل خان شھر میں دو سینما تھے جہاں سے شھر کے لوگوں کو انٹرٹینمنٹ مل جاتی مگر دیہی زندگی میں نہ ریڈیو۔ نہ ٹی وی۔ نہ سینما تھا۔ دن کو تو لڑکے روائتی کھیل میں مگن رہتے مگر رات کو باہر نکلنا محال ہوتا تو پرانے لوگ بچوں کو زبردست قسم کے قصے سنا کے محظوظ کرتے۔قصہ گو تھے تو ان پڑھ مگر کمال کا حافظہ رکھتے تھے۔ کچھ قصہ گو بہت اچھی آواز میں گا کر بھی ھیر وارث شاہ کا سماں باندہ دیتے۔ اتفاق کی بات ہے کہ پریوں ۔جنوں ۔دیووں۔ سانپوں اور طوطوں کا ذکر اور رومانس ان کہانیوں میں ضرور ملتا۔ اکثر کہانیوں میں شھزادیاں اور پریاں کسی خوبصورت بہادر نوجوان کو جو ٹارزن کی شکل کا ہوتا دل دے بیٹھتیں اور ہم تصور میں وہی ٹارزن نوجوان بننے کے خواب دیکھتے۔ سردیوں کی شاموں میں ہم ہجروں کے کمروں کے اندر ایک دائیرے کی شکل میں بیٹھ کر لکڑی کی آگ کا الاو روشن کرتے جو پھر انگارے بن جاتے اور دیر تک کمرہ گرم رہتا۔ایک خوبصورت گرم چادر جسے لکار کہتے بھی ہر لڑکے کے پاس ہوتی۔ قصہ گو بزرگ کبھی گڈوی کی تھاپ پر کبھی جست کا تھال الٹا کر کے ڈھولک بجا کر قصہ شروع کرتے۔درمیان میں کچھ شعر ایسے ہوتے جو وہ گا کر سناتے۔ آخر میں انگاروں پر پکی خالص دودھ اور گُڑ کی چاۓ کا دور چلتا اور ہم اپنے گھروں کو چلے جاتے۔ یاد رکھیں انگاروں پر پکی چاۓ کا مزہ بہت مختلف اور عمدہ ہے۔گرمیوں میں تو چونک یا ہجرے کے کمرے کے باھر کھلے صحن میں چارپائیاں بچھا کے بیٹھک لگتی۔ کچھ بزرگ حقہ پیتے مگر نوجوان بالکل حقہ نہیں پیتے تھے نہ کوئی نشہ کرتے۔اب تو مجھے حقہ بہت کم دوردراز دیہاتوں میں نظر آ جاۓ تو آ جاۓ شھر میں کہیں نظر نہیں آتا۔ گرمیوں کی راتوں میں جب چودھویں رات کا چاند طلوع ہوتا چاندنی چھٹکنے لگتی تو پورا گاوں جگمگ کرنے لگتا کیونکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ ویسے تو اندھیرا ہوتا۔ایسی روشن راتوں میں ہم بزرگوں کی محفل سے ذرہ دور بیٹھ کر محفل جماتے۔اچھی آواز والے دو لڑکے تھالوں کے طبلے کی تھاپ پر خواجہ غلام فرید کا گیت۔۔پیلو پکیاں نے آ چُڑوں رل یار آ۔۔ گاتے باقی لال شھباز قلندر کے ملنگوں کی طرح بے خود ہو کر جھومر ڈانس کرتے۔ ہمارے سنگر لڑکے بگڑو کی کلیاں بھی گاتے۔ بگڑو ایک رومینٹک گیت ہے جس کا ایک بند یا شعر بے معنی یا مہمل مگر وزن پر ہوتا ہے دوسرا شعر اصل مطلب بیان کرتا ہے اسے ماہیا بھی کہتے ہیں ۔بگڑو سناتے اور گاتے ہوۓ لڑکے شرارت کر کے ایسا بند بھی ڈال دیتے جسے سن کر ہم ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک لڑکے نے بڑی سریلی آواز میں جب کچھ ایسے شعر پڑھے تھے تو ساری محفل لوٹ لی تھی اور ہستے ہستے محفل برخاست ہو گئی۔شعر یہ تھے؎ دو پَتر اناراں دے۔۔ساڈا غم سنڑ سنڑ کے روندے کھوتے کمہاراں دے۔ اس شعر کا ترجمہ یا مطلب اس طرح ہے کہ پہلا بند تو بے معنی یعنی انار کے دو پتے ۔۔۔مگر دوسرا بند کہتا ہے کہ ہماری جدائی کے غم کے قصے سن سن کر گاوں کے کمہار کے گدھے بھی رونا شروع کر دیتے ہیں۔سنگر نے یہ بگڑو گا کر اچانک دریس کی رومینٹک محفل کو قہقہوں میں بدل دیا۔بانسری بجانا بھی اکثر لڑکے جانتے تھے جن میں خود میں بھی شامل تھا۔ مجھے یہ ایڈوانٹیج تھا کہ لاھور رہنے کی وجہ سے فلموں کے گیت ازبر ہوتے تھے۔ان دنوں سات لاکھ فلم اپنے عروج پر تھی جو میں نے کئی بار دیکھی جس میں نیلو۔۔۔۔اے موسم رنگیلے سہانے ۔۔جیا نہیں مانے ۔۔تو چھٹی لے کے آ جا بالما۔۔۔۔گیت پر شاھکار ڈانس کرتی ہے ۔میں خود لاھور میں ایک پردیسی تھا تو ایسے گیت مجھے ہانٹ کرتے میرے دل میں اتر جاتے۔پھر میں بھی چھٹیوں میں گھر آیا کرتا تو اس گیت کو بانسری کی لے پر چڑھاتا اور لڑکوں کو بھی سکھایا۔اس طرح بگڑو کےگیت بھی لڑکے اچھی طرح بانسری پر سنا دیتے تھے۔ اس وقت گاوں میں نہ بجلی تھی۔نہ لاوڈسپیکر تھے۔ نہ ریڈیو نہ ٹی وی جب ہماری بانسری کی آواز اس رات کے سناٹے میں گونجتی تو دور دور تک ایک خوشبو کی طرح پھیل جاتی دل کے تار چھیڑ دیتی اور ایک حسین و جمیل منظر جھلکنے لگتا۔ اب دل کے تار چھیڑنے والی بانسری رہی نہ وہ بگڑو کے گیت ۔۔اب گاوں میں بھی لاوڈسپیکروں۔ٹریکٹروں۔ٹرالیوں۔ سایلنسروں۔ کاروں میں لگے ڈیک کا شور اور غل اس قدر ہے کہ کان کے پردے پھاڑ دیتا ہے جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ کوئیل کی آوازیں۔تیتر کی سبحاں تیری قدرت۔کالکڑچھی کا صبح چار بجے عبادت کرنا ۔فاختاوں اور بلبلوں کے نغمے قصہ پارہنہ ہو گئیے۔
اب اگر آپ کو بگڑو یا ماہیا کے دو مصرے یاد ہیں تو لکھ دیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ