گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوچہ کوچہ قہوہ خانے میکدے شیراز کے۔
ڈیرہ اسماعیل خان شھر میں اب تک ساون کی بارش نہیں ہوئ اور بادل بن برسات کے گزر رہے ہیں۔ اگرچہ پچھلے سال آج کے دن ساون ٹوٹ کے برسا تھا۔ نصرت زیدی کا ایک شعر ہے ؎
کوچہ کوچہ قہوہ خانے میکدے شیراز کے۔
گویا شھر اصفہاں ہے ڈیرہ اسماعیل خان ۔
رنگ و نغمہ دھاونی کے رنگ میں دیکھے کوئی۔
گویا شھر عاشقاں ہے ڈیرہ اسماعیل خان۔
چنانچہ اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ڈیرہ میں چونسہ آم کے موسم کے ساتھ دھاونیوں کا سیزن شروع ہے۔
دھاونڑی کا مطلب ہے نہانا۔ مگر ڈیرہ میں دوستوں کا اکٹھا ہو کے دریاے سندھ کے کنارے جا کر شغل میلہ کرنا۔ وہیں رل مل کے قسم قسم کے پکوان خود پکانا اور گرمیوں کے شدید موسم میں دریا کے ٹھنڈے پانی میں نہانےکو دھاونڑی کہا جاتا ہے۔ جدید زمانے میں اسے پکنک بھی کہ سکتے ہیں بشرطیکہ کہ دریا کا کنارا ہو ۔ ڈیرہ میں دھاونڑی کی تاریخ اصل میں کئی سو سال پرانی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کو ڈیرہ کی ثقافت کا حصہ بنا دیا گیا۔ پارٹیشن سے پہلے دریاے سندھ کے کنارے بالو سیٹھ کا تھلہ دھاونڑی کا مرکز تھا جہاں اتوار کے روز ہندو مسلم سکھ لوگوں کا بہت رش ہوتا ۔اس جگہ کنویں۔باغات۔ ہال۔شیڈ۔بڑے بڑے بوھڑ کے درخت تھے اور اتوار کے روز درجنوں دیگیں پکائی جاتیں اور لوگ دریا کے ٹھنڈے پانی میں نہانے کے بعد طرح طرح کے کھانے کھاتے۔ آموں کو ایک جال نما تھیلے میں دریا کے اندر باندھ دیتے اور وہ ٹھنڈے ہو جاتے ۔ہر آدمی وہاں سے ایک آم نکال کے چوستا۔ یہاں سنگر میوزک کا پروگرام بھی پیش کرتے۔ہمارے بچپن کے زمانے منچلے ڈھول اور شہنائی والا ساتھ لے کر سندھ کنارے جاتے ٹینٹ لگاتے ڈھول کی تھاپ پر دریس ہوتی اور دھاونڑی کے ساتھ ساتھ ڈیرہ کی مشھور ڈش ثوبت بھی پکتی رہتی۔ پھر ٹیپ ریکارڈرز کے ذریعے نغمے لگا کے جُھمر شروع ہوئی۔ اب دریائے سندھ میں شھروں کا سیوریج ڈال کر اس کو اتنا زیادہ آلودہ کر دیا گیا ہے کہ دریا کے اندر کوئی نہانا پسند نہیں کرتا۔مگر ڈیرہ وال تو پھر ڈیرہ وال ہیں ۔انہوں نے اپنے زمینوں اور گھروں میں بڑے تالاب Swimming pool بنا لیے اور دھاونڑی کی روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔آجکل ان تالابوں کے اردگرد اونچی دیواریں بنا دی گئی ہیں اس لیے اب خواتین بھی اپنی فیملی کے ساتھ دھاونڑی میں شرکت کرتی ہیں۔ ایسے چھوٹے تالاب میں نے ایران میں بھی لوگوں کے گھروں میں دیکھے تھے۔ بہر حال ڈیرہ وال اپنے ثقافت کو سنبھالنے کے لیے نئے طریقے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں اس لیے ان پر یہ شعر فٹ آتا ہے ؎
کوچہ کوچہ قہوہ خانے میکدے شیراز کے۔
گویا شھر اصفہاں ہے ڈیرہ اسماعیل خان ۔
رنگ و نغمہ دھاونی کے رنگ میں دیکھے کوئی۔
گویا شھر عاشقاں ہے ڈیرہ اسماعیل خان.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ