ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اثاثوںپاکستان سٹیل ملز، پاکستان سٹیٹ آئل و دیگر اثاثوں کی فروخت کیلئے بات چیت کا آغاز کیا ہے، گوادر بندر گاہ پہلے ہی چین کو پچاس سال کیلئے لیز پر دی جا چکی ہے، اس کے علاوہ حکومت ملک کے ہوائی اڈے ، ہائی ویز، پاورپلانٹس وغیرہ اور دیگر قومی اثاثے فروخت کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے مگر سابقہ تجربے کو دیکھا جائے تو یہ بات اُلٹ ہو جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کے پچھلے دور اقتدار میں اسی طرح کا منصوبہ بنا اور کہا گیا کہ قومی خزانے پر جو ادارے بوجھ ہیں ان کو فروخت کیا جائے گامگر ہوا یہ کہ منافع بخش ادارے مسلم کمرشل بینک اور ڈی جی سیمنٹ فیکٹری و دیگر اثاثے برائے نام قیمت پر فروخت کر دئیے گئے ، قرض اتارو ، ملک سنوارو کی سکیمیں بھی نقش بر آب ثابت ہوئیں۔ مشرف دور میں بھی پاک عرب فیکٹری ملتان سمیت قومی اثاثے اپنوں کو نوازنے کیلئے استعمال ہوئے۔ عمران خان نے 2018ء سے پہلے ان باتوں کی نشاندہی کی اور پاکستان پر بڑھنے والے قرض کے بوجھ کا نام لیا، آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے کی بات کی ، جب برسراقتدار آئیپاکستان پر قرضوں کا بوجھ دو گنا بڑھ گیااور آئی ایم ایف کی ناجائز شرائط بھی مانی گئیں جس سے مہنگائی کا طوفان آیا اور غریبوں کی چیخیں نکل گئیں۔ موجودہ حکومت مختصر مدت کیلئے ہے، قومی اثاثوں کی فروخت کا کوئی منصوبہ نہ بنایا جائے کہ ملک کا پہلے ہی دیوالیہ نکل چکا ہے۔ یہ کونسی دلیل ہے کہ قرض اتارنے کیلئے بھاری سود پر قرضے لئے جائیں اور پھر پاکستان کی معاشی صورتحال خراب ہو تو پاکستان کے ہی قومی اثاثے فروخت کر دئیے جائیں۔ اس میں بھی ہوتا یہ ہے کہ اثاثے فروخت کرنے کا صرف اعلان ہوتا ہے باقی سب کچھ اونے پونے داموں اپنوں کو ہی نواز دیا جاتا ہے۔ قومی اثاثے غریبوں کے ٹیکس سے وجود میں آتے ہیں مگر ہر معاملے میں محروم طبقات کو رگڑا لگایا جاتا ہے، پسماندہ علاقوں کا مزید کچومر نکالا جاتا ہے۔ کسی جماعت نے آج تک غربت کے خاتمے کا کوئی پلان نہیں دیا، صرف اقتدار کی جنگ ہو تی آ رہی ہے اوراب یہ جنگ خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے، قومی معاملات کی بہتری کا کسی کے پاس کوئی پلان نہیں۔ سب سیاستدان غریبوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں، نو سال سے خیبرپختونخواہ چار سال سے پنجاب ، گلگت ، آزاد کشمیر میں تحریک انصاف برسراقتدار ہے ،بتایا جائے کہ کیا بہتری ہوئی؟۔ پیپلز پارٹی مرکز میں 10سال سے زائد عرصہ اور سندھ میں پندرہ سال سے برسراقتدار ہے بتایا جائے کہ غریب کو کیا ملا؟ کیا سندھ کے پسماندہ ترین دیہی علاقوں کو ترقی حاصل ہوئی ؟تمام باتوں کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ جو لوگ بڑے بڑے بنگلوں میں بیٹھے ہیں اور جہازوں پر اُڑتے ہیں ان کو عام آدمی کے مسائل کا کسی صورت ادراک نہیں ہو سکتا۔ غربت کے مناظر دیکھنے ہیں تو ملک کے پسماندہ علاقوں میں آکر دیکھئے ۔ سرائیکی وسیب دو صدیوں سے محرومی کا شکار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی معاشی حالت بہتر کرنے کی بجائے ابتری کا شکار کی جاتی رہی۔اس علاقے کے عوامی نمائندوں نے حق نمائندگی ادا نہیں کیا، وہ آج بھی اسمبلیوں میں گونگے بنے ہوئے ہیں۔ انگریز دور سے سے لیکر آج تک صرف وہ اقتدار کے مراکز کا طواف کرتے آ رہے ہیں۔عمران خان اور عثمان بزدار کا تعلق وسیب سے تھا وہ بہت کچھ کر سکتے تھے مگر انہوں نے بھی کچھ نہ کیا۔ اس سے بھی اگر پیچھے چلے جائیں تو نواب مشتاق احمد گورمانی، نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد، ممتاز خان دولتانہ، مصطفی کھر، صادق قریشی، مخدوم سجاد قریشی، نواب عباس خان عباسی سمیت کتنے لوگ ہیں جو اہم عہدوں پر نہ رہے ہوں،وسیب کو صدر مملکت اور وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عہدے بھی تفویض ہوئے مگر وسیب کی محرومی اور پسماندگی ختم نہ ہو سکی۔ آج پیپلز پارٹی اور ن لیگ بر سراقتدار ہیں دونوں نے اپنے منشور میں صوبے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے، وعدے کی تکمیل کا اس سے بہتر کوئی موقع نہیں آ سکتا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ الیکشن آ رہے ہیں ۔ شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی سے صوبے کی قرار داد منظور کرائی، بعد میں سینیٹ سے بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس ہوا، اس کی تکمیل ضروری ہے۔ پہلی مرتبہ وسیع البنیاد مخلوط حکومت بنی ہے، اب کسی طرح کے عذر کی کوئی گنجاش باقی نہیں رہی، صرف ایک سال کا وقت ہے، یہ حقیقت ہے کہ جب تک صوبہ نہیں بنے گا وسیب کے مسئلے حل نہیں ہوں گے ۔ 2010ء کے سیلاب زدگان کو انصاف نہ ملا کہ 2022ء کے سیلاب سے وسیب کا پورا دامان برباد ہوگیا۔ تمام اضلاع آج بھی بحالی کے منتظر ہیں۔ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے وسیب کے تمام اضلاع کیلئے صرف بارہ ارب اور گجرات جہاں کوئی سیلاب نہیں آیا اس کی ترقی کیلئے ایک سو سولہ ارب روپے دئیے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز چوہدری پرویز الٰہی نے لاہور میں بلیو لائن انڈر گرائونڈ منصوبہ جس کی لاگت کھربوں میں ہے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ لاہور کے میٹرو منصوبے کو جنگلہ بس کا نام دیتے رہے ، لاہور کے اورنج ٹرین منصوبے پر عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی اعتراض کرتے رہے لیکن ظلم یہ ہے کہ پسماندہ وسیب کو نظر انداز کر کے ترقی یافتہ شہروں کو مزید ترقی یافتہ بنایا جا رہا ہے، کیا اس کا نام انصاف ہے؟۔ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے قصور سے بہاولنگر موٹروے منصوبے کا اعلان کیا ہے، اس منصوبے پر اعتراض نہیں مگر اس سے پہلے موٹر وے بہاولنگر سے بہاولپور تک بننی چاہئے اور ایک موٹر وے بہاولنگر سے براستہ وہاڑی ملتان سی پیک تک لنک اپ ہونی چاہئے۔ بہاولنگر محرومیوں کا شکار ہے، محرومیوں کے ازالے کیلئے بہاولنگر میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون بننا چاہئے، کیڈٹ کالج اور میڈیکل کالج کے ساتھ ایک یونیورسٹی کا قیام ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر