گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کا ایک عجیب باب
بغداد کا آخری وزیراعظم جس نے خونخوار ہلاکو خان کے ساتھ یہ خفیہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر منگول وعدہ کریں کہ عباسی خلیفہ کو تخت سے اتار کر اسے یعنی ابن علقمی کو حکمران بنا دیا جائے گا تو وہ بغداد کے دروازے تاتاری لشکر پر کھول دے گا۔۔۔
قدرت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔۔۔
ابن علقمی نے بغداد کے دروازے کھول دیئے ۔ دریائے دجّلہ مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوگیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر قتل عامِ تاریخ نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ لیکن کیا ابن علقمی کو بغداد کا تخت ملا۔۔۔؟
ہلاکو نے اسے قالین میں لپیٹ کر مست ہاتھیوں کے سپرد کردیا۔ اپنے سپاہیوں سے اس نے کہا۔۔۔ ” جو شخص اپنی قوم کا وفادار نہ ہوسکا اس پر میں کیسے اعتماد کروں۔۔۔؟
یاد آیا جو اسیران قفس کو گلزار ۔۔
مضطرب ہوکے یوں تڑپے کہ قفس ٹوٹ گئے۔
ڈیرہ اسماعیل خان جو ایک اعلی تعلیمی ادبی اور تجارتی سرگرمیوں کا پرامن ترین شھر تھا اس میں کچھ بیرونی عناصر نے پچھلے دو عشروں میں نااتفاقی ۔نفرت اور انتشار کے بیج بوۓ تو یہاں کا اعلی تعلیم یافتہ طبقہ خاموشی سے دوسرے شھروں اور بیرون ملک ہجرت کر گیا اور شھر ویران سا ہو گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ گل گیے گلشن گئے اور باقی ہمارے جیسے دھتورے رہ گئے ۔ جو شھر کا سنگھار تھے وہ رفتہ دور جا بیٹھے۔لیکن وطن تو آخر وطن ہے جب یاد ستاتی ہے تو واپس ڈیرہ یہ دیکھنے لوٹ آتے ہیں کہ کوئی انہیں یاد بھی کرتا ہے کہ نہیں؟.. ڈیرہ میں پچھلے 25 سالوں میں وہ نسل پل کر جوان ہو گئی انہوں نے وہ حسین و جمیل دور دیکھا بھی نہیں وہ کہاں ایسے بے مثال لوگوں یا بے مثال شھر کی رونقوں سے واقف ہے۔ آج ایک شعر سامنے آیا تو اپنے پردیسی ہموطنوں کی یاد میں آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔شعر یہ ہے۔؎
یہ دیکھنے کو جاتا ہوں اس شہر بار بار !!
کس کس کو میری نقل مکانی کا دکھ ہوا !!
قدرتی ماحول اور پرندوں کے نغمے
مجھے گرمیوں کی راتوں میں کھلے آسمان کے نیچے صحن میں سونا بہت اچھا لگتا ہے۔ستاروں سے بھرا آسمان ۔کہکشان کا سفر ۔پورن ماسی رات کو چاند کی جوانی۔جگنو کی شعائیں ۔چاندنی کی اٹھکیلیاں ۔رات کو اڑتے بگلوں کی جھاریں۔ دور کوئل کی سناٹا توڑنے والی آواز یہ سب چیزیں میرے من کے رومانس کی غذا ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے صحن کے درخت پر ایک ۔۔کالکرچھی۔۔پرندے کا آشیانہ تھا۔ یہ پرندہ بالکل کوے کی طرح کالا سیاہ لیکن اس سے بہت چھوٹا ہوتا ھے لیکن اس کی آواز بہت ہی پیاری ہوتی ھے۔ مجھے یاد ھے یہ صبح ٹھیک چار بجے اپنا نغمہ شروع کرتا اور آدھا گھنٹہ جاری رکھتا یہ ہمارا morning lark تھا۔ اس کے بعد کوئیل کی آواز اور ساتھ مرغوں کی بانگ ۔پھر فاختہ یا جسے ہم گیرا کہتے ہیں وہ نغمہ شروع کرتے۔تھوڑی دیر بعد بلبل آ جاتی وہ بھی اپنا نغمہ دل سناتی ۔آخر میں چڑیوں کی چہچہاٹ شروع ہو جاتی۔ طوطے کیں کیں کرتے اور کوے کاں کاں شروع کر دیتے۔ گھر میں پالتو کبوتر غٹڑ غوں شروع کرتے۔ مشکی تیتر سبحان تیری قدرت کا نغمہ مستانہ بلند کرتا ۔گورا تیتراور چکور اپنا رنگ دکھاتے۔ اب جوں جوں ہم درخت کاٹتے جاتے ہیں پرندے ہم سے روٹھ رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ