گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان اور سیلاب کی تباہ کاریاں ۔۔۔
حالیہ سیلابوں میں ڈیرہ اور ٹانک کے کئ دیہات ڈوب گئے۔ سیلابی پانی فصلوں میں داخل ہوا تو فصلیں تباہ ہو گئیں۔کچھ زمینوں پر پانی اب بھی کھڑا ہے اور پیٹر لگا کر نکالا جا رہا ہے ۔ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔کھاد کی قیمت 50% بڑھ گئ ۔کسان کہاں جاۓ؟ ہمارا میڈیا اور لیڈر سیاسی جھگڑوں سے فارغ نہیں ہو سکے۔ یہ وڈیو ڈیرہ سے شمال بند کورائ گاٶں کی ہے جہاں دو پیٹر سیلابی پانی نکال رہے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں بجلی کی فراہمی کے سو سال ۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ خوش قسمت تو ہیں کہ ان کو جدید بجلی کی سھولتیں استعمال کرتے ہوئے پورے سو سال ہو گئے۔ڈیرہ کا پہلا بجلی گھر 1921ء میں راۓ صاحب روچی رام کٹھڑ نے۔۔کٹھڑ الیکٹرک انجبیرنگ اینڈ جنرل سپلائ کمپنی ڈیرہ۔۔۔ کے نام سے فورٹ اکال گڑھ روڈ پر بنایا۔جس سے شھر اور چھاونی کے علاقوں کو بجلی سپلائی کی جاتی تھی۔یہ بجلی گھر ایک انگریز انجینیر مسٹر پوکاک چلایا کرتے تھے۔ہندو مالکان کی ہندوستان نقل مکانی کے بعد حکومت صوبہ سرحد نے 2 لاکھ 45 ھزار 887روپے کلیم کے ادا کیے اور اس کا انتظام سنبھالا۔ واپڈا کا دفتر اور گرڈ سٹیشن آجکل اسی جگہ واقع ھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ1947 سے 1980 تک لوگوں نے لوڈ شیڈنگ کا نام تک نہیں سنا تھا۔
آج آذادی کے 75 سال بعد
گومل زام ڈیم سے بھی بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ چشمہ ہیڈرو پاور بھی قریب اور چشمہ نیوکلر الیکٹرک پاور ہاوس بھی 100کلومیٹر پر اس کے علاوہ پانچ چھ شوگر ملیں بجلی پیدا کر کے دیتی ہیں ۔چشمہ رائٹ بنک کینال سے مفت بڑے پیمانے پر بجلی پیدا ہو سکتی ہے مگر نہیں بنائ جا رہی۔ لوڈشیڈنگ نے ڈیرہ والوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ 1947 ء میں جتنے بجلی گھر کی قیمت تھی اتنا بجلی کا جرمانہ تو واپڈا آجکل ایک ایک گھر پر ڈال دیتا ہے۔
اب اس کو بد انتظامی کرپشن اور ناہل قیادت کا نتیجہ سمجھیں یا قسمت کا لکھا ۔۔۔۔۔ سمجھ نہیں آتی!!!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ