گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی اور ڈیرہ ۔
جب دوسری جنگِ عظیم میں جاپان پر امریکی ایٹم بم گرا کر اسے تباہ کر دیا گیا اور امریکی فوج جاپان پر حاوی ہو گئی تو بعد میں امریکیوں نےجاپان کی معیشت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لئے منصوبہ بنایا۔ اس سلسلے میں
W.Edwards Deming
کوجاپان بھیجا گیا کہ وہ جاپانیوں کو کوالٹی کنٹرول کی ٹریننگ دے۔ بس پھر کیا تھا کہ پوری دنیا میں جاپان کی گاڑیوں۔الیکٹرانک ۔کیمروں وغیرہ کا طوطی بولنے لگا۔اور اب تک جاپان کی مصنوعات دنیا میں چھائ ہوئ ہیں۔ چین نے ان مصنوعات کی کم قیمت پر پیداوار سے دنیا میں دھوم مچا دی۔
اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان میں جو چیزیں وافر مقدار میں موجود ہیں وہ یہ ہیں۔۔۔
1۔ دودھ کی پیداوار
2۔ دودھ سے تیار کردہ روائتی سوھن حلوہ
3۔ ڈھکی کی مشھور زمانہ کھجور۔
4۔ مقامی سبزیوں اور پھلوں کی وافر پیداوار۔
5۔ لکڑی سے بناۓ گئے بہترین گفٹ ۔ جو صدیوں سے مشھور ہیں۔
مگر مسئلہ یہ ھے کہ ہمارے پاس کوئ Deming جیسا شخص موجود نہیں جو ان چیزوں کی کوالٹی کو بہتربنانے کے طریقے بتاۓ۔
ان اشیا کو preserve کرنے ۔ویلیو ایڈڈ بنانے۔پیکنگ کرنے ۔مارکیٹنگ کرنے کی ٹریننگ دے۔ کاٹیج انڈسٹری کی بنیاد رکھے۔
اس سلسلے میں ایک تو مقامی یونیورسٹی کے پروفیسر ریسرچ کر کے ہماری مدد کر سکتے ہیں لیکن پھر انکی ریسرچ کو جب تک حکومت پزیرائ نہ دے تو سب کچھ لیبارٹری میں پڑا رہتا ھے۔
75 سال سےڈیرہ کے لوگ حکومت سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دے کر ملک کے لئے زر مبادلہ کماۓ ۔۔ اس سے پہلے یہاں پر مقامی طور پر کشیدہ کاری اور افغان واسکٹ بنانے کا کام عروج پر تھا جس سے خواتین کو روزگار ملتا تھامگر حکومت کی بے حسی اور بے توجہی کے باعث وہ کاروبار بھی ٹھپ ہو چکا ھے۔
ہمارے ترقیاتی منصوبے ڈرائنگ روم میں بنتے ہیں جس میں کمیشن زیادہ ہو۔ نہ مقامی سطح پر ریسرچ کی جاتی ہے نہ پوچھا جاتا ہے۔ یار 75 سال کے بعد ہی سوچ کر اپنی صحیح سمت کا تعین کر لو۔
جھوکاں تھیسن آباد ول ۔۔
خواجہ غلام فرید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر