نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ میں تیسرا دن۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دن سے سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہوں ،سانحہ سیہون شریف میں ایک ہی خاندان کے 20 افراد کی شہادت نے پورے سندھ کو سوگوار کر دیا ہے۔ اس واقعے سے وسیب میں کشتی ڈوبنے کا سانحہ ماچکہ یاد آ گیا، بھلا ہو سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود اور ان کے بیٹے جو وفاقی وزیر ہیں، انہوں نے میری درخواست پر مرکزی حکومت سے سانحہ ماچکہ کے لواحقین کو مالی امداد دلوائی ۔ سندھ میں پی پی کی اپنی حکومت ہے اور مرکز میں بھی پی پی حکومت کی اتحادی ہے، سانحہ سیہون شریف کے متاثرین کی ہر صورت مدد ہونی چاہئے۔ سندھ حکومت کے ساتھ مرکزی حکومت بھی فراخدلی کے ساتھ مدد کرے کہ یہ حادثہ نیشنل ہائی وے پر پڑے شگاف سے پیش آیا ہے، وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود کو ذمہ داری قبول کرنی چاہئے، حادثے کا باعث بننے والے چند افسران کو معطل کر دینا کافی نہیں ہے، حکومت ذمہ داری کا ثبوت دے ۔ پورا سندھ سیلاب سے تباہ ہو چکا ہے، سڑکیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں ، سیلاب زدہ علاقوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہے، وسیب کی طرح سندھ میں بھی بحالی کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے، وزیر اعظم شہباز شریف کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے حوالے سے اعلانات نقش برآب ثابت ہوئے ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں مگر کرپٹ بیورو کریسی وسائل متاثرین تک نہیں پہنچنے دے رہی۔ سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کے حالیہ سیلاب نے بہت سی حقیقتوں کو بے پردہ کر دیا ہے، حکومتوں میں شامل وڈیرے سیاستدانوں کا آپس میں لاکھ اختلاف ہو، پارٹیاں الگ الگ ہوں مگر ان کی سوچ ایک ہے۔ تینوں خطوں کی محرومی و پسماندگی کا اصل باعث یہی وڈیرے اور جاگیردار ہیں، اس حقیقت کا ادراک شدت سے سامنے آ رہا ہے ، وڈیروں نے اپنی سوچ نہ بدلی تو عوامی بیداری کا سیلاب ان کو بہا لے جائے گا، بہتر یہی ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کو ان کا حق دیں۔ سینئر بلوچ قوم پرست رہنما رئوف خان ساسولی سے بلوچستان کے مسائل پر بات ہوئی ، ان کا کہنا تھا جب تک سیاست وڈیروں کے نرغے سے آزاد نہیں ہو گی مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ بلوچستان پہلے بھی زبوں حالی کا شکار تھا، سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی ۔ بلوچستان میں وڈیرے اور مافیاز مزے میں ہیں جبکہ عام آدمی کی حالت ابتر ہے۔ ملک میں تبدیلی اور بہتری کی ضرورت ہے، اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ اقتدار کی جنگ چل رہی ہے۔ اقتدار پرست سیاستدانوں اور اقتدار پرست جماعتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، عام آدمی سخت مشکلات کا شکار ہے، ملک کو ابتر صورتحال سے نکالنے کیلئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، نئے آئیڈیاز سامنے آنے چاہئیں ۔ رئوف خان ساسولی نے کہا کہ ملتان جا رہا ہوں ، ساہیوال شادی میں شریک ہونا ہے، واپسی پر ملتان میں اہل دانش سے ملاقات ہو گی اور ملکر ملک کی بہتری کا سوچیں گے ۔ کراچی میں سرائیکی عوامی اتحاد کے چیئرمین ملک فیصل کھرل نے اپنے دفتر میں بندہ ناچیز کے اعزاز میں پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا۔ سیاسی ورکروں کے علاوہ کراچی میں مقیم شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ میں نے اس موقع پر کہا کہ اس وقت وسیب اتحاد کی ضرورت ہے، نا اتفاقی سے وسیب کے لوگ مسائل کا شکار ہیں، اقتدارپرست جماعتیں جو کہ وسیب کے مسائل کی اصل ذمہ دار ہیں کا جھنڈا اٹھانے یا ان کا حصہ بننے کی بجائے ان کے خلاف ڈنڈا اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وسیب کے جاگیردار جو کہ نسل در نسل اقتدار کے مراکز کا طواف کرتے آ رہے ہیں ان کے سامنے جھکنا چھوڑنا ہوگا، آج کا نوجوان اپنے ہاتھوں کو ان کے پائوں کا آشنا کرنے کی بجائے ان کے گریبانوں کا واقف کرے، ظالم صرف ظلم کرنے والا نہیں بلکہ ظلم سہنے والا بھی ہوتا ہے ، وسیب کے نوجوان کراچی میں مزدوری کے ساتھ علم حاصل کریں اور غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔ آرمی چیف کی تقرری ، توشہ خانہ ، لانگ مارچ ،یہ سب عام آدمی کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے حربے ہیں، نومبر تیزی کے ساتھ اختتام کی طرف رواں دواں ہے، دسمبر آ رہا ہے، تبدیلیوں نے موسموں کو مزید سخت بنا دیا ہے، سیلاب متاثرین کو ابھی تک چھت نہیں مل سکی وہ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں ، تھل میں جیپ ریلیاں ہو رہی ہیں ، چولستان جیپ ریلی بھی آنے والی ہے، تھل چولستان میں مسافر پرندے سائبیریا سے آ رہے ہیں ، شکاریوں نے بھی تیاریاں کر رکھی ہیں ،اب عیاش شکار ی پھر وسیب کا رخ کریں گے ، غیر ملکی شکاری بھی آنے والے ہیں ، خدا جنگلی حیات کو ظلم سے بچائے کہ مہمان اور مہمان پرندے نصیب والوں کو نصیب ہوتے ہیں ۔ ہر ذی روح کی نقل مکانی کی دو تین وجوہات ہیں ، سب سے پہلی اور بڑی وجہ بھوک اور فاقہ ہے، روزی کی تلاش کیلئے ہر ذی روح ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے، دوسری وجہ ظلم اور زیادتی ہے جہاں بد امنی حد سے بڑھ جائے اور جان خطرے میں ہو تو وہاں سے راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے ، تیسری وجہ موسمی تغیرات بھی ہر زندہ چیز کو ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی پر مجبور کردیتے ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ سائبیریا کی شدید سردی اور موت کے خوف سے پرندے چولستان آتے ہیں اور یہاں شکاریوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں، شکاریوں کو اس کا احساس نہیں کہ سائبیریا سے آنے والے پرندے کتنی مسافت کر کے امان اور پناہ کیلئے روہی چولستان آئے، سفر کے دوران ان کو کیا مشکلات پیش آئیں؟۔ میرا دفتر ملتان کی سب سے بڑی پرندہ مارکیٹ کے ساتھ منسلک ہے، تیس سال سے یہاں مقیم ہیں، مرحوم شیخ گلاب قریشی جو پرندوں کے بڑے تاجر تھے مجھے پرندوں کے بارے بہت کچھ بتاتے تھے،میں نے سائبیریا کے مسافر پرندوں کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا تھا کہ اکتوبر سے جنوری تک ان کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تین سے چار ہزار میل کی مسافت طے کرتے ہیں، یہ آمد صدیوں سے ہے ، ہندوستان اور پاکستان کے کچھ دیگر علاقوں میں بھی جاتے ہیں مگر ان کو سب سے زیادہ سکون چولستان میں ملتا ہے، سفر کے دوران بوڑھے ، بیمار اور نوخیز پرندے مر بھی جاتے ہیں ، ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دن رات محو پرواز رہتے ہیں۔ قاتل شکاریوں سے کوئی پوچھے کہ گھر میں آئے مہمان سے کیا ایسا سلوک ہوتا ہے؟۔

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author