گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونے کے سکے اور ہمارے خواب ۔
میں جب FSC کر رہا تھا تو گاٶں کے ہرے بھرے کھیتوں میں کتابیں لے کر پڑھنے چلا جاتا ۔اپنی چادر کھیت کے کنارے گھاس پر ڈال کے گھنٹوں سٹڈی کرتا۔ یہاں سکون اور خاموشی تھی یا پھر سرسوں کی خوشبو جس پر شھد کی مکھیاں اور تتلیاں منڈلا رہی ہوتیں۔کبھی فاختہ یا کوئل کی آواز کانوں میں رس گھولتی۔ جب فزکس کیمسٹری سے پڑھ پڑھ کے بور ہو جاتا تو کوئی رومینٹک کہانی پڑھنی شروع کرتا جو ڈائجسٹ میں چھپی ہوتی۔ ایک دن سسی پنوں کی کہانی پڑھ رہا تھا جو کچھ اس طرح تھی۔۔
ﺳﺴﯽ ﺷﮩﺮ بھمبھور (سندھ) ﮐﮯ ایک ﮨﻨﺪﻭ ﺭﺍﺟﮧ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﮭﯽ اس کی پیدائش پر شاہی ﺗﻮﮨﻢ ﭘﺮﺳﺖ ﺟﻮﺗﺸﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ راجہ کے ﺗﺎﺝ ﺍﻭﺭ ﺗﺨﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻨﺤﻮﺱ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ تھا اس لیے ﺭﺍﺟﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻟﮑﮍﯼ ﮐﮯ صندوق ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺳﻨﺪﮬﻮ دریا ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ گیا۔ﺻﻨﺪﻭﻕ ﺑﮩﺘﮯ ﺑﮩﺘﮯ اک دھوبی گھاٹ پر پہنچا اور ﺩﮬﻮﺑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ہاتھ لگ گیا، صندوق کھولنے پر جب ایک بچی نکلی تو ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺍﻭﻻﺩ ﺩﮬﻮﺑﯽ ﺟﻮﮌﮮ ﻧﮯ ﺳﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺩ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ۔ﺳﺴﯽ جب بڑی ہوئ تو ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺴﻦ ﻣﯿﮟ ﯾﮑﺘﺎ ﺗﮭﯽ اور ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﺴﯽ ﮐﮯ ﺣﺴﻦ ﮐﮯ ﭼﺮﭼﮯ ﮨﺮ سو ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﮯ۔ ﮐﯿﭻ ﻣﮑﺮﺍﻥ بلوچستان ﮐﺎ ﻣﯿﺮ ﭘﻨﻮﮞ ﺑﮭﯽ سسی کی خوبصورتی کے ﭼﺮﭼﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ کپڑے دھلوانے کے بہانے بھمبھور شہر میں اس کے والد کے پاس ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔اور جب ﺍﺱ کی ﭘﮩﻠﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﺴﯽ ﭘﺮ پڑی ﺗﻮ وہ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻝ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭ بیٹھا، دوسری طرف ﺳﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ کی مردانی وجاہت کو دیکھ کر ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻝ ﮨﺎﺭ ﮔﺌﯽ۔ﺳﺴﯽ ﮐﺎ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ اپنی ﺩﮬﻮﺑﯽ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ اس لیے ﭘﻨﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﮬﻮﺑﯽ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﺴﯽ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﻧﮕﺎ تو ﺳﺴﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﭘﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ اس کے سامنے ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮے ﮐﮧ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺩﮬﻮﺑﯽ ﮨﮯ۔ﻧﺎﺯ نخروں میں ﭘﻼ ﭘﻨﻮﮞ بھلا ﮐﭙﮍﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﻫﻼﺋﯽ کے بارے کیا جانتا تھا، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﯿﺴﮯ ﮐﭙﮍﮮ تو ﺩﮬﻮﺋﮯ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﭙﮍﮮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽﺩﻫﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯿﮟ ﮔﮯ اور اس ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﺎ ﺣﻞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻧﮑﺎﻻ ﮐﮧ ﮨﺮ ﮐﭙﮍﮮ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﮑﮧ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ۔یوں ﺟﻮ بھی اپنے دھلے ﮐﭙﮍے ﻟﯿﺘﺎ ﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻗﻼﺑﮯ ﻣﻼﺗﺎ، یہ دیکھ کر ﺳﺴﯽ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺎﻥ ﮔﯿﺎ۔۔۔
جب میں اس مقام پر پہنچا تو میں نے اپنے جیب میں بے خیالی سے ہاتھ ڈال دیا ۔ میری جیب میں سونے کے سکے تو نہیں تھے مگر چند کوڈیاں
تھیں۔ ہم گاٶں کے لڑکے کوڈیوں سے گیم کھیلتے اور جو جیت جاتا وہ بہت سے کوڈیوں کا مالک بن جاتا۔
میں نوجوان تھا سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کوڈیوں سے بھی سسی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کئی خیالی پلاو پکائے اور بھمبھور کی گلیوں میں گھومتا رہا۔ جب کہ میری سسی مجھے چار سال بعد ملی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ