مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی میں دفاعی نمائش۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکسپو سنٹر کراچی میں عالمی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2022ء جاری ہے، اس وقت یہ کراچی کا سب سے بڑا ایونٹ ہے، ایسے لگتا ہے پورا کراچی نمائش دیکھنے کیلئے بے تاب تھا۔ 18 سال سے کم عمر افراد نمائش نہیں دیکھ سکتے حالانکہ نمائش دیکھنے کی سب سے زیادہ خواہش اور تمنا نوجوانوں کی ہے، بچے بھی نمائش دیکھنے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ نمائش میں پاس کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں ہے، ہمیں تو پاس مل گئے مگر بہت سوں کوں ترلے کرتے دیکھا۔ ’’جنگ سے نفرت ، امن سے محبت‘‘ پوری دنیا کا نعرہ ہے مگر بد امنی کے دفاع کیلئے بھی اسلحے کا ہونا ضروری ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیشہ جارحیت کا شکار وہ غریب اقوام اور ملک ہوئے جو غیر مسلح تھے۔ ایکسپو سنٹرمیں بہت رش ہے، ہمارے جانے سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دفاعی نمائش کا معائنہ کیا اور مختلف سٹالز دیکھے۔ آئیڈیاز نمائش میں بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے جہاز کا ٹکڑا بھی دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔ اس نمائش میں 64 ممالک اپنی مصنوعات کے ساتھ شریک ہیں ، اس طرح کی عالمی نمائش ملتان ، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان و ڈیرہ اسماعیل خان جیسے پسماندہ شہروں میں بھی ہونی چاہئیں۔ پسماندہ علاقوں کے شہریوں کو بھی تفریح اور معلومات کے حصول کے مواقع ملنے چاہئیں، اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ پسماندہ سرائیکی وسیب جس کی بہاولپور اور ملتان رجمنٹ کے نام سے رجمنٹیں رہی ہیں ، سندھ رجمنٹ کی طرح وسیب رجمنٹ بھی ہونی چاہئے اور پاک فوج کے اعلیٰ عہدوں پر وسیب کے لوگوں کے لئے مواقع پیدا کرنے کے علاوہ وسیب میں کیڈٹ ساز اداروں اور کیڈٹ کالجوں کا قیام ضروری ہے۔ کراچی پہنچا ہوں ، کراچی کے کئی القاب ہیں ، یہ منی پاکستان ہے ، ملک کا کوئی شہر یا گائوں ایسا نہیں جس کے افراد کراچی میں نہ بستے ہوں۔ کراچی کو غریبوں کی ماں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ملک بھر کے غریبوں کو یہاں روزگار ملتا ہے، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کا شہر اس لئے ہے کہ کراچی میں تمام بولیاں بولنے والے لوگ آباد ہیں۔ کراچی میں غربت بہت ہے تو امارت بھی ہے، کراچی میں روزگار ہے مگر سکون نہیں۔ کراچی پہنچنے پر میرے بیٹے طاہر محمود نے مجھے بتایا کہ چند ماہ سے سٹریٹ کرائم کی شرح میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، راہ گیروں سے موبائل ، نقدی اور عورتوں سے پرس چھیننا معمول بن چکا ہے، شہر کی کوئی گلی ایسی نہیں جہاں روزانہ ایک دو وارداتیں سرزد نہ ہوتی ہوں ۔ دراصل وہ مجھے خطرے سے باخبر کر رہے تھے کہ میں اکثر گلشن اقبال کی گلیوں میں نکل جاتا ہوں اور بے پروائی سے موبائل فون کا استعمال کرتا ہوں۔ ابھی ہم بات کر رہے تھے کہ میرے عزیز ارسلان خان مٹھو نے بتایا کہ اپنی گلی میں دو نقاب پوش موٹر سائیکل سوار دودھ فروش سے گن پوائنٹ پر رقم اور موبائل چھین کر فرار ہو گئے۔ شہریوں کے تحفظ کیلئے کراچی میں پولیس کے علاوہ رینجرز بھی موجود ہے ، یہ بد امنی سوالیہ نشان ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ سینئر صحافی اور پیارے دوست سعید خاور اور منظور شاہ نے درست کہا کہ سٹریٹ کرائم میں اضافے کی وجہ مہنگائی اور بیروزگاری بھی ہے، حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ، کرنل (ر) اقبال ملک نے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کے ساتھ ملک میں نئے صنعتی شہر آباد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جب بھی کراچی آتا ہوں وسیب کے لوگ بے پناہ محبت دیتے ہیں، میٹنگز اور ملاقاتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ہمارے مرحوم دوست قاسم خان لاشاری کی اہلیہ محترمہ نے اپنے گھر پر استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا، خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور وسیب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مسائل زیر بحث آئے۔ وسیب تریمت سانجھ کی رہنما اور آل پاکستان میڈیا کونسل کی صوبائی وائس چیئرپرسن ادی کرن لاشاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو تشدد اور بربریت کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 50 لاکھ کے لگ بھگ سرائیکی کراچی میں مقیم ہیں، ان میں تقریباً25لاکھ مرد اور 25لاکھ خواتین اور ان کے بچے ہیں، اپنے وسیب میں اناج کے انبار ہونے کے باوجود یہ لوگ اپنا وطن وسیب چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوئے ؟۔ یہ آج کا بڑا سوال ہے۔ ایک استقبالیہ تقریب پاکستان سرائیکی قومی اتحادکے مرکزی رہنما عابد شاکر کی طرف سے تھی، سیاسی حوالے کے ساتھ ادبی حوالے سے بھی عابد شاکر کا نام ہے ، وہ شاکر شجاع آبادی کے شاگرد ہیں، ان کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ استقبالیہ تقریب میں سرائیکی رہنما فیصل کھرل ، ایاز رند، ملک سلطان ملانہ ، سلیم سانگی اور عرفان خان و دیگر نے خطاب کیا۔ عابد شاکر اور فیصل کھرل نے کہا کہ کراچی قوم پرستی کی یونیورسٹی ہے، سرائیکی شناخت کی تحریک کا آغاز 1970ء کے عشرے میں کراچی سے ہوا، قائد سرائیکستان ریاض ہاشمی نے سرائیکی شناخت کی تحریک کو سیاسی تحریک میں تبدیل کیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں نصف صدی کے دوران بہت کام ہوا ، سیاسی جدوجہد کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں فخر ہے کہ سرائیکی تحریک نے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا، کراچی 50 لاکھ سے زائد سرائیکی یہاں کام کر رہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ لوگ خوشی سے کراچی نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ وسیب میں میں اناج اور وسائل کی فراوانی کے باوجود ان کو وسیب پر قابض قوتوں کی وجہ سے انہیںروزگار کے لئے یہاں آ نا پڑا انہوں نے مطالبہ کیا کہ وسیب میں ناجائز الاٹمنٹوں کے خاتمے کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وسیب کے نوجوانوں کو بیدار ہونا چاہئے۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: