دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلہن ایک رات کی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پیٹ کھلا اور بچے دانی کے ایک طرف زخم کا اوپر والا حصہ نظر آیا جہاں سے خون کا اخراج ہو رہا تھا۔ وہاں تک ویجائنا کے راستے پہنچنا بہت مشکل تھا۔ ویجائنا کٹی پھٹی حالت میں تھی۔ پروفیسر صاحبہ نے ٹانکے لگائے۔ آپریشن ختم ہونے تک بارہ چودہ بوتل خون لگ چکا تھا، لیکن مریضہ کی حالت نازک تھی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پندرہ سولہ برس کی دبلی پتلی لڑکی، مانگ میں افشاں چمکتی ہوئی، مٹا مٹا میک اپ، ہاتھ اور بازو مہندی کے خوبصورت نقش و نگار سے سجے ہوئے، رنگت سفید جیسے جسم میں ایک قطرہ خون نہ ہو، ایک عورت دائیں طرف، دوسری بائیں طرف سے تھامے ہوئے، سفید و سیاہ چار خانے والا کھیس اوڑھے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے لیبر روم میں داخل ہوئی۔

اذان سنتے ہوئے ہسپتال کے احاطے میں بنی مسجد کے میناروں نے آہ بھری۔ دن کا اجالا قبر کے اندھیرے میں کیسے بدلتا ہے، ان سے بہتر کون جان سکتا تھا۔

نرس نے عورت کے ہاتھ سے پرچی لی، ۔ کب سے بلیڈنگ ہو رہی ہے؟
رات بارہ بجے سے۔
لٹاؤ ادھر بلاتی ہوں ڈاکٹر جی کو۔
سسٹر ذرا جلدی۔

اچھا اچھا۔ یہاں پہنچ کر سب کو جلدی یاد آ جاتی ہے، مریض کا بیڑا غرق کر کے لاتے ہیں اور پھر جلدی کرو۔ نرس بڑبڑاتی ہوئی جاتی ہے۔

آج تو ساری رات جاگتے گزر گئی۔ ایمرجنسی پہ ایمرجنسی۔ شکر ہے دن چڑھنے والا ہے۔ ڈیوٹی ختم ہو تو گھر جاؤں، کمر سیدھی کروں۔ تختہ بن چکی ہے۔

ڈاکٹر جی، ایک اور ایمرجنسی آ گئی۔ آ کر دیکھ لیں۔ دلہن لگ رہی ہے۔ پتہ نہیں ماں باپ کیا سوچ کر اس عمر میں بیاہ کر دیتے ہیں؟

سسٹر لٹائیں معائنے والے کمرے میں۔ بلڈ پریشر لیں، میں آ رہی ہوں۔
ہاں بی بی کیا ہوا؟
وہ جی خون پڑ رہا ہے بہت۔ پہلی عورت کا جواب۔
کیا ماہواری آئی ہے؟
نہیں جی، ماہواری نہیں۔
تو پھر کیا؟
وہ جی۔ رات کو۔
کیا ہوا رات کو؟

وہ جی شادی ہوئی تھی نا کل تو رات کو سہاگ رات تھی اس کی۔ بس جی ایسا خون چھوٹا کہ بند ہی نہیں ہو رہا۔ پہلے اپنے شہر کے ہسپتال لے کر گئے۔ وہاں کی ڈاکٹر کہنے لگی کہ مسئلہ کچھ زیادہ ہے تو بڑے ہسپتال لے جاؤ۔ دوسری عورت بولی۔

افوہ۔ کیا کیا ہے آپ لوگوں نے اس بچی کے ساتھ۔

ننھی سی دلہن کی آنکھیں بند تھیں۔ کھیس ہٹا کر شلوار اتروائی گئی جس پہ خون کے بڑے بڑے دھبے نظر آ رہے تھے۔ ٹانگوں کے درمیان روئی کا پورا بنڈل موجود تھا جو لہو میں بھیگ کر سرخ ہو چکا تھا۔ ویجائنا میں ٹھونسی گئی زخموں والی پٹی سے بھی خون ٹپک رہا تھا۔

جونہی ڈاکٹر نے پٹی نکالی، خون کا جیسے فوارہ ابل پڑا ہو۔ ڈاکٹر چیخ اٹھی۔ خون کی چار بوتلوں کا بندوبست کرو۔ بے ہوشی والے ڈاکٹر کو بلاؤ۔ سینئیر ڈاکٹر کو کال کرو۔ لیبارٹری فون کرو۔ خون آنے تک دونوں ہاتھوں میں ڈرپ لگاؤ۔

جلدی، جلدی۔ حالت خراب ہے۔

وہ جی ہم جلدی فارغ ہو جائیں گے نا۔ دوپہر کا ولیمہ ہے جی۔ ہمارا سفر بھی دو گھنٹے کا ہے یہاں سے۔ ساتھ آئی دونوں عورتوں میں سے ایک گھبرا کر بولی۔

بی بی، خدا کا خوف کرو۔ کچھ شرم کرو۔ ولیمہ، بھاڑ میں جائے تمہارا ولیمہ۔ دعا کرو یہ معصوم بچ جائے۔
سسٹر جلدی کریں۔ فوراً آپریشن تھیٹر کو بتائیں۔
جی ڈاکٹر صاحب۔
بے ہوشی کا ڈاکٹر آ چکا تھا اور لڑکی کی حالت دیکھ کر فکر مند تھا۔
میڈم نبض میں زور نہیں۔ لگتا ہے رک رک کر چل رہی ہے۔ آپ چھ آٹھ بوتلوں کو بندوبست تو کروائیں۔

ڈاکٹر امجد۔ آپ کو پتہ ہی ہے لوگ خون دینے کے نام سے ہی بھاگ جاتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ ہسپتال والے خون کہاں سے لائیں؟ نلکے میں تو آتا نہیں کہ جتنی چاہو بوتلیں بھر لو۔

جی۔ یہ تو ہے۔ نہ جانے لوگ کب سمجھیں گے؟

آپریشن تھیٹر کی میز پہ بے ہوش مریضہ کے ساتھ تین ڈاکٹر سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے مگر نہ خون رکتا تھا، نہ ویجائنا میں آئے زخم کا اوپر والا سرا دکھائی دیتا تھا۔

ڈاکٹر مہوش۔ جس طرح خون خارج ہو رہا ہے، ایسے لگتا ہے کوئی بہت ہی بڑی رگ پھٹ گئی ہے۔
میم شہ رگ؟ ایک جونئیر ڈاکٹر بولی۔
شہ رگ اور ویجائنا میں؟ بچے اب اس وقت یہ مذاق نہ کرو۔ سینئیر ڈاکٹر جھنجھلا کر بولی۔
جہاں سے ٹانکہ بھرتی ہوں، وہیں سے گوشت پھٹ جاتا ہے۔ اتنی بری حالت ہے۔
میم جگہ بھی تو اتنی تنگ ہے اور زخم اندر تک۔
ہاں پتہ نہیں کس جنگلی سے پالا پڑا اس بے چاری کو۔

اچھا بھئی زخم کا اوپر والا حصہ نہیں پکڑا جا رہا۔ وہیں سے خون خارج ہو رہا ہے۔ چلو پروفیسر صاحبہ کو کال کرو کہ فوراً پہنچیں۔

ڈاکٹر مہوش۔ چار بوتلیں خون کی پمپ کر چکا ہوں۔ پلیز اور خون کا بندوبست کروائیں۔ انیستھیزیسٹ پریشان آواز میں بولا۔

جاؤ بھئی، خون کے لیے پرچی بنا کر دو۔
آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا۔ جونئیر ڈاکٹر نے ہاتھ میں پکڑی پرچی دیتے ہوئے کہا۔ چار مزید بوتلیں۔

ڈاکٹر صاحب، ذرا جلدی کر دیں، ہمارے ولیمے کی دیگیں چڑھ چکی ہیں۔ گھر پہنچنے میں بھی دو گھنٹے لگیں گے۔ پھر کچھ تیاری شیاری۔ دلہن کے بغیر تو ولیمہ نہیں ہو سکتا نا۔

اففف۔ تم لوگ تو بہت ہی بے حس لوگ ہو بھئی۔ لڑکی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے اور تم لوگوں کو دیگیں یاد آ رہی ہیں۔ ڈاکٹر نے چیخ کر کہا۔

جی۔ ڈاکٹر مہوش۔ پروفیسر صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ ویجائنا میں پٹی دبا دبا کر رکھ دیں۔ وہ آ رہی ہیں۔
وہ تو میں رکھ چکی ہوں پہلے سے۔
بیس منٹ بعد ۔

بچے پتہ کرو، پروفیسر صاحبہ کہاں ہیں ابھی؟ بتاؤ کہ نازک ہے حالت۔ جتنا خون دے رہے ہیں، وہ خارج ہو رہا ہے۔

میڈم، کال کیا ہے وہ ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہیں۔ دس منٹ اور لگیں گے۔
افوہ۔

میڈم۔ بلڈ بینک نے چار بوتل خون اپنے پاس سے دیا ہے۔ باقی چار بوتلوں میں سے دو ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹرز نے دی ہیں اور دو میڈیکل سٹوڈنٹس نے۔ رشتے دار سنتے ہی نہیں جب بھی خون کا انتظام کرنے کو کہیں۔

بھئی سسرال والوں کو کیا ہمدردی ہو گی اس سے۔ کچھ گھنٹوں پہلے کی دلہن۔ شوہر کہاں ہے اس کا؟ اسے بلاؤ ذرا اس سے بات کروں۔

پچیس چھبیس برس کا مرد سامنے آتا ہے۔
کیا نام ہے تمہارا؟
اسلم جی۔
اسلم یہ بتاؤ کیا ہوا تھا رات کو؟
جی وہ۔ وہ۔
ہاں ہاں بتاؤ۔
وہ جی وظیفہ زوجیت ادا کیا تھا۔
اور یہ بلیڈنگ؟
وہ تو جی سنا ہے لڑکی باکرہ ہو تو ہوتی ہی ہے پہلی رات۔
اس نے روکا نہیں تمہیں؟
جی بہت روکا، چیخی چلائی، مگر مجھے سب دوستوں نے کہا تھا کہ لڑکیاں چیختی ہی ہیں، سو تم مت سننا۔
ایسی کیا جلدی تھی؟

وہ جی ولیمہ تو جائز کرنا تھا نا اور خاندان والوں نے بستر کی چادر بھی دیکھنی تھی۔ بلیڈنگ نہ ہو تو مصیبت پڑ جاتی ہے، برادریوں میں دنگا فساد ہو جاتا ہے۔

اف خدایا۔ ڈاکٹر نے اذیت سے آنکھیں میچ لیں۔ یہ جھوٹی مردانگی۔
وہ جی ایک اور۔ ایک اور بات بھی تھی۔ وہ رک رک کر بولا۔
وہ کیا؟
وہ جی گولی کھلائی تھی۔
کس نے کھلائی تھی، کس کو؟
جی دوستوں نے کھلائی تھی مجھے۔
کیوں؟
بس جی، دوستوں نے کہا تھا کہ اچھا ہوتا ہے۔ ذرا ہمت زیادہ ہو جاتی ہے۔
کیا نام تھا گولی کا؟
وہ جی کچھ وی۔ ویا۔ کچھ اسی طرح کا۔
تم نے اس کی چیخ و پکار کیوں نہیں سنی؟
جی، وہ میں اپنے بس میں نہیں تھا۔
اچھا جاؤ خون کا بندوبست کرو۔ خود دے دو۔
وہ جی میرا تو چلتے ہوئے سانس پھولتا ہے، کمزوری ہو جاتی ہے۔ میں نہیں دے سکتا۔

پروفیسر صاحبہ ہانپتی کانپتی اندر داخل ہوتی ہیں۔ ایک تو سڑک پہ گاڑیوں کا رش۔ پھر کوئی جگہ بھی نہیں دیتا۔ کوئی سوچتا ہی نہیں کہ کوئی مریض مشکل میں ہو سکتا ہے۔

پروفیسر صاحبہ نے ویجائنا کے راستے کوشش کی کہ خون نکلنے والی جگہ پہ ٹانکے لگائے جا سکیں لیکن زخم بہت گہرائی میں تھا۔ نہ ہاتھ پہنچتا تھا نہ اوزار اور خون تھا کہ بہتا چلا جاتا تھا۔

اب پیٹ کھولنا پڑے گا، اوپر سے کوشش کرتے ہیں۔ پروفیسر نے اعلان کیا۔ رشتے داروں کو بتا دو۔

جونہی خبر باہر پہنچی، کھلبلی مچ گئی۔ نہیں جی نہیں۔ ہم نے بڑا آپریشن نہیں کروانا۔ گھر برادری سے بھرا پڑا ہے، ولیمے کا کھانا دے رہے ہیں ہم اور دولہا دلہن کے بغیر۔

لڑکی کی حالت نازک ہے۔ پیٹ کے راستے ٹانکے نہ لگائے تو مر جائے گی، سوچ لیں۔ ڈاکٹر نے کہا۔
اچھا۔ طوہا کروہا حامی بھری گئی۔

پیٹ کھلا اور بچے دانی کے ایک طرف زخم کا اوپر والا حصہ نظر آیا جہاں سے خون کا اخراج ہو رہا تھا۔ وہاں تک ویجائنا کے راستے پہنچنا بہت مشکل تھا۔ ویجائنا کٹی پھٹی حالت میں تھی۔ پروفیسر صاحبہ نے ٹانکے لگائے۔ آپریشن ختم ہونے تک بارہ چودہ بوتل خون لگ چکا تھا، لیکن مریضہ کی حالت نازک تھی۔

میڈم۔ مریضہ کا خون جمنا بند ہو گیا ہے۔ جہاں بھی سوئی لگاتا ہوں، بلیڈنگ شروع ہو جاتی ہے۔ انیستھیزیسٹ نے پریشانی سے اعلان کیا۔

اوہ۔ یہ تو اور برا ہوا۔
جی لگتا ہے DIC شروع ہو گئی۔

خدایا۔ کیسے بچے گی یہ؟ اچھا بلڈ بینک سے رابطہ کریں اور درخواست کریں کہ سفید خون کا بندوبست کریں جلد از جلد۔

‏ ( DIC میں خون ایک سوئی بھی چبھنے سے بہتا چلا جاتا ہے )
جی کال کیا ہے بلڈ بینک۔ وہ کوشش کر رہے ہیں لیکن گھر والوں میں سے کوئی دے ہی نہیں رہا۔
انہیں ولیمے کی فکر پڑی ہے۔
آہ کاش ماں باپ چھوٹی بچیوں کی شادی کرتے ہوئے کچھ تو سوچ لیا کریں۔

کچھ گھنٹوں بعد سفید چادر میں ڈھکی لڑکی کو مردہ خانے کی ایمبولینس میں رکھتے ہوئے آیا نے سوچا۔ کہنیوں تک مہندی والے ہاتھ اطراف میں بے جان پڑے تھے۔ مانگ میں افشاں ابھی بھی چمک رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author